آج سویرے سویرے ایک دوست نے اپنے مو بائل فون سے
ہمیں صبح کا سلام بھیجتے ہو ئے پشتو زبان میں ایک شعر بھی لکھ بھیجا۔شعر
کچھ یوں ہے ’’ چہ بے حسہّ شم روکیگم․․چہ احساس لرم سو زیگم ‘‘یعنی اگر بے
حس ہو جاوٗں تو بے جان ہو جاتا ہوں ، اگر صاحبِ احساس ہو جاوٗں تو جل رہا
ہو تا ہوں ‘‘ میں ابھی اس شعر کی گہرائی ناپ رہا تھا کہ اخبار آگیا ،
پاکستانی اخبارات بظاہر توکاغذ اور سیاہ لفظوں کا مجمو عہ ہوتے ہیں لیکن
صاحبِ احساس شخص کے لئے یہ اخبارات اپنے اندر بے بسی، بے چارگی،شرم و بھرم،
مجبوری اور غربت کی وہ دردناک تصویر لئے ہو ئی ہو تی ہے جس کا احساس کر کے
انسان اندر ہی اندر جل جاتا ہے۔ صرف آج کے اخبارات(24جون) کے صفحہ اول پر
نظر دوڑائیے-
کراچی میں گرمی سے ہلاکتوں کی تعداد 748ہو گئی، اموات لوڈشیڈنگ،گرمی اور
ہیٹ سٹروک کے باعث ہو ئیں،،،بجلی چوری میں واپڈا شرکِ جرم ہے(وزیرِ
اعلیٰ)لوڈ شیڈنگ کے خلاف ملک گیر مظاہرے،ترک وزیر اعظم کی اہلیہ کا ہار
چوری، پاکستان کے سابق وزیراعظم یو سف رضا گیلانی اور اس کی بیوی کے خلاف
رپورٹ درج۔۔․․،وغیرہ وغیرہ
ایسی خبریں ہمیں روزانہ پڑھنے کو ملتی ہیں جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے
ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے، کیا یہ درست ہے ؟ کیا ہو نا چا ہیئے تھا؟ کیا ہو
رہا ہے ؟ کیا ہمیں آنکھیں بند کر کے اور گونگے بہرے بن کر چپ سادھ لینی چا
ہیے ؟ اگر آپ صاحبِ احساس ہیں، آپ کا دل زندہ، دماغ پر سوز اور ضمیر ہوش
مند ہے تو آپ کہیں گے ، ایسا تو نہیں ہونا چاہیے، کسی کو تو آگے آنا چاہیے،
کچھ تو کرنا چا ہیے، کوئی شمع تو روشن ہو نی چا ہیے کہ تا ریکی اتنی منہ
زور نہ ہو، کہ کچھ دکھائی ہی نہ دے ، کو ئی تو آواز آنی چا ہیے کہ خاموشی
کا ستم ٹوٹے، کسی کو تو بارش کا پہلا قطرہ بننا چا ہیے تا کہ ایسی موسلا
دھار بارش اور طو فان آئے جو منافقت، فریب کا ری،ظلم و بر بریت، جبر و
استبداد، اور حرص و لالچ کے اس مضبو ط اور خطر ناک درخت کو جڑ سے اکھاڑ
پھینکے۔ کسی کو تو مردِ قلندر بننا چا ہیے۔اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ موجودہ
سیا ستدان جن کی اکثریت ایلیٹ کلاس سے ہے، وہ ملک کے حالات کو ٹھیک کر لیں
گے ، اس نام نہاد جمہوری نظام میں رہ کر کو ئی تبدیلی آ سکے گی تو یہ نا
ممکن ہے ۔ بھلا سو چئے ! او رفیصلہ کیجئے ، ہمارے سیا ستدان پچھلے 68برس سے
غریبوں کے مسائل حل کرنے کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں، ان کے پاس زندگی کی تمام
سہولتوں کی فراوانی ہے، انہوں نے کبھی غربت نہیں دیکھی، کیا وہ کسی غریب کی
غربت اور اذّیت ناک زندگی سے آشنا ہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ان سے
کسی بہتری کی امید رکھنا حماقت ہی تو ہے ۔
لیکن بقولِ غالب ’ آخراس مرض کی دوا کیا ہے ؟ ان نام نہاد سیاست دانوں،
جنہوں نے سیاست کو تجارت بنا رکھا ہے، ان سے پاکستانی قوم کی جان کیسے چھو
ٹے گی ؟ یہ سوچ سوچ کر میں کچھ کنفیوز ضرور ہو جاتا ہوں کیو نکہ ان
جاگیرداروں، وڈیروں اور سر مایہ داروں نے اپنے خو نیں پنجے پاکستانی عوام
کے جسموں میں اس طرح گا ڑ رکھے ہیں کہ ان سے جان خلاصی کو ئی آسان کام نہیں
، لیکن بحیثتِ ایک مسلمان میں یہ جانتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کا ایک نام قہار
بھی ہے۔،جبار بھی ہے،پاکستانی ماوٗں کی گو دیں نہ بانجھ ہو ئی ہیں ، نہ اﷲ
تعالیٰ نے کسی قوم میں عظیم شخصیات کو پیدا کرنے ہاتھ روک لیا ہے، ممکنہ
طور پر ایسا شخص پاک فوج کا کو ئی جرنیل ہو سکتا ہے یا کوئی مذہبی سکالرہو
سکتا ہے۔ اگر ہمارے لیڈروں نے نو شتہ دیوار نہ پڑھا اور وہ قوم کے تقدیر سے
اسی طرح کھیلتے رہے تو پھر انشااﷲ غریبوں کی آہیں خود بخود رنگ لا یئں گی
اور ذاتِ باری تعالیٰ اسی قوم میں سے ایک ایسا مردِ قلندر پیدا کر دے گا جس
کے قول و فعل میں کو ئی تضاد نہیں ہو گا، اسے بنگلوں، گاڑیوں، جاگیروں،
مِلوں اور دولت کی لالچ نہ ہو گی۔میری پاکستانی عوام سے اپیل ہے کہ کہ وہ
اﷲ جل و جلالہ کے حضور سر جھکا کر اس قوم میں مردِ قلندر پیدا کرنے کی دعا
کریں۔رمضان کے اس با برکت مہینہ میں ان کی دعائیں قبول ہو سکتی ہین اور
وطنِ عزیز پر چھا ئی ہو ئی یہ ظالم اور مدہوش رات ختم ہو جائے گی ، ایک
ایسی صبح کا سورج طلوع ہو گا، جس میں غریب عوام کی بے بسی، پریشانی، لا
چارگی اور بد حالی انشاﷲ رخصت ہو جائے گی ، ہمیں اﷲ کی رحمتوں سے کبھی
مایوس نہیں ہو نا چا ہیے۔مگر یہ بات بھی نہیں بھو لنی چا ہیے کہ اﷲ تعا لیٰ
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کو کچھ نہیں دیتا بلکہ کوشش کرنے والوں
کی جھولی بھرتا ہے لہذا جب بھی مو قعہ ملے اس سفاکانہ ، وڈیرانہ اور سرمایہ
دارانہ نظام کے خلاف کھڑے ہو کر جد و جہد کرنی چا ہیے۔۔۔۔۔۔۔۔ |