یہ آپ کی توجہ چاہتے ہیں

معاشرے میں جب تک خیر کے کام جاری رہتے ہیں تب تک اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل ہوتی رہتی ہے۔ مسلم معاشرے میں ضرورت مندوں کی حاجت روائی بنیادی فرائض میں شامل ہے لیکن کتنا قابل توجہ پہلو ہے کہ آزادکشمیر اور پاکستان بھر میں یتیم بچوں کی کفالت کا سرکاری سطح پر کوئی منصوبہ نہیں۔ جس گھر کا کفیل موت کا شکار ہو جائے، اس گھر کی دیکھ بھال پر سرکاری سطح پر کوئی انتظام نہیں۔ زکواۃ فنڈ میں بیوہ خواتین کی مالی اعانت کی مدات تو موجود ہیں لیکن ان فنڈز تک رسائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ دیہاتی پس منظر کی خواتین مشکل ترین دفتری تقاضوں کے باعث ان پروگرامات سے استفادہ نہیں کر پاتیں۔ وہ وظیفہ بھی اتنا قلیل ہوتا ہے جس سے ایک فرد کی ضروریات پورا کرنا مشکل ہوتا ہے، کجا کہ اس سے ایک پورے گھرانے کی کفالت کی جائے۔ اسلامی ریاست کی تو یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ بے بس ، مریض، اپاہج، یتیم اور بیوہ کی کفالت کا اہتمام کرے لیکن ہمارے حکمرانوں کے اپنے پیٹ بھریں گے تب ان ضرورت مندوں پر توجہ دیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے لوگ صاحب اقتدار ہیں جو ضرورت مندوں پر توجہ دینے کے بجائے سرکاری وسائل کو لوٹنے کے درپے رہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں انفرادی طور پر تو شہری اپنے رشتہ داروں اور محلے داروں کی دیکھ بھال میں دلچسپی لیتے ہیں لیکن یہ انفرادی مسائل کا حل نہیں۔ اسلام نے زکواۃ کو فرض قرار دیا اور ساتھ ہی اس کا اجتماعی نظام وضع کیا ۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ زکواۃ جمع کرے اور اسے مستحقین تک پہنچائے۔ اس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ ضرورت مندوں کی دیکھ بھال کا سرکاری سطح پر اہتمام کرنا لازم ہے۔ انفرادی طور پر یہ فریضہ انجام نہیں دیا جاسکتا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے آزادکشمیر میں ریڈ فاونڈیشن نے یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم پر توجہ دی تو اس وقت وہ نو ہزار سے زائد بچوں اور بچیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کر رہی ہے۔ ریڈ فاونڈیشن کے ہر سکول میں یتیم بچے زیرتعلیم ہیں، جو معیاری تعلیم او ر تربیت سے استفادہ کررہے ہیں۔ ریڈ فاونڈیشن ان یتیم بچوں کے ٹیوشن فیس، یونیفارم، کتب، سٹیشنری اور خوراک کے لیے نقد امداد بھی کررہی ہے۔

اسی طرح الخدمت فاونڈیشن نے چند سال قبل یتیم بچوں کی کفالت کا شعبہ قائم کیا۔ مختصر عرصے میں الخدمت فاونڈیشن کے زیر اہتمام راولاکوٹ اور باغ میں ’’آغوش‘‘ کے نام سے یتیم بچوں کے تعلیمی اور رہائشی ادارے قائم ہوگئے جن میں 110 بچے رہائش پذیر ہیں اور مثالی تعلیمی اور رہائشی سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ باغ اور راولاکوٹ کے اداروں میں پریپ سے ساتویں تک تعلیم کا انتظام ہے۔ الخدمت فاونڈیشن ان بچوں کو ڈگری کلاسز تک تعلیم دلوانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ مری ایکسپریس وئے پر آغوش کی بلڈنگ زیر تعمیر ہے، جہاں آٹھویں سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم دی جائے گی اور وہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ کو پروفیشنل اداروں میں تعلیم دلوائی جائے گی۔ اسی طرح بھمبر، میرپور اور کوٹلی میں یتیم بچوں کو ان کے گھروں میں 2000 روپے ماہانہ وظیفہ فراہم کیا جارہا ہے، جسے فیملی سپورٹ پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔ جس سے اس وقت تقریبا ۳۰۰ گھرانے استفادہ کررہے ہیں۔ یہ گزشتہ تین سالوں کی کارکردگی ہے۔ میں اپنے قارئین سے درخواست کروں گا کہ جن، جن کے لیے ممکن ہے وہ راولاکوٹ اور باغ کے آغوش پراجیکٹ کو کم از کم ایک بار ضرور دیکھیں۔ ان اداروں کا مثالی نظم ونسق اور بچوں کی تعلیم، تربیت اور رہائشی سہولتوں کا جائزہ لیں اور جن کے لیے ممکن ہے وہ ہر ماہ ایک بار ان بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنے ہی چلے جائیں۔ آپ کے جانے سے ان بچوں کے حوصلے بڑھیں گئے اور آپ بھی ان سے مل کر سکون قلب پائیں گے۔ ذرا چند منٹ کے لیے سوچیے کہ آپ کے پڑوس میں ایک نیک کام ہورہا ہے، اتنے سارے بچے ایک چھت تلے موجود ہیں اور ہم کتنی بار ان کے ساتھ چند منٹ گزارنے کے لیے گئے۔ یقینا ہم میں سے ہر ایک کو ان کفالت میں حصہ ڈالنا چاہیے ، تاہم اگر کسی کے مالی حالات اجازت نہ دیتے ہوں تو وہ شفقت کے دو الفاظ تو بول سکتا ہے، وہاں ان بچوں کے پلے گراونڈ کی صفائی، بجلی کی مرمت، پانی کی فراہمی، عمارت کی تزئین و آرائش میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈال سکتا ہے۔ کتنے ہیں جو ان بچوں کو پارٹ ٹائم میں ہوم ورک کروا سکتے ہیں۔ کتنے ہیں جو ان بچوں کو ہفتے میں ایک دن ٹافیاں پیش کرسکتے ہیں، کتنے ہیں جو عید کے موقع پر ان کو تحائف پیش کرسکتے ہیں۔ اگر یہ سب ممکن نہ ہوتو ان کے ساتھ ایک وقت کا کھانا تو کھا سکتے ہیں۔

ہمارے لیے تو یہی بڑی پریشانی ہے کہ حکومت آزادکشمیر ان اداروں کے لیے سرکاری زمین بھی فراہم نہیں کررہی تاکہ ان کی توسیع کی جائے۔ اس وقت باغ اور راولاکوٹ کے آغوش اداروں میں مزید سینکڑوں یتیم بچوں کی درخواستیں پڑی ہیں، جو وہاں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ اگر حکومت ان اداروں کی توسیع کے لیے مناسب رقبہ فراہم کردے یا کوئی صاحب خیر ان اداروں کو کے لیے رقبے کا بندوبست کرسکے تو ہر ادارے میں کم از کم پانچ سو بچوں کی رہائش اور تعلیم کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ الخدمت فاونڈیشن آزادکشمیر کے ہر ضلع میں یتیم بچوں کے لیے آغوش پراجیکٹ شروع کرنا چاہتی ہے۔ اب تک ان تین سو بچوں کے تعلیمی اور رہائشی اخراجات الخدمت فاونڈیشن پاکستان فراہم کررہی ہے۔گزشتہ سال سے الخدمت فاونڈیشن آزادکشمیر مقامی سطح پر ان بچوں کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم ابھی تک دس فیصد بچوں کی کفالت کا انتظام بھی نہیں ہوسکا۔ ہمارے ہاں وسائل کی کمی نہیں صرف توجہ دینے اور توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ ماہ رمضان نیکیاں حاصل کرنے کا موسم بہار ہے۔ اگر ہم میں سے ہر فرد اپنی آمدنی کا کوئی کم سے کم حصہ ان بچوں کے لیے وقف کردے تو آئندہ چند سالوں میں الخدمت فاونڈیشن آزادکشمیر کے ہر یتیم بچے کو اپنی آغوش میں لینے کی استطاعت رکھتی ہے۔ یہ ہمارا اجتماعی فریضہ ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کے اخراجات برداشت کرہے ہیں تو ہر صاحب استطاعت فرد اپنے ذمے ایک بچے کی کفالت لے لے تو یہ فرض بھی ادا ہو جائے گا اور ہمارے گھر بھی خیروبرکت سے بھر جائیں گے۔ ہم جن پریشانیوں کا شکار ہیں، ان کا واحد حل یہی ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ بانٹیں، ان تییم بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں۔

میں نے جو منظر نامہ پیش کیا ہے وہ کوئی قصہ کہانی نہیں، روز روشن کی طرح عمدہ مثالیں ہیں، جو آپ خود ملاظہ کرسکتے ہیں۔ ایک شمع کچھ لوگوں نے جلا دی ہے، امید ایک کرن ہمارے درمیان موجود ہے۔ اب اس شمع کو جلائے رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ امید کی اس کرن کو قائم رکھنا ہمارا کام ہے۔ یہ ڈپریشن ، تنگ دستی اور سماجی الجھنوں سے چھٹکارے کا ذریعہ بھی ہے اور آخرت میں نبی اکرم صلی اﷲ و علیہ وسلم کی قرب کا ذریعہ بھی۔ کون ہے جو اپنے محبوب نبی کا قرب نہیں چاہتا، حضور صلی اﷲ و علیہ وسلم نے فرمایا جو یتیم کی کفالت کرے گا وہ اور میں جنت میں ایک ساتھ ہوں گے۔ حضور اکرم صلی اﷲ وعلیہ وسلم کے طلبگاروں کے لیے صدا ئے عام ہے۔ اس سال الخدمت فاونڈیشن آزادکشمیر کے پانچ سو یتیم بچوں کی کفالت کا ارادہ رکھتی ہے اور ہر مقام پر صاحب خیر کو متوجہ کرنے کا کام جاری ہے۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117344 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More