نئی سرد جنگ ، نئی صف بندیاں ، پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟

7/8جون 2015جرمنی میں منعقدہ جی سیون ممالک کے اجلاس کے اختتام پر امریکی صدر بارک اوباما نے روسی صدر ولادی میر پوٹن کو وارننگ دی کہ وہ سابق سوویت یونین کوو ٓاپس لانے کی کوشش نہ کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پوٹن واقعی ایسا کرنا چاہتا ہے یا یہ محض امریکی پراپگنڈاہے ؟ اگر یہ محض پراپگنڈا ہے تو اس کا مقصد کیایہ ہے کہ امریکہ دنیا بالخصوص یورپی ممالک کو پوٹن کے خوف میں مبتلا کرکے انہی امریکی پناہ میں رہنے، نیٹو اتحاد کو قائم رکھنے اور ایشیا میں روس کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر یہ حقیقت ہے توکیا پوٹن ایسا کر پائے گا ، کیا وہ سوویت یونین کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں کامیاب ہو سکے گا؟

نئی سرد جنگ کا عندیہ روس کے سابق صدر میخائل گوربا چوف نے یوکرین میں پیش ٓانے والے واقعات کے حوالے سے 2014میں دیا تھاجب روس نے کریمیا کا الحاق اپنے ساتھ کر لیا اور یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی مدد شروع کی ۔اگرچہ روس نے بارہا سرکاری طور پر اس الزام کی تردید کی ہے لیکن مغرب روس کے موقف سے اتفاق نہیں کرتا ۔ مفکرین اور ناقدین کی ایک بڑی تعداد اس بات سے متفق نہیں کہ ایک نئی سرد جنگ کا ٓاغاز ہو چکا ہے ان کے خیال میں جو حالات و واقعات پہلی سرد جنگ کی وجہ بنے وہ اب باقی نہیں رہے لہذا کسی نئی سرد جنگ کا کوئی امکان نہیں ۔کچھ دیگر کی رائے ہے کہ یہ کشمکش محض پوٹن بمقابلہ امریکہ /مغرب ہے اور جب 2018میں پوٹن منظر عام سے ہٹ جائیں گے تو یہ کشمکش اپنے ٓاپ ختم ہو جائے گی۔عین ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن تیزی سے بدلتے زمینی حقائق کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ان حالات میں ولاد میر پوٹن کا کردار نہایت اہم ہے ۔

پوٹن ناپسندیدگی اور خوف کی علامت:
ولا د میر پوٹن ایک conservativeروسی ہے جو روس کی سابقہ روایات کی بحالی اور مغرب بالخصوص امریکہ مخالف نظریات رکھتا ہے ،اسی بنا پر پوٹن کی شخصیت امریکہ کیلئے ناپسندیدہ اور یورپ کیلئے خوف کی علامت ہے ۔ یورپی ممالک کا یہی خوف انہیں امریکی پناہ لینے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ برطانیہ سمیت یورپ کا کوئی ملک ٓاج بھی تن تنہا روسی فوجی طاقت کے ٓاگے ٹھہرنے کی نہ ہمت رکھتا ہے نہ صلاحیت جسکی وجہ یہ ہے کہ ا ن ممالک کی افواج بہت چھوٹی اور جنگی صلاحیت بہت محدود ہے۔ دوسراان میں سے اکثر شدید معاشی اور مالی مسائل سے دوچار ہیں اور سوائے برطانیہ ، جرمنی اور فرانس کے کسی ملک کی معیشت اس قابل نہیں کہ وہ دو دن کے جنگی اخراجات بھی برداشت کر سکے۔انہی کمزوریوں کی بنا پر نیٹو کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد مشترکہ دفاع ہے۔وہ ممالک جنہوں نے باقاعدہ نیٹومعاہدہ پردستخط کیئے ہیں ان کی تعداد 28ہے اور یہ تمام ممالک نیٹو افواج کے اخراجات کو شئیر کر تے ہیں ۔ تاہم پچھلے کئی سالوں سے خراب معاشی حالات کی وجہ سے کئی ممبران ان اخراجات کا بوجھ پر داشت نہیں کر پا سک رہے اور ان میں کمی کی دبی دبی ٓاوازیں بھی سنائی دیتی رہی ہیں جس پر امریکہ زیادہ خوش نہیں تھا۔ اب پوٹن کی صورت میں امریکہ کو ایک وجہ مل گئی ہے کہ وہ یورپی ممالک کو نیٹو اتحاد کو مزید مضبوط کرنے اور اس کی استعداد کو بڑھانے کے لئے مزید سرمایہ اور وسائل مہیا کرنے کی مانگ کر سکتا ہے ۔جرمنی میں 24-25جون 2015کو ہونے والی نیٹو ڈیفنس منسٹرز کی میٹنگ کے اختتام پر جاری کردہ بیان جس میں نیٹو افواج کی استعداد بڑھانے بارے جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے وہ قابل غور ہیں۔ نئی حکمت عملی کے طور پر جرمنی کو pushکرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ مالی اور فوجی لحاظ سے اس میں بھر پور کر دار ادا کرئے جس کی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کی مالی حالت اور معیشت دیگر یورپی اور نیٹو اتحادیوں میں زیادہ بہتر اور مضبوط ہے ۔جنگ عظیم دوئم کے بعد سے اب تک جرمنی نے اپنی افواج کو ملک سے باہر کسی فوجی مہم کیلئے کبھی deployنہیں کیا لیکن اب امریکہ چاہتا ہے کہ کسی ممکنہ روسی جارحیت کے پیش نظر جرمنی نیٹو افواج کی دنیا میں جاری سرگرمیوں کیلئے جرمن فوج کو deployکرئے۔جرمنی کی قیادت میں ایک نئی Very High Readiness Joint Task Force (VJTF)قائم کی گئی ہے جو 48گھنٹوں کے اندر ایک بھر پور فوجی کاروائی عمل میں لا سکے گی جبکہ اس سے پہلے نیٹو افواج کو نقل و حرکت کیلئے قریب ایک ماہ کا عرصہ درکار ہوتا تھا۔اس لحاظ سے مستقبل میں ہونے والی کسی فوجی مہم میں جرمنی لیڈ رول میں نظر ٓائے گا۔

روس سے متعلق دوہری پالیسی:
امریکہ اور یورپی ممالک روس کے ساتھ دوہری پالیسی چلا رہے ہیں ۔ایک طرف IS سے پورا یورپ تشویش کا شکار ہے اور چاہتا ہے کہ روس Syriaاور ISکے خطرے سے نپٹنے میں ان کی مددکرئے اور دوسرے طرف مارچ 2014میں روس کی G8کی رکنیت کو معطل کر دیا گیا اوراس پر اقتصادی پابندیا ں عائد کر دیں جو ٓاج بھی جاری ہیں اور حالیہ G7ملاقات میں مزید پابندیوں کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔اسکے علاوہ نیٹو ڈیفنس منسٹرز کی حالیہ میٹنگ میں اٹھائے جانے والے اقدامات بھی اسی دوہری پالیسی کا حصہ ہیں۔
مغرب اور مشرق میں ہونے والی نئی صف بندیاں ۔پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟

پہلی سرد جنگ میں پاکستان مغربی بلاک کا حصہ تھا اور اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی پراکسی وار لڑنے کااعزاز پاکستان کوحاصل ہے۔ہماری مسلح افواج اور ٓائی ایس ٓائی نے روس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیاجس کا محرک ہمارا یہ خوف تھا کہ کہیں روس افغانستان کے بعد پاکستان کی طرف پیش قدمی نہ کرئے اسی وجہ سے ماسکو کے ساتھ ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔تاہم اب مشرق اور مغرب دونوں سمتوں میں حالات یکسر بدل چکے ہیں ۔ گوپاکستان اب بھی Major Non-Nato Allyہے تاہم پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا ٓاغاز کیا ہے اور روس نے بھی پاکستان کو خوش ٓامدید کہا ہے ۔ پاکستان کے روس کی طرف جھکاؤ کی وجہ امریکی طرز عمل بھی ہے ۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے بارہا پاکستان کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑا جس کی وجہ سے پاکستان کی فوجی اور سول قیادت پر یہ حقیقت واضح ہوتی چلی گئی کہ امریکہ ایک ناقابل بھروسہ دوست ہے اسی ٓاگہی کے پیش نظر پاکستان نے امریکی متبادل کے طور پر چین اور روس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔ روس نے پاکستان کو دفاعی سازوسامان کی فراہمی پر عائد پابندی ہٹا لی ہے اور روس کے ساتھ ہمارے فوجی تعلقات میں بتدریج بہتری ٓارہی ہے جس کا اندازہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ روس سے لگایا جا سکتا ہے۔ ادھر ہم روس کے قریب ٓارہے ہیں اور ادھر انڈیا امریکہ کی طرف بڑھ رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ پاک چین دفاعی اور معاشی تعاون تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔پاک۔ ایران۔ افغان تعلقات بہتر ہوئے ہے۔ چین اور روس بہت سارے بین الاقوامی معاملات پر مشترکہ موقف رکھتے ہیں ۔ ٓانے والے حالات میں کون کہاں کھڑا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس کا گراؤنڈ ورک ابھی سے کرنا ضروری ہے ۔پاکستان کی فوجی اور سول قیادت کو باہم مل بیٹھ کر ایک مربوط حکمت عملی کی تیاری شروع کرنی چاہیے تاکہ وقت ٓانے پر وہ ایسا فیصلہ کر سکیں جو ہمارے وسیع تر قومی مفاد میں ہو۔

Zahid M. Abbasi
About the Author: Zahid M. Abbasi Read More Articles by Zahid M. Abbasi : 14 Articles with 15357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.