بے آئین سر زمین کے آئینی انتخابات
(Danish Irshad, Islamabad)
گلگت بلتستان جسے دنیا کا بلند
ترین آبادی والا خطہ کہا جاتا ہے اپنی خوبصورتی اور پاک چین رابطہ کار کے
طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس خطے کی اہمیت ایک طرف پاکستان میں
انتہائی درجے کو چھو رہی ہے۔اسی طور بھارت بھی ہر موڑ پر واویلا کرتے نظر
آتا ہے۔پاکستان میں اقتصادی راہداری ہو یا پاک چائینہ تعلقات ، کے ٹو سر
کرنے والے سیاح ہوں یا پھر بلند ترین مقام پر پولو میچ ہو ہر جگہ گلگت
بلتستان نمایاں ہے۔لیکن قسمت کے مارے گلگت بلتستان کی عوام جنہوں نے ریاست
کی بقا اور ڈوگرہ سامراج کے خلاف جنگ لڑی ان کو آج تک انکے بنیادی حقوق سے
محروم رکھا گیا۔مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک ہونے کا واویلا کرتے ہوئے آج تک
پاکستان کی ہر حکومت نے گلگت بلتستان کو انکے بنیادی حقوق دیے نہ ہی وہاں
کوئی مستقل سیاسی سیٹ اپ دیا سیاسی سیٹ اپ کے نام پر ان کو مختلف پیکجز
ملتے رہے ،بھٹو کے دور کا سیاسی پیکج اور ضیاءکے مارشلاََ میں ای زون(E-Zone)
قرار دیا جانا مشہور ہیں۔2009 میں گلگت بلتستان کو ایک بار پھر پیکج دیا
گیا اورپیپلز پارٹی کی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے تحت عبوری آئینی سیٹ اپ
دیا ،
The Gilgit-Baltistan Empowerment and Self Governance Order 2009 was
introduced in August 2009 which is heavily influenced by the AJK setup
and provincial setups of Pakistan. It explains that on continues demand
of local people, the democratic government of Pakistan has decided to
take the GB further towards full internal autonomy and bring it at par
with the provinces of Pakistan but not a province. It clearly explains
that GB is not part of Pakistan in terms of Arcticle-1 of the
Constitution of Islamic Republic of Pakistan which spell out the
territorial limits of the country. However, the present package of
reforms is in-fact further up gradation of what the Northern Areas
Council Lgal Framework Order 1994 and the Northern Areas Governance
Order 2007 offers.
جس کے تحت 2009 میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور
وہاں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور وفاق کی طرف سے دعوئے سامنے آتے رہے
کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے گا، اسمبلی کو امپاور منٹ
کیا جائے لیکن اسکے چار سال بعد تک وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہونے
اور سینٹ میں بھی اکثریت ہونے کے باوجود ایسا نہ کر سکی اور اسمبلی کے وفاق
سے رابطہ کیلئے ایک کونسل قائم کر دی گئی،قومی اسمبلی اور سینٹ میں
نمائندگی کا حق دینے کی باتیں تو کی جاتی رہی ہیںلیکن کوئی اقدام نہ کیا جا
سکا ، یہاں تک کہ گلگت بلتستان اسمبلی کو امپاور نہ کیا جا سکا۔ان کو وہاں
کی کسی انتظامی تبدیلی یا کسی قانون کو بنانے کے اختیارات ہیں۔ وہ اسمبلی
اتنی با اختیار ضرور ہے کہ کوئی بھی قرار داد پاس کر سکتی ہے لیکن اس قرار
داد پر عمل درآمد کروانا گلگت بلتستان اسمبلی کے اختیار کے بس کی بات نہیں
ہے ۔یہ اختیارات گلگت بلتستان کونسل کے پاس ہیں جس کے چئیرمین وزیراعظم
پاکستان ہیں اور چئیر مین کی منظوری کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا
ہے،یعنی کہ گلگت بلتستان کے عملی اختیارات ایک شخص (وزیر اعظم پاکستان) کے
پاس ہیں ،یوں اسمبلی اور کونسل ہونے کے باوجود گلگت بلتستان بے اختیار ہے
۔آئینی حیثیت ملنے کے بعد گلگت بلتستان میں کچھ لوگوں نے اس آئینی سیٹ اپ
کو تسلیم نہ کیا اور اس کے خلاف احتجاج کیا ۔جبکہ عام عوام میں اس پیکج سے
بہت سی امیدیں پیدا ہوئیں تھیں لیکن بعد کے سلاک سے تما امیدیں دم توڑ
گئیں۔2009 کو منتخب ہونے والی اسمبلی کی مدت دسمبر 2014 میں ختم ہوئی جس پر
نگران کابینہ کی تشکیل ایک ایسا مرحلہ تھا جب یہ ثابت کیا ہونا تھا کہ گلگت
بلتستان اسمبلی کو کس قدر اختیارات دیے گئے ہیں لیکن اس وقت یہ واضح کیا
گیا کہ اسمبلی اتنی بے اختیار ہے کہ نگران وزیر اعلی کے لیے وفاق نے اس وقت
کی اسمبلی سے مشاورت کرنا بھی ضروری نہ سمجھااور وزیر اعظم میاں محمد نواز
شریف نے ن لیگ گلگت بلتستان کی مشاورت سے شیر جہان میر کو نگران وزیر اعلی
تعینات کیا گیااور اس بے اختیاری کو اس وقت مزید ثابت کیا گیا گب نگران
کابینہ کی تقرری ہونے لگی ،کیونکہ نگران وزیر اعلی نے حلف لینے کے فوراََ
بعد تین رکنی کابینہ کی تقرری کا اعلان کیا اور اپنی سفارشات سے تین نام
وزیر اعظم پاکستان کو بھیجے لیکن وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے مداخلت
کرتے ہوئے ان تین ناموں سے صرف ایک کی تقرری ہونے دی باقی اپنی مرضی کے
افراد کی تقرری کروائی جس پر نگران وزیر اعلی نے دوسرے دن واضح بیان دیا کہ
انہوں نے ان لوگوں کے نام نہیں دیے تھے اور انکو اپنی مرضی سے مقرر کیا گیا
ہے اسکے بعد وفاق نے ایک مرتبہ پھر اپنی من مانی کرتے ہوئے نگران کابینہ کو
تین رکنی سے بارہ رکنی کر دیا جو کہ ریگولر کابینہ سے بڑی تھی جو کہ
پاکستان کے آئین کے مطابق غیر قانونی ہے اس کے بعد کی ستم ظریفی کہ نگران
کابینہ سے خلف لینے کیلئے اس وقت کے گورنر کرم علی شاہ کو مجبور کیا گیا
اور خلف لینے کے کچھ ہی دنوں بعد گورنر کو فارغ کر دیا گیا اور ایک وفاقی
وزیر چوہدری برجیس طاہر کو بطور گورنر گلگت بلتستان مقرر کر دیا ۔چوہدری
برجیس طاہر وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان ہیں اور گلگت بلتستان کے
کے رہائشی نہیں ہیں،انکی بطور گورنر تعیناتی نے گلگت بلتستان کو دیے گئے
عبوری سیٹ اپ پر سوالیہ نشان لگا دیا،گلگت بلتستان کے گورننس آرڈر میں
ترمیم کر کہ اس موجودہ سیٹ اپ کو ہی متنازعہ بنا لیا گیا،اور ساتھ ہی
پاکستان کے آئین کی دھجیاں اڑا دی گئی کیونکہ اسوقت چوہدری برجیس طاہر کے
پاس وفاقی وزارت اور گورنری سمیت نہ صرف دو تنخواہ دار عہدے ہیں بلکہ وہ
بطور رکنِ قومی اسمبلی بھی تمام مالی مراعات کے حقدار بنے ہوئے ہیںپاکستان
کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص ایک ہی وقت میں وفاقی وزیر اور
صوبے کا گورنربن سکے ۔اور اب تیسرے دور میں انتخابی مہم کے دوران سیاست
دانوں کی طرف سے ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلانے کا وعدہ
کیا گیا،اور تحریک انصاف کے چیئرمین نے تو پاکستان کے آئین سے لاعلمی میں
یا آئین سے بالا تر بنتے ہوئے گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے بعد اسے
پاکستان کا آئینی حصہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ شائد وہ پاکستان کے آئین کا
آرٹیکل 270 نہیں پڑھ سکے جسکے مطابق کشمیر اور گلگت بلتستان کو خصوصی حیثیت
دی گئی ہے ۔
257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir.-When the
people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan,
the relationship between Pakistan and that State shall be determined in
accordance with the wishes of the people of that State.
گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کی بھی یہی سیاسی صورت حال ہے وہاں
بھی حکومت کو کوئی اختیارات حاصل نہیں اور متنازعہ حیثیت کہہ کر ترقی اور
آئینی حقوق سے دور رکھا گیا ہے ۔اب جب کہ گلگت بلتستان کہ آئینی انتخابات
ہو رہے ہیں تو انتخابات میں بلند بانگ دعووں کے ساتھ سیاست دان میدان عمل
میں آرہے ہیں اور سب سے پہلے کہتے ہیںکہ آئینی حقوق دلائیں گئے لیکن کس طرح
کیا ان کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ آئینی حقوق دلا سکیں ؟ اگر ہیں تو اب تک
انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح حقوق کیاں نہیں
دیے جاتے؟اب سیاست دانو ں کو اپنے اور عوام کے حال پر رحم کرتے ہوئے سچ
بتانا چاہئے کہ گلگت بلتستان کی کیا حیثیت ہے اور کیا اسے صوبہ بنایا جا
سکتا ہے یا نہیں ؟اب تک عوام سے کوں جھوٹ بولا گیا ؟حقوق کی محرومی کے اصل
اسباب کیا ہیں؟گلگت اور کشمیر کاکیا تعلق ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گلگت
بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ کب اور کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟اور ان
تمام سوالوں کے جواب مسئلہ کشمیر کے حل سے جڑے نظر آتے ہیں ۔دوسری وجہ یہ
ہے کہ اس لیے گلگت بلتستان اور کشمیر بے آئین سر زمین ہیں انکا آئین
پاکستان کا ایک صدارتی آرڈیننس یا ایک ایکٹ ہے۔ان خطوں کو با آئین بنانے
کیلئے ضروری ہے کہ ان کی اسمبلیوں کو با اختیار بنایا جائے ،اور مکمل
ریاستی سیٹ اپ دیا جائے وہ گلگت بلتستان اور کشمیر کی مشترکہ اسمبلی ہو یا
پھر آزاد کشمیر کی اسمبلی کو بااختیار بنایا جائے اور گلگت بلتستان کو
کشمیر طرز کا ریاستی سیٹ اپ دے کر مکمل اختیارات دیے جائیں۔ |
|