دل ڈوب نہ جائے

آج سے کچھ سال پہلے ضمنی الیکشن کے دوران ہر روز نت نئے نعرے گونجتے تھے ،پر ان سب نعروں میں سے ایک بہت دلچسپ گونج سنائی دیتی تھے ، وہ آواز آج مجھے بہت یاد آ رہی ہے۔ میں وہ دلکش گونج ، اور عوام کے دلوں کو پرجوش کرنے والا نعرہ آج اپنے تمام دوستوں کو سنانا چاہتا ہوں ،اگر میں غلط نہیں تو وہ نعرہ کچھ یوں تھا ، پاکستان کا دل پنجاب ، پنجاب کا دل لاہور ، لاہور کا دل کاہنہ ، اور کاہنہ کا دل مستانہ ،آپ سب سوچ رہے ہو گے کہ یہ مستانہ کس چیز کا نام ہے پر ایسی بات نہیں یہ صاحب کاہنہ جو کے لاہور کا دل ہے ، اس پر دس سال تک راج کرتے رہے ہیں اور آج کل بھی کبھی کبھی نظر آ ہی جاتے ہے۔رمضان مستانہ دو بار ضمنی الیکشن میں جیت کر کاہنہ کے ناظم نا مزد ہو چکے ہیں، اور ہم امید کرتے ہیں کہ محترم جناب رمضان مستانہ صاحب صوبائی اسمبلی کا حصہ بھی بنے گے ہم انکا ساتھ دے گے، ویسے میرا شکوہ ان سے بنتا تو نہیں کیونکہ جب بھی کسی کی حکومت ختم ہوتی ہے تو وہ صاحب آ نے والی نامزد ہستی کو محسوس کرواتے ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں ،آپ کو عوام کے دکھ مسائل نظر نہیں آتے ،خیر سیاستدانوں کی تعریف میں نہیں کروں گا ، کیونکہ ساری عوام ہر گھنٹے بعد انکی خوب تعریف کرتی ہے اور یہ تعریف آج کل پاکستان کی ہر گلی ، کوچے میں خوب سنائی دے رہی ہیں ، گھنٹے سے مراد یہ ہے کہ ہر گھنٹے بعد بجلی چلی جاتی ہے، اور عوام کو ایک گھنٹہ فر ی میں مل جاتا ہے ، اس ایک گھنٹے میں ساری پاکستانی عوام فری ہوتی ہیں ، اور اسی طرح کئی گھنٹے سیاستدانوں کی تعریف کے لیے ہوتے ہے کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ سارا سارا دن اور ساری ساری رات عوام کو یہ سہولت میسر رہتی ہے ایسی صورتحال میں بات تعریف سے آگے بڑھا دی جاتی ہے ،پاکستانی عوام اب تعریف کے ساتھ ساتھ دعا ئیں بھی دے رہی ہیں ، جو انشاء اﷲ بہت جلد پوری بھی ہوگی ، خیر میں اپنی بات سے بھٹک رہا ہوں ، بات ہو رہی تھی دل کی،تو میں آج پاکستانی عوام اوربالخصوص وہ نعرہ جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں،لگانے والے تمام بھائیوں اور مستانہ صاحب جو کہ ہمارے کاہنہ کے دل بھی ہے ، انکو بتانا چاہتا ہوں ،کہ لاہور کا دل ڈوب رہا ہیں کوئی گلی نہیں بچی ،کوئی سڑک نہیں بچی ،تمام کاہنہ بارش کی چند بھوندھوں سے تو ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسے یہ سیلاب ابھی دل تک پہنچ جائے گا،اور ہم آپ کو ڈوبتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ، خدارا اپنے آپکو بچانے کے لیے کچھ کرئے، ہم آپکو یوں ڈوبتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، ہماری خیر ہے ہم لوگ تو عادی ہو چکے ڈوب کر مرنے کے۔ اب ہم آتے موجودہ رہنما جو ہمارے علاقے کی قیادت کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی ہے ۔ میاں شہباز شریف حلقہ 159سے ایم پی اے کا الیکشن جیت کر پنجاب کے وزیر اعلی بنے، اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نہایت ہی نڈر بہادر ، اور ہمدرد شخصیت کے مالک ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہیں کہ جس عوام نے ان پر اعتماد کیا آپکا مان رکھا آپ نے دو سال میں پلٹ کر انکی طرف ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا ۔ جناب اعلیٰ نے پنجاب میں بے پناہ ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی ،جن میں سے کئی منصوبے پورے بھی ہو چکے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں شہباز شریف صاحب نے میٹرو بس نہایت ہی عمدہ تحفہ جو کہ ریکارڈ مدت میں عوام کو دیا گیا ، جناب اعلیٰ کاہنہ نو کا درینہ مسلہ جس پر آپکی نظر بھی پڑی مگر ابھی تک تاخیر کا شکار ہیں ، وہ ہے سیوریج کا کوئی گلی ، کوئی محلہ ایسا نہیں جہاں پر عوام کے لیے مشکلات نہ بکھری ہوں،سکول جاتے ہوئے کئی بچے ،گلیوں میں بکھرے ہوئے سیوریج کے پانی کا شکار بن کر سکول کی بجائے گھر کی طرف روانہ ہو تے ہیں۔ لہذا جناب اعلیٰ درخواست ہیں آپ نظر کرم کرئے اوران گلی کوچوں کو بچوں کی تعلیم پر ثر انداز ہونے بچائے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پیارے ملک کے سیاستدان و حکمران ملک کے لیے کام کر کر کے تھک گئے ہیں ،اب نوجوان نسل کا فرض بنتا ہیں کہ وہ اٹھے اور اپنے بڑوں کو آرام کرنے کا موقع دے ،یہ ملک جسے ہم نے دو قومی نظریہ کی آڑ میں حاصل کیا۔برصغیر پاک وہند میں جب انگریز اور ہندو ہم پر غالب تھے،تواس وقت مسلمان ہر طرح سے دبوچے جاچکے تھے دشمنوں نے ان کا جینا محال کررکھا تھا معاشرے میں ان مسلمانوں کو جنہوں نے ہمیشہ حکمران بن کر زندگی بسر کی تھی اب وہ اپنا اصل مقام کھو چکے اور غلاموں کی طرح مشکلات سے دو چار تھے اس وقت ہمیں خدا نے فرشتوں کی اچھی سیرت کے مالک رہنماؤں سے نوازا جو کہ بے لوث خدمت گار اورباکردارشخصیت کے مالک تھے ان رہنماؤں میں سرسید احمد خانؒ ٗعلامہ اقبالؒ ٗاورقائداعظم محمدعلی جناح ؒسب سے آگے تھے ان رہنماؤں نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی اور پیوندکاری کی اور مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی بنیاد ڈالی۔ان رہنماؤں کی بدولت آخرکار مسلمانوں نے زمین کا ایک ٹکڑا تو حاصل کرلیا مگر غلامی کی زندگی تو ہم بھی بسر کررہے ہیں، اقبال اپنے دور کی بزرگ نسل سے بہت مایوس تھے یہ نسل ایک جانب تو مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اور دوسری جانب مذہبی تقلید اور فرقہ واریت کا شکار ہوکرجمود کاشکار ہوچکی تھی اور اپنے آپ میں تبدیلی لانے کے لیے تیار رہے ان حالات میں نوجوان ہی ان کی واحد امید تھے اقبال خود کو حال کی بجائے مستقبل کا شاعر سمجھتے تھے انہوں نے اپنی شاعری میں بوڑھے لوگوں کی بجائے نوجوانوں کو مخاطب کیا۔
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشمین قصر سلطانی کے گنبدپر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز وہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

اقبال اپنے ایک کلام میں رب سے یہ دعا کرتے ہیں میں’’ جو پر ان کہن سے ناامید ہوں‘‘ آنے والے دور کی بات کہنا چاہتا ہوں جوانواں کے لیے میرا کلام سمجھنا آسان کردیجئے۔ان کے لیے سخن کی گہرایاں آشکار کر دیئجے،پاکستان تو ہمارے ابا واجداد نے بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کر لیا ، مگر اب پیارے پاکستان کا نام اس دنیا میں روشن کرنے کے لے ے ہمیں بہت محنت کرنی ہے۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 143477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.