دو کروڑ کی آبادی اور ملک کو 70 فیصد ریونیو کما کر دینے
والے اس لاوارث شہرکراچی کے عوام کی ذمہ داری نہ ہی مرکزی حکومت لیتی ہے
اور نہ ہی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے۔ یکم رمضان سے اگلے ایک
ہفتہ تک کراچی میں گرمی بڑھتی چلی گئی اور درجہ حرارت 40 اور پھر 45 ڈگری
سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، لوڈشیڈنگ نے سانس لینے کا بچا کچھا حق بھی چھین
لیا۔ لوگوں کا دم گھٹنے لگا، لوگ مرنے لگے، اندازہ ہے کہ مرنے والوں کی
تعداد کم از کم 4000 کے قریب ہوگئی ہے۔ بقول وزیراعلی سندھ 65 ہزار لوگ
ہسپتال لائے گئے۔ لاشیں اس قدر زیادہ تھیں کہ ایدھی سرد خانوں میں دو گھنٹے
کےلیے میت رکھے جانے کی مہلت کے بعد لاشیں فرش پر یا کسی اور لاش کے اوپر
رکھی جانے لگی تھیں۔ اس دوران ورثاء ایمبولینس ڈھونڈنے، قبر کی جگہ تلاش
کرنےاور گھر میں پانی کی قلت کے سبب واٹر ٹینکر والوں کی منت سماجت کرنے
میں مصروف تھے۔ یہ شاید پہلا ایسا سانحہ تھا جب لوگوں نے اپنے پیاروں کی
لاشیں گھروں تک منتقل کرنے کے لیے جانور لانے لے جانے والی گاڑیاں استعمال
کیں اوراپنے پیاروں کو مشترکہ قبروں میں دفنایا ۔ اموات کا سلسہ ابھی ختم
نہیں ہوا ہے، ہاں کم ضرور ہوگیا ہے۔
کراچی کے لوگ اپنے مردئے ڈھورہے تھے اور ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان
اموات کی ذمہ داری ایک دوسرئے پر ڈال رہے تھے ، کراچی کے 85 فیصد کی
نمایندگی کی ٹھیکدار ایم کیو ایم مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو رورہی تھی
اور ساتھ ہی یہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ وہ "را" کی ایجنٹ نہیں۔کے
الیکٹرک کا کہنا تھا کہ اُس نے لوڈشیڈنگ کی ہی نہیں بلکہ کچھ فنی خرابی کی
وجہ سے بجلی بند ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت ملک سے بھاگنے کی
تیاریوں میں مصروف تھی اسلئے اُسکی بلا سے کون مررہا تھا۔ اعلان کیا گیا کہ
وزیراعظم نواز شریف ایک روزہ سرکاری دورہ پر 29 جون کو کراچی جاینگے، 29
جون کو تو وقت نہیں ملا لہذا وہ یکم جولائی کو کراچی پہنچے۔ لاوارث
شہرکراچی کے شہری بھی عجیب ہیں کہ اگروزیراعظم نواز شریف جناح ہسپتال میں
شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ سے متاثرہ اُنکے مریضوں کو دیکھے بغیر واپس اسلام
آباد چلے گے تو وہ ناراضگی کا اظہار کرنے بیٹھ گے، بھائی کیا ایسا
وزیراعظم نے پہلی مرتبہ کیا ہے، بلکل نہیں۔ ہمارئے وزیراعظم ایک سوداگر ہیں
اور اس مثا ل سے تو ہم سب واقف ہیں کہ "بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر گرا ہوگا"
تو نواز شریف کو جناح ہسپتال جانے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آیا ہوگا اسلیے
نہیں گئے،وہ ہر کام کرنے سے پہلے اپنا فائدہ دیکھتے ہیں چاہے وہ کسی کی موت
پر ہی جارہے ہوں۔ ویسے بھی یہ دورہ پورئے دن کا نہیں صرف چار گھنٹے کا تھا،
کراچی والے مسلم لیگ(ن) کو ووٹ تو دیتے نہیں پھر رکنے کا فائدہ۔
زیادہ دور نہیں جاتے پہلے 16 دسمبر کا ذکر کر لیتے ہیں ، پشاور کے آرمی
پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی
بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔
نواز شریف نے پشاور پہنچنے میں دیر نہیں لگائی، کیوں؟ اسلیے کہ عمران خان
سے مقابلہ تھا، سوداگر نواز شریف کو پہلے پہنچنے میں فائدہ تھا۔ 30 جنوری
کو دہشتگردی کا واقعہ صوبہ سندھ کے شہرشکارپور کے مرکزی علاقے لکھی در پر
گنجان آبادی کے درمیان قائم مرکز ی مسجد اور امام بارگاہ کربلا معلی میں
ہوتا ہے، نتیجے میں 60افراد شہید ہوگئے جبکہ 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے،
اُس وقت نواز شریف کراچی میں موجود تھے۔سرکاری سطع پر کوئی خاص ہلچل نہیں
مچی ، حسب دستور وزیراعظم نے شکار پور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے
واقعے کی رپورٹ طلب کرلی اور چونکہ شکار پور جانے سے وزیر اعظم کو کوئی
سیاسی فاہدہ نہ تھا لہذا شام کو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد چلے گئے۔
ایک اور دہشتگردی کا واقعہ 13 مئی کو کراچی میں اُس وقت ہوا جب نواز شریف
نے پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے پر آل پارٹیز کانفرنس بلا رکھی تھی
کہ کانفرنس شروع ہونے سے قبل ہی کراچی سے ‘سانحہ صفورا چورنگی’ کی خبر
آگئی۔ 18خواتین سمیت 46 بے گناہوں کے وحشیانہ قتل کی خبر، نشانہ بننے والے
اسماعیلی برادری کے افراد تھے۔ اسفندر یار ولی اور مولانا فضل الرحمان کا
کہنا تھا کہ اجلاس چونکہ بلایا جاچکا ہے اور اس اجلاس کی اپنی اہمیت ہے اور
کراچی سانحے کی اہمیت سے بھی انکار نہیں، اجلاس جاری رکھیں، نواز شریف کو
فائدہ اجلاس جاری رکھنے میں لگا لہذا شرکا کو بریفنگ دینے کی ہدایت کردی
ساتھ ہی شرکا کو پرتکلف شاندار لنچ کی دعوت بھی دئے ڈالی۔اُس وقت تمام ٹی
وی چینل سانحہ کراچی اور ائے پی سی دونوں کی کوریج نشر کررہے تھے اور جب
وزیراعظم کی دعوت پرائے پی سی میں موجود سیاسی رہنماوں نے شاندار لنچ کا
آغاز کیا تو ایک ٹی وی اینکر چیخ چیخ کرلوگوں کو بتارہی تھی کہ کراچی میں
لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں تلاش کررہے ہیں جبکہ اسلام آباد میں ہماری قومی
قیادت شاندار لنچ کررہی ہے ۔ اُسی شام نواز شریف چند گھنٹوں کےلیے کراچی
آئے اور واپس اسلام آباد چلے گئے۔
اس مرتبہ جب نواز شریف کراچی آئے تو اُنکے ہمراہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری
نثار، وفاقی وزیر ماحولیات سینٹر مشاہد اللہ خان، وفاقی وزیر اطلاعات سینٹر
پرویز رشید، جنرل عبدالقادر بلوچ اور محترمہ سائرہ افضل تارڑتھے۔، لیکن
اُنکے ساتھ آنے والوں میں دو مجرم وزیر خواجہ آصف اور عابد شیر علی موجود
نہیں تھے، جنکا کہنا ہے کہ اگر کوئی گرمی سے مرجائے تو حکومت اُسکی ذمہ دار
نہیں۔ مئی میں جب کراچی میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا تھا تو وفاقی وزیر داخلہ
گھر میں سورہے تھے، موصوف پانچ دن کے بعد کراچی آئے تھے۔کراچی میں لوگ
گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مرئے ہیں اس لیے چوہدری نثار، مشاہد اللہ خان،
سینٹر پرویز رشید، جنرل عبدالقادر بلوچ اور محترمہ سائرہ افضل تارڑ کے آنے
کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔ سوداگر وزیراعظم کے خریدئے ہوئے ایک قلم فروش
محمد صالح ظافر جو روزانہ روزنامہ جنگ میں سیاسی ڈائری کے نام سے لکھتا ہے،
اُس نے وزیر اعظم کے ہمراہ آنے والوں کی تعریف میں لکھا ہے کہ نواز شریف
چوہدری نثارکو اپنے ہمراہ یوں لےگئے ہیں کہ کوئی نان سنس نہیں چلے گی،
مشاہد اللہ خان کو کھری کھری سنانے کی عادت ہے اور وہ کراچی کو بہتر سمجھتے
ہیں باقی سینٹر پرویز رشید، جنرل عبدالقادر بلوچ اور محترمہ سائرہ افضل
تارڑ اسلیے ساتھ تھے تاکہ کوئی سنجیدہ طلب بات ہو تو یہ وزیراعظم کی مدد
کرسکیں، یہاں بھی نواز شریف سوداگری سے کام لےگئے۔ بقول محمد صالح ظافر
دورئے کے بعد ایوان وزیراعظم سے یہ بیان دیا گیا کہ اس سانحہ پر تمام
متعلقہ ادارئے ذمہ دار ہیں۔
وزیراعظم کے کراچی کے دورے کا فائدہ کسی کو ہوا ہو یا نہیں تاہم سندھ کے
کرپٹ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا مقصد پورا ہوگیا، نواز شریف کی جانب سے
کراچی کیلئے مختلف منصوبوں کی مد میں امداد کے اعلان نے قائم علی شاہ کو
خوش کرڈالا کیونکہ مزید لوٹ مار کا آسرا ہوگیا، دورے میں یوں تو ان
اعلانات کے سوا کچھ خاص نہ ہوا ، نہ ہی اس دورے کا مطلب واضح ہو سکا، تاہم
چار گھنٹے کے دورے کو قائم علی شاہ نے مثبت قرار دیا۔ وزیراطلاعات شرجیل
میمن اس موقع پر گرمی سے اموات کا ملبہ پھر کے الیکٹرک پر ڈالتے نظر
آئے۔قائم علی شاہ اور وزیربلدیات نے جہاں سب اچھے کی آواز لگائی وہیں
میڈیا سے گفتگو میں چھیپا ایمبولنس سروس کے سربراہ رمضان چھیپا نے حکومتی
کارکردگی کا پول کھولتے ہوئے اسے غیر تسلی بخش قراردیا۔ کے الیکڑک نے
وزیراعظم کے اس اجلاس میں شرکت کی زحمت ہی نہیں کی، بلکہ اُسکا کہنا تھا کہ
سندھ حکومت نے اپنی بدانتظامی چھپانے کےلیے سارا ملبہ کے الیکٹرک پر ڈالا
ہے، اموات کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے کراچی میں مرنے
والوں کےلیے کسی قسم کی کوئی مدد کا اعلان نہیں ہوا، شاید وزیر اعظم کے
خیال میں مرنے والے سب گنہگار ہوں۔ اگر ہم گرمی سے ہونے والی حالیہ ہلاکتوں
کا جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ مرنے والے تمام افراد معاشی طور پر
غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذمہ دار کون ہے؟ کیا سورج کا قہر اس
قدر متعصب ہے کہ صرف غریبوں پر ہی برستا ہے؟
لاوارث کراچی کی رہنے والی سدرہ خان اپنے مضمون " میں سردخانے بنانا چاہتی
ہوں" میں لکھتی ہیں کہ"عالم پناہ عزت مآب نواز شریف صاحب! ان اموات میں آپ
کا کوئی ہاتھ نہیں اور نہ ہی سندھ کی عوام دوست شہیدوں کی جماعت پیپلز
پارٹی کی کوئی خطا ہے۔ اس سانحے کے لیے نہ کے الیکٹرک ذمہ دار ہے اور نہ
متوسط طبقے کی واحد جماعت ایم کیوایم کا اس میں کوئی دوش ہے یہ تمام لوگ بے
تحاشہ سہولیات سے مرے ہیں۔ وہ سہولیات جو آپ جیسے عام لوگوں کو تو نہیں
لیکن اس ملک کے عوام کو میسر ہیں۔ اس عوام کے بینک اکاونٹس بیرون ملک جو
ہیں، ان کے گھروں میں دس دس اے سی کنڈوں پر لگے ہیں، یہ ٹیکس چور ہیں، یہ
کئی کئی ہزارایکڑ اراضی کے مالک ہیں، اگر کچھ کم پڑ جائے تو ان کی
امدادبیرون ملک سے ہوجاتی ہے۔ آپ سب کا کیا قصور؟ آپ تو معصوم ہیں۔ آپ کو
تو معلوم ہی نہیں کہ بلدیاتی حکومتوں میں راج کرنے کے دوران آپ سے اس شہر
میں آبادی کے تناسب سے 8 سے 10 سرد خانے نہ بن سکے کیونکہ سرد خانے بنانا
تو بے حد مشکل کام ہے کیو ں کہ آپ کے اپنے گھر اور ایوان کسی سرد خانے سے
کم نہیں۔آپ اتنے معصوم ہیں کہ آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایدھی اور چھیپا
غیر سرکاری ادارے ہیں انھیں سالانہ اگر آپ 50 ایمبولینسس دے دیتے تو نوبت
یہ نہ آتی کہ لوگ میتیں مویشی لیجانے والی گاڑیوں میں لے کرجاتے"۔
چار گھنٹے کے اس مختصر دورہ کراچی سے یہ تو صاف پتہ چل گیا کہ وزیراعظم
نواز شریف کو کراچی کے مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، اُنکے اس رسمی دورئے
سے کراچی سے بیزاری صاف نظر آرہی تھی۔کراچی کے شہریوں کو مایوسی ہوئی ہے
جبکہ سندھ حکومت پہلے ہی مسائل سے لاتعلق ہے اور اُس سے کراچی کے لوگوں
کوئی امید نہیں۔ اگر نواز شریف نے کراچی کے عوام کے ساتھ یہ ہی سلوک کرنا
تھا تو پھر"نواز شریف کراچی کیوں آئے تھے ؟"۔
|