وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر
مودی نے جب یہ اعلان کیا تھا کہ ’’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ تو
عوام کویوں لگا کہگویاوہ بدعنوانی پر اظہار خیال فرما رہے ہیں لیکن اقتدار
میں آنے کے ایک سال بعد پتہ چلا کہ وہ تو گئو کشی کی بات کررہے تھے۔ یعنی
’’نہ میں بڑے جانور کا گوشت کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ اب اگر کوئی
ان سے پوچھے کہ ’’توآپ کیا کریں گے؟‘‘ اس سوال کا بہت ہی آسان جواب ان کے
پاس ہے برآمد کروں گا اس لئے کہ غیر ممالک میں گائے کے گوشت کی قیمت
اندرونِ ملک سے زیادہ ہے۔ بدعنوانی کی بابت ملک کے بھولے بھالے لوگوں نے
موجودہ سیاسی نظام سے غلط توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ جمہوری سیاست میں رشوت
خوری کے بغیر گزارہ نا ممکن ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اروند کیجریوال کا یہ
حشر کبھی نہ ہوتا۔سیکولر جمہوریت کی گاڑی ہی بدعنوانی کے ایندھن سے چلتی ہے
۔ یہاں لوگ رشوت سےاس لئے گریز نہیں کرتے کہ اسے برا سمجھتے ہیں بلکہ اس
لئےنہیں کھاتے کہ اس کا موقع نہیں ملتا۔ اقتدار کا سارا جھگڑا ہی بدعنوانی
کا موقع حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ حزب اختلاف کیلئے رشوت خوری کے مواقع
محدود ہوتے ہیں اور حزب اقتدار کے سامنے لامحدود اس لئے ساری جدوجہد اس
تنگی کو کشادگی میں بدلنے کیلئے ہوتی ہے۔ قومی جمہوری محاذ کے دوسرے سال کی
ابتداء میں پھٹ پڑنے والے بدعنوانی کے آتش فشاں اس حقیقت کا غماز ہے۔
ہندوستانی سیاست میں ہر کوئی بدعنوان ہے الاّ ماشا اللہ لیکن چونکہ سرکار
اس میں سرتاپا ملوث ہوتی ہے اس لئے اپوزیشن کو اس کا شور مچاکر اپنے آپ کو
نیک نام کی حیثیت سے پیش کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کانگریس کے راج میں بی
جے پی والے یکے بعد دیگرے گھوٹالوں کو اچھالتے تھےاور عوام کو یہ باور
کراتے تھے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی بنیادی وجہ یہی بدعنوانی کا عفریت
ہے۔ جب وہ اقتدارمیں آئیں گے تو یہ مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں
ہوا بلکہ بی جے پی نے اقتدار میں آتے ہی زور وشور سے بدعنوانی کا بازار
گرم کردیا۔ وزیراعظم کے ساتھ ہر غیر ملکی دورے پر سایہ کی طرح ساتھ رہنے
والے گوتم اڈانی نے ایک سال کے اندر اپنی دولت وثروت میں ڈیڑھ گنا اضافہ
کرلیا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنےخصوصی اختیارات کا استعمال کرکےبدنامِ
زمانہ مفرورملزم للت مودی پر لگی ساری پابندیوں کو اٹھا دیا ۔
للت مودی تو سیاسی افق پر کچھ اس طرح نمودار ہوا کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے
اس نے نریندر مودی کی روشنی کو ماند کردیا۔ فی الحال ذرائع ابلاغ پر للت
مودی اسی طرح چھایا ہوا ہے جیسے کسی زمانے میں نریندر مودی ہوا کرتےتھے۔ ہر
کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ للت مودی نے کیا کہا؟ اس کے دستاویزات میں سےکون
سا نیا انکشاف ہوا؟ اس کے ای میل میں کس کا نام آیا؟ وہ آئے دن یوروپ سے
لے کر جنوبی امریکہ تک اپنے نجی جہاز میں اسی شان کے ساتھ گھومتا پھر رہا
ہے جیسے کبھی نریندرمودی گھوماکرتے تھے ۔ للت مودی کے حرکات و سکنات سےمودی
جی کی ٹورنٹو والی تقریر کا یہ مکالمہ یاد آتا ہے’’جن کو گندگی کرنی تھی
وہ گندگی کرکے چلے گئے ۔ ہم صفائی کرکے جائیں گے‘‘۔ مودی سرکار کے ہاتھ کی
صفائی اور رشوت کی کمائی دن بدن سامنے آرہی ہے۔ کبھی وزیر مواصلات نتن
گڈکری کے گھپلے پر سی اے جی کا اعتراض نظر آتا ہے۔کبھی وزیر انسانی وسائل
سمرتی ایرانی کا غلط حلف نامہ آنکھیں دکھاتا ہے تو کہیں سشما اور سندھیا
کی للت گاتھا سنائی دیتی ہے۔
آج سارے ملک میں للت مودی اور سشما و راجے کو لے کر ہنگامہ برپا ہے لیکن
بڑ بولے وزیراعظم کی بولتی بند ہے ایسے میں ایک من چلے نے للت مودی کو ٹویٹ
کرکے لکھا ’’ آپ مشکل ترین وکٹ پر آگے بڑھ کر کھیلتے ہو۔ آپ ہمارے
وزیراعظم کو کیا صلاح دیں گے جو ذرائع ابلاغ کو سنبھالنے میں لڑ کھڑا رہے
ہیں‘‘۔ یہ کس نے سوچا تھا کہ وزیر اعظم کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کیلئے
ان کا کوئی مرید للت مودی جیسے بدعنوان بھگوڑے سے رجوع کرے گا؟ اس پیغام کے
جواب میں للت مودی نے جو کچھ لکھا ہے اس کے آگے تو ہمارے سیاستداں بھی
پانی بھرتے ہیں ۔ للت نے لکھا ’’ ہمارے وزیر اعظم نہایت شاطر آدمی ہیں۔
انہیں کسی صلاح و مشورے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنےبلےّسے گیند کو میدان کے
باہر کر سکتے ہیں‘‘۔ آج حالت یہ ہے کہ للت مودی تو بڑے آرام سے وزیراعظم
کو خراج تحسین پیش کررہا ہے لیکن نریندر مودی اس پر لب کشائی کی جرأت نہیں
کرپارہے ہیں۔ ان کی گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ وجئے راجے سندھیا جب نیتی
آیوگ کی نشست میں شرکت کرنے کیلئے دہلی آتی ہیں اور ملاقات کیلئے وقت
مانگتی ہیں تو وہ نہ صرف خود ملاقات سے دامن بچا لیتے ہیں بلکہ اپنے شاگردِ
خاص میت شاہ کو بھی منع کردیتے ہیں۔
مودی جی نے اپنے فرانس کے دورے پر ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سوال
کیا تھا ’’ آپ نے کوئلہ گھوٹالے کے متعلق سنا ہوگا۔ کوئلے کی کان کنی کے
ٹھیکے اس طرح تقسیم کئے گئے جیسے تاش کے پتے یا قلم اور رومال ۔معمولی قلم
بھی کسی کودینے سے قبل انسان سوچتا ہے کہ کیا یہ شخص اس کا اہل ہے؟‘‘ اب
اگر کوئی یہی سوال ان سے کرے کہ کیا ۱۲۵ کروڈ روپئے کا لٹیرا للت مودیاس
سلوک کا اہل تھا کہ اس کیلئے وزیر خارجہ اور وزیراعلیٰ نے ایسی زحمت گوارہ
کرتےکہ جیسے کسی شریف ترین انسان کیلئے بھی نہیں کی جاتی ۔ حکومت ہند نے جس
کے خلاف نیلے کارنر والا نوٹس جاری کروا رکھاہےتا کہ وہ برطانیہ سے فرار نہ
ہو سکے ۔اس کو ساری دنیا میں گھومنے پھرنے کی اجازت مرحمت فرمانے کیلئے جس
طرح تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مودی جی نے اپنی سرکار کی سالگرہ مناتے ہوئے چھتیس گڑھ کےلوگوں سے پوچھا
تھا کیا پچھلے ایک سال میں آپ لوگوں نے کوئی گھوٹالہ سنا ؟ اب وہ بیچارے
ادیباسی کیا جانیں کہ شہروں میں رہنے والے یہ شیطان سیاستدان کیا کیا گل
کھلاتے ہیں اس لئے ہونقوں کی مانند ان کا منہ دیکھتے رہے لیکن اپنا یہی راگ
انہوں نے متھرا کے قریب نانگلہ گاوں میں بھی دوہرایا۔ وہ بولے ایک زمانے
میں ہندوستان کی حکومت ریموٹ کنٹرول سے چلتی تھی ۔ مودی جی کااشارہ سونیا
گاندھی کی جانب تھا لیکن اب تو خود ان کی پارٹی کے سب سے معمر رہنما لال
کرشن اڈوانی ارشاد فرماتے ہیں کہ ملک اب بھی ایمرجنسی کے خطرے سے دوچار ہے۔
ویسے اڈوانی جی تو الیکشن کے پہلے ہی سے مودی جی پر پوری پارٹی کو یرغمال
بنا لینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ مودی جی نے متھرا میں کہا یو پی اے کے
زمانے میں آئے دن ایک نیا گھپلا سامنے آتا تھا لیکن اب حالت یہ ہے کہ ہر
روز ایک سے زیادہ گھوٹالے منظر عام پرآتے ہیں ۔
مودی جی نے رابرٹ وادرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ایک زمانہ تھا جب
بدعنوانی میں بیٹوں اور دامادوں کا نام آیا کرتا تھا لیکن پردھان سنتری،
پردھان سیوک اور سرکاری خزانے کے امانتدار محافظ کی حیثیت سے میں اس کی
اجازت نہیں دوں گا۔ اگر ایسا ہے تو جب سشما کی بیٹی بانسری سوراج عدالتِ
عالیہ میں للت مودی کی پیروی کرنے کیلئے کیوں جاتی ہے؟ اور ستم ظریفی یہ ہے
کہ عدالت کا فیصلہ بھی ایک رشوت خور گھپلے باز کے حق میں ہوجاتا ہے۔ اس لئے
کہ حکومت کی جانب سے خاطر خواہ مخالفت نہیں ہوتی۔ اور تو اور سشما کے شوہر
نامدار برسوں تک اس بدعنوان مودی کے قانونی صلاح کار بنے رہتے ہیں اور اس
کے خرچ پر پانچ ستارہ ہوٹلوں میں عیش کرتے پھرتے ہیں۔ سشما کی انسانی
ہمدردی للت مودی جیسے مجرم پیشہ شخص کے حق میں ہی زور مارتی ہے دیگر مجبور
لوگوں کا دکھ درد وہ محسوس نہیں کرتیں۔ یہاں تو نہ صرف بیٹا اور داماد بلکہ
پورا خاندان ایک بدعنوان کا ہمنوا بنا ہوا ہے۔ اس کے باوجود پوری بی جے پی
بشمول وزیراعظم اس کی محافظ بنی ہوئی ہے۔
یہ انسانی ہمدردی کا قصہ بھی نہایت دلچسپ ہے کہ سنتے ہیں للت مودی کو اپنی
بیماراہلیہ کے آپریشن کے کاغذات پر دستخط کرنے کیلئے پرتگال جانا تھا۔ اول
تو طبی سہولیات پرتگال کی بہ نسبت برطانیہ میں بہتر ہیں اس لئے للت مودی
کابغرضِ علاج پرتگال جانا اپنے آپ میں ایک معمہ ہے دوسرے یہ انکشاف کہ
وہاں سرے سے آپریشن ہوا ہی نہیں سارے معاملے کو مشکوک بنا دیتا ہے ۔ اس کے
علاوہ اگر یہ اجازت نامہ علاج کے خاطر تھا تو اسے ایک آدھ مہینے کیلئے کسی
مقام خاص تک محدود ہونا چاہئے تھا یہ کیاکہ دوسال کیلئے ساری دنیا کی سیر
سیاحت کا پروانہ عطا کردیا جائے۔ للت مودی پرتگال کے جس ہسپتال میں اپنی
اہلیہ کا علاج کرانے کیلئے گیا تھا وہاں جراحت تو نہیں ہوئی ہاں راجستھان
کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ ضرور ہوگیا جس کی بدولت جئے پور میں اس کا
تحقیقاتی و معالجاتی مرکز قائم ہوگیا۔ اب کون جانے کہ وہ پرتگال اپنی اہلیہ
کا اعلاج کرانے کیلئے گئے تھے یا وجئے راجے سندھیا کا احسان اتارنے کی خاطر
کہ جنہوں نے اس شرط پر ان کے حلف نامہ پر دستخط کئے تھے کہ حکومتِ ہند کو
اس کا پتہ نہیں لگنا چاہیے۔
وجئے راجے سندھیا کا فرزندِ ارجمند رکن پارلیمان دشینت سنگھ کے للت مودی کے
ساتھ معاملات کی نوعیت بھی کم خطرناک نہیں ہے۔ دشینت سنگھ نے ۲۰۰۵ میں
نیانت ہوٹلس نامی کمپنی قائم کی ۔ اس کے اندر للت مودی کی آنند ہوٹلس نے
۱۲ کروڈ روپئے کی سرمایہ کاری کی ۔ اس سرمایہ کاری سے متعلق وزیر خزانہ اور
سپریم کورٹ کے مشہوروکیل ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ یہ ایک کاروباری معاملہ
ہے تو ذرا اس کی تفصیلات بھی دیکھ لی جائے۔ دشینت کی غیر معروف کمپنی کے دس
روپئے کے حصص(شئیر) جنہیں کوئی پوچھ کر نہیں دیتا تھا للت مودی جیسے عیار
انسان نے ۹۶ ہزار روپئے کی شرح پر خریدلیے۔ کیا کوئی دیوانہ بھی ایسی حرکت
کرسکتا ہے؟ للت نے دشینت کو ۸ء۳ کروڈ روپئے قرض دئیے لیکن دشینت نے انکم
ٹیکس کا ریٹرن فائل کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس لئے کہ اسے پتہ تھا اپنی ماں
کے وزیراعلیٰ ہوتے کوئی مائی کا لال انکم ٹیکس آفیسر اسکی جانب نظر اٹھا
کر نہیں دیکھ سکتا ۔ دشینت سنگھ نے انتخاب لڑنے کی خاطر جو حلف نامہ داخل
کیا اس میں بھی کمپنی اور قرض کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ یہ تو وہ لین دین ہے
جو کھلے عام ہوا ہے اس کے علاوہ جو کالا دھن آیا گیا ہوگا اس کی بابت
اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
وجئے راجے سندھیا کے للت مودی سے قدیم گھریلو تعلقات ہیں اور ان کے خلاف
اتنے سارے شواہد آگئے ہیں کہ اب ان کا استعفیٰ لینے کے بجائے انہیں نکال
باہر کیا جانا چاہئے لیکن ایسی جرأت کم از کم مودی جی کے بس میں نہیں ۔
نریندر مودی نے گجرات کی۱۸۲ میں سے ۱۲۱ نشستوں پر کامیابی درج کروائی تھی
اس کے باوجود وہ پارٹی کے صدر نتن گڈکری کو بلیک میل کیا کرتے تھے۔ سندھیا
نے ۲۰۰ میں سے۱۶۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہےاورایوانِ پارلیمان کی ساری۲۵
نشستیں جیت لی ہیں ۔ یہ ارکان اسمبلی اور پارلیمان مودی سے زیادہ سندھیا کے
وفادار ہیں اور سندھیا کو ہٹائے جانے پر وہ بغاوت کرسکتےہیں۔ بغاوت کی صورت
میں بی جے پی کے پاس ۱۵ ارکان اسمبلی بھی نہیں بچیں گے اور کم از کم ۲۰
ارکان پارلیمان کم ہو جائیں گے۔ راجستھان میں سندھیا کا اقتدارمودیپر منحصر
نہیں ہے بلکہ مرکز میں مودی سندھیا کے محتاج ہیں ۔
بدعنوانی کی بابت راجستھان سے برا حال مدھیہ پردیش کا ہے جہاں ویاپم
گھوٹالہ کو دبانے کیلئے قتل وغارتگری کا بازار گرم ہے۔یہ بدعنوانی ۲۰۰۰کروڈ
کے لگ بھگ ہے اس لئے کہ اس میں ایک لاکھ ۴۰ ہزار لوگوں کی غیر قانونی بھرتی
اور ہزاروں طلباء کا داخلہ ہوا ہے۔ اس گھوٹالے کی تفتیش کرنے والی ایس آئی
ٹی نے اب تک ۱۸۰۰ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور مزید ۸۰۰ لوگ مطلوب ہیں۔ ایس
آئی ٹی کے سربراہ کے مطابق اس سے متعلق ۴۰ لوگ ہلاک کئے جاچکے ہیں جس میں
مزید۲ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ عدالت میں ایس آئی ٹی ۲۳ لوگوں کے غیر فطری موت
کو تسلیم کیا ہےحالیہ۲افرادکے اضافہ کے بعد یہ تعداد ۲۵ ہوچکی ہے۔ مہلوکین
یاتو پولس کی حراست میں جان بحق ہوئے یا ضمانت پر تھے اس کے باوجود ایس
آئی ٹی نے ہنوز ان کی موت کی تفتیش شروع نہیں کی ہے۔ ویسے مدھیہ پردیش کے
وزیر داخلہ بابولال گور کے مطابق یہ ساری اموات فطری ہیں۔ ایس آئی ٹی گور
کے تحت کام کرتی ہے ایسے میں اس سے انصاف کی توقع رکھنا خام خیالی ہے لیکن
عوام نہ چوہان کے ماتحت ہیں اور نہ مودی کے اس لئے جب وہ سزا دینے پر آئیں
گے تو یہ سارے بے دست و پا ہوجائیں گے ۔ سابق ایڈوکیٹ جنرل وویک ٹنکھاکے
مطابق اب تک ویاپم کے متعلق صرف ۲۰ فیصد معلومات باہر آئی ہیں جبکہ
فورینسک ماہر پرشانت پانڈے کے کہنا ہے کہ اب تک صرف پانچ فیصد بے ضابطگی
منظر عام پر آئی ہے۔
مدھیہ پردیش میں تو خیر بی جے پی عرصۂ دراز سے حکومت کررہی ہے لیکن
مہاراشٹر میں تو چند ماہ کے اندر اس کے پانچ وزراء پر سنگین قسم کے الزامات
لگ گئے ہیں جن میں سب سے مشہور پنکجا منڈے پر بغیر ٹینڈر کے۲۰۴ کروڈ کا
ٹھیکہ دینے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ہریانہ کے وزیراعلیٰ کھترّ پر پنشن
گھوٹالے میں ۸۰ کروڈکے غبن کا الزام ہے۔ گجرات کی وزیراعلیٰ آنندی بین پر
میٹرو ریل میں ۱۰۰ کروڈ اور چھتیس گڑھ کے رمن سنگھ پر چاول گھوٹالے میں ۱۵۰
کروڈ کھا جانے کا الزام ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی نائب صدریدورپاّ کے خلاف
کئی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں اور ممکن ہے انہیں جلد ہی پھر سے
گرفتارکرلیا جائے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کرحزب اختلاف تو کجا پارٹی کے
اندر مودی کے مخالفین نےمحاذ کھول دیا ہے۔ گووندآچاریہ نے اخلاقی بنیادوں
پر سشما اور سندھیا کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اوراڈوانی جی نے اپنی مثال دے
کر کہا کہ جب حوالہ ڈائری میں ان کا نام آیا تھا تو انہوں نے خود آگے بڑھ
کر استعفیٰ پیش کردیا تھا۔یہ اڈوانی جی کی سب سے بڑی حامی سشما سواراج کو
سیاسی مستقبل پرخطرے کی گھنٹی ہے۔
مودی جی کا اعلان کہ بدعنوان لوگوں کے برے دن آگئے ہیں اب ان کے گلے کا
ہڈی بن گیا ہے۔ للت مودی جس کے ساتھ کانگریس نے سختی کرتے ہوئے اس کے اسلحہ
بردارمحافظین کو ہٹا لیا تھا اور برطانیہ سے واپس لانے کی کوشش کی تھی۔
برطانوی حکومت اس کیلئے تیار بھی ہو گئی تھی مگر اس نے راکیش ماریہ کے
ذریعہ اپنے خلاف داؤد ابراہیم کے خطرے کی تصدیق کروائی اور عدالت کا فیصلہ
اس کے حق میں ہوگیا۔ اس طرح وہ برطانیہ میں محصور ہوکر رہ گیا لیکن بی جے
پی کے اقتدار میں آتے ہی اس کے اچھے دن آگئے۔ کانگریس نے تو خیر اپنے چند
وزراء کا استعفیٰ بھی لے لیا تھا لیکن راج ناتھ فرماتے ہیں کہ یہ این ڈی اے
ہے اس میں استعفیٰ نہیں لیا جاتا گویا بدعنوان لوگوں کو تحفظ فراہم کیا
جاتاہے۔ اس طرح گویا ایک سال کے اندریہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ
بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے والے خود اس میں بری طرح ملوثّ ہوچکے ہیں اس لئے
کہ لادینی جمہوریت کا بنیادی اصول ہی ہے ’’کھاؤ اور کھانے دو‘‘۔بی جےپی جب
تک اقتدار میں ہےاسے جی بھرکے سرکاری خزانے کو لوٹےککی آزادی ہے لیکن کل
جب اس کا اقتدار ختم ہو جائیگا تو یہی آزادی کانگریس کو مل جائیگی اور وہ
بھی بڑھ چڑھ کرگھپلے کرے گی اور لادین جمہوریت پروان چڑھتی رہے گی۔
|