مستشرقین ان مغربی لکھاریوں کو کہا جاتاہے جوکہ مشرق کے
بارے میں جانتے ‘لکھتے اورپڑھتے ہیں ۔اس میں توکوئی شک نہیں کہ جب
پہلامغربی لکھاری لکھ رہاتھاتوسمجھیئے کہ ’’وکی لیکس‘‘کاوجود قائم
ہوچکاتھا۔ان لکھاریوں نے بڑی چالاکی سے اپنی لکھت کو حقائق کے لبادے میں
ڈھال کر مشرق کی ایسی دردناک اورکریہہ منظرکشی کی کہ اگرکوئی نازک مزاج
ولاعلم بشر پڑھ لے تو تعریف کیئے بغیرنہ رہ سکے ۔ ان لکھاریوں نے ایسی
معاندانہ روش اختیارکی کہ اہل مشرق کو ان کی خوشہ چینی کیلئے عرق ریزی سے
کام لینا پڑا۔اس حقیقت سے توانکارممکن نہیں کہ یہ کسی حدتک سچائی ہی بیان
کرتے ہیں لیکن ان کے بیان کرنے کاانداز اور’’وقت ‘‘ایساہوتاہے کہ قاری کے
چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں اوروہ لاشعوری طور پر ان کے بنے بنائے جال میں
جاپھنستاہے۔اگرآپ کو رائن ہاٹ ڈوزی کی اسلامی سلطنت سپین سے متعلق کتاب
پڑھنے کا موقع ملے تو آپ کے سامنے یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہوجائے
گی۔اس کتاب میں مصنف ملوکیت کے دور کے ایک مسلمان بادشاہ کا پوراحال بیان
کردیتاہے لیکن اس کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے واقعے کو کہیں نہیں
لکھتااورپھر جب اس مسلمان بادشاہ کے وقت ِ وفات کے متعلق لکھتاہے تو
بتاتاہے کہ اس شخص نے اپنے ہاتھوں سے فلاں معصوم شخص کو قتل کیا۔ وقتِ وفات
کواسطرح بیان کرنے سے ظاہر ہے اسکامقصد یہی تھاکہ اس نازک موقع پر بھی قاری
کے دل میں بادشاہ کے متعلق شمہ بھر بھی محبت کا جذبہ کارفرماہوتووہ جل کر
راکھ ہوجائے اوراس کی جگہ نفرت کامادہ لے لے۔بادشاہ کانام غالبا معتضد تھا۔
اسکے برعکس جب معتضد کے ہم عصرعیسائی بادشاہ کر موت کاتذکرہ کرتاہے تولفاظی
سے بھرپورایسی روحانی تصویرکشی کرتاہے کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا
قاری بادشاہ کے تزکیہ نفس اورانسان دوستی کاقائل ہوتانظرآتا ہے۔یہ ہے وہ
اندازجس میں بیان تو سچ ہی کیاجاتاہے مگر اس کے بیان کرنے کا اندازاوروقت
ایساہوتاہے کہ اس سے منفی تاثرپھیلے اوراہل مشرق کانقصان ہی ہو۔
اس سارے واقعے کی یاد دراصل اسوقت آئی جب ایم کیوایم کے متعلق بپتاسنائی
گئی۔اس ’’کہانی‘‘کادوبارہ احیاء ایسے وقت میں کیاگیاجب بھارت اورپاکستان
میں پہلے ہی سے تناؤ کی کیفیت ہے ‘پاک چین اقتصادی راہداری کامنصوبہ اپنے
آغاز کیلئے منتظرہے اوربھارت اسکی رقابت میں جل رہاہے۔چین اورروس میں
قربتیں بڑھ رہی ہیں۔کراچی میں آپریشن جاری ہے اورپی پی پی اورمتحدہ ایک خاص
حد تک بڑھ کر اپنے تحفظات یا یوں سمجھئے کہ ’’مفادات‘‘کااظہارکررہی
ہیں۔بلوچستان ‘خیبر پختوناخواہ میں بھی آپریشن کامیابی کے قریب ہے ۔اس لیئے
اس رپورٹ کو مختلف زاویوں سے پرکھنا ہی ملک کے بہترمستقبل کی ابدی ضمانت
ہوسکتاہے۔ممکن ہے اس سے برطانیہ اپنے ’’حصے‘‘کی آگ کہیں اورمنتقل
کرناچاہتاہو۔
متحدہ کے متعلق چارج شیٹ کوئی نئی بات نہیں ‘جون 1992میں بھی ’’غدار‘‘کی
بازگشت سنائی دی پھر بات آئی گئی ہوگئی۔آپریشن میں حصے لینے والے فوجی
تومحفوظ رہے البتہ پولیس والوں کونجانے کس نے چن چن کے اگلے جہان
پہنچادیا۔ہمیں یہ کہنے میں تامل نہیں کہ کراچی کودہشت گردوں کے ساتھ ساتھ
’’سیاسی ہتھکڑیوں‘‘نے بھی نقصان پہنچایااورشاید زیادہ ہی پہنچایا۔یہ وفاق
اور افواج ِ پاکستان کی دانش مندی کاکھلاثبوت ہے کہ کراچی آپریشن صوبائی
نگرانی میں ہورہاہے اوروفاق کے بجائے افواج سامنے ہیں ‘اس سے وفاق اورصوبے
کے درمیان کم رقابتیں جنم لیں گی اورآپریشن جاری رہنے کے زیادہ امکانات ہیں
کیونکہ اس کی ڈوریں ایک پرعزم بشرکے ہاتھ میں ہیں۔’’غداری‘‘کاتمغہ تقسیم
کرنے سے پہلے ہمیں سوچناہوگاکہ کراچی کے زمینی حقائق کس انداز میں آپریشن
کی حمایت کرتے ہیں ۔ہم پہلے ہی لکھ چکے کہ کراچی کے فرزند صولت کو تو سزا
مل گئی لیکن صولت کے مجرموں کو کون سزادے گا‘کون تھا جو صولت کو اس مقام تک
لایاکہ اس نے ’’حقوق‘‘کی خاطرکسی سے جینے کا ’’حق‘‘ہی چھین لیا؟؟؟ہم یہ بھی
عرض کرچکے کہ کراچی کو صدیوں سے غلام بنانے والوں کو کب سزاملے گی؟سندھ جو
کہ مجموعی طورپرقدامت پرست اورغریب عوام پرمشتمل صوبہ ہے ‘اسکی عوام وڈیروں
‘پیروں اورسرمایہ داروں کے ہاتھ مقہورومجبور ہے۔انہی ظالموں نے اردوبولنے
والوں کو اس نہج تک پہنچایاکہ وہ سہانے سپنوں کے شیدائی بن کر لسانیت میں
غرقاب ہوگئے ۔لفظ’’مہاجر‘‘ایک مقدس لفظ ہے لیکن جب اسے کوئی ایساشخص
اداکرتاہے جس کے آباؤاجدادنے ہجرت کی تھی تویہ بے موقع سی بات ہے ۔ہم
توبلاتامل ایسے جوان بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ’’بھائی!آپ نے ادھر جنم لیا‘آپ
کے والدنے ادھر جنم لیا‘آپ مقامی ہیں ‘آپ تعارف میں اپنی ذات بتایاکیجئے
۔‘‘مجھے پچھلے دنوں ایک پچاسی سالہ بزرگ ملے ‘میں انہیں بڑی محبت سے ملا‘اس
سے پہلے کہ وہ میرے اندازِ گفتگواوروالہانہ پن پر کچھ کہتے میں نے کہہ دیا
بزرگو’’آپ کی محبت اس دل میں اس لیئے ہے کہ اس سرزمین کی خاطرآپ نے قربانی
دی‘لہوبہایا‘آپ کی بدولت ہم آزاد ہیں ۔اس سرزمین پرآپ کاہم سے زیادہ حق
ہے۔‘‘پھرجب وطن کی محبت کاسوال کیاتوانہوں نے کہا’’جالندھر‘‘کسے یاد نہیں
آتا‘جن گلیوں میں کھیلے ‘پلے بڑھے ‘مگربیٹا!دین کی خاطر میراسب کچھ آج بھی
حاضر ہے۔‘‘ان کے موخرالذکرالفاظ انتہائی عقیدت واحترام میں ڈوبے ہوئے
تھے۔ایک بی زیڈیوکے اردوبولنے والے پروفیسرصاحب سے پوچھاکہ ماجراکیاہے؟بولے
یارکچھ لوگ آج بھی ہمیں اپنانہیں سمجھتے ‘لیکن جس طرف کراچی کے اردوبولنے
والوں کی حمایت چل نکلی ہے ‘وہ ہمارامقصودنہ ہے ۔ایک رپورٹرسے پوچھا ’’ووٹ
کسے دیا‘‘اس نے کہا’’ووٹ انہی۔۔ کودیناتھالیکن جب الیکشن بوتھ پہنچاتومجھے
دیکھ کر یارلوگ مسکرانے لگ گئے ‘ایک نے کہاکیاکرنے آیاہے ؟میں نے کہاووٹ
دینے ‘جواب میں قہقے بلندہوئے اوراسی ’’لے ‘‘میں ایک دوست نے کہاابے پاگل
تیراووٹ توصبح سے کاسٹ ہوچکاہے۔‘‘ایک نہیں ایسے بہت سے اردو بولنے والے
اوربالخصوص کراچی کے لوگوں سے اُٹھتے بیٹھتے ‘راہ چلتے ‘دوران سفر‘ مل
چکاہوں جوکراچی کی اس حالت سے بیزاری کااظہارکرتے ہیں لیکن یاسیت کی
جوفضابیانوے کے ادھورے آپریشن نے قائم کی ‘اورپھر اس کے بعد اس آپریشن کے
حامیوں کاجوحال ہوا‘وہ کسی نہ کسی حد تک آج بھی خوف کے سائے میں رہتے ہیں۔
ایسا ہرگزنہیں کہ متحدہ میں اچھے لوگ نہیں ‘اس کے ورکرز کی بیشترتعدادجذبہ
لیئے ہوئے مخلص سیاسی کارکنان کی مانند ہے مگراب جب کہ میڈیاٹرائل کاآغاز
ہوچکاتوضرورت اس امر کی ہے کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے۔پاکستان کے
بااختیار افراد کافرض ہے کہ عالمی معیار کی تحقیق وتفتیش کریں ‘اگرمتحدہ
قصوروارثابت ہو توبلاتامل کاروائی کریں اوراگرایساثابت نہ ہوسکے تو رپورٹ
نشرکرنے والے کے خلاف پاکستان حکومت کو بھی کاروائی کرنی چاہیئے کیونکہ
متحدہ ایک پاکستانی سیاسی جماعت ہے اوربغیرثبوت کے کسی کویہ حق نہیں دینا
چاہیئے کہ جماعت پرالزام ودشنام کے تیربرساسکے۔۔ایم کیوایم کو بھی چاہیئے
کہ وہ اپنے اندر نظام احتساب کے ذریعے کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرے اور
برطانیہ میں بی بی سی کے خلاف قانونی کاروائی کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور
پانی کاپانی ہوسکے۔برطانیہ میں عمران فاروق قتل کیس ومنی لانڈرنگ کیس
اختتام کے قریب ہیں ‘ایم کیوایم کے دوسرے بڑے سیکرٹریٹ میں بھی کاروائی کی
بازگشت سنائی دے رہی ہے ‘پاکستان میں آپریشن کادارومدار عسکری اداروں کی
صوابدید پرہے اورجنرل راحیل شریف جنہوں نے خیبرسے لے کر کراچی تک سب صاف
کرنے کا تہیہ کررکھا ہے ‘اُمیدہے کہ وہ اس قصہ کو بھی انجام تک پہنچائیں گے
لیکن عرض ہے کہ اردوبولنے والوں کیلئے پلیٹ فارم موجود رہنا چاہیئے ‘چاہے
وہ کسی بھی نام سے ہو‘اگرتعصبات کومٹانامقصود ہوتوپھر سندھی ‘سرائیکی ‘بلوچ
‘پختون سب ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کو ایک ہی ترازومیں تولاجائے۔یہ آپریشن ایسے
نازک وقت میں اپنے عروج پر جاپہنچاہے جب بلوچستان ‘سندھ ‘خیبرپختونخواہ
سمیت ہرگوشے میں ایسی ہی کاروائی جاری ہے اور’’علامہ صاحب ‘‘بھی تشریف
لاچکے ہیں ‘لہذا ملکی سلامتی کیلئے ہرقدم پھونک پھونک کر رکھناہوگا‘اگروفاق
کسی اندرونی خطرے کے پیشِ نظرحددرجہ محتاط ہوتاہے توپھر کراچی کے امن کا
بھاری فرض مکمل طورپر ایک ہی ادارے کواپنے کندھوں پراُٹھاناہوگاجسے وہ پہلے
ہی احسن طریقے سے نبھارہاہے۔ |