جنگی تیکنیک اور فتح کا علم

رمضان المبارک کا مہینہ اپنی رحمتیں لٹارہاتھا۔اسی میں میں تاریخِ انسانیت کے بیسیوں واقعات رونماہوئے جو آج بھی تاریخ کے اوراق پر کندہ ہیں ۔انہیں میں ایک واقعہ بدر بھی ہے ۔

میں بیٹھا سوچ رہاتھاکہ واقعہ بدر مجھے پورا معلوم ہے بلکہ علماء کے وعظ ،و کتب کثیرہ میں اس کا ذکر اس قدر ہوچکاہے کہ ذہن پر نقش ہوچکاہے ۔لیکن میں سوچ رہاتھا کہ ہمیں اس جنگ کے تیکنیکی پہلووں پر بھی غورکرنا چاہیے ۔چنانچہ سوچا کیوں نہ تحریر کی صورت میں بھی ان خیالات کو قارئین تک بھی پہنچا دیا جائے ۔میں اپنی اس تحریر میں آپ کی آسانی کے لیے سوال قائم کرکے اس کے جواب پر اپنا تبصرہ پیش کروں گا تاکہ تیکنیکی جہات کا انکشاف آسان ہوسکے۔

سب سے پہلی بات اس جنگ کا پسِ منظر کیاہے؟
کفارِ مکہ اس بات سے خائف تھے کہ مدینہ میں مسلمانوں کی طاقت بننے سے شام کی طرف جانے والا ان کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لیے غیر محفو ظ ہوجائے گا۔چنانچہ اس خوف اور اندیشے نے ان کے کان کھڑے کردیے ۔لہذا انھوں نے عبد اللہ بن اُبی کو لکھا ۔ 'اگر اہل مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کوشہر بدرنہ کیا تو قریش ان کے مردوں کو قتل اورعورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے ۔ایک مرتبہ کیا ہو اکہ سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمرہ کے لیے گئے تو کفار نے انھیں مسجد الحرام کے دروازے پر روک لیااوردیگر مناسک اداکرنے کی بھی اجازت نہ دی ۔کفار کے سازشی گروہ نے کمر کس لی۔ بڑی رازداری سے مدینہ پر چڑھائی کی منصوبہ بندی کی ۔ان حالات میں مسلمانوں کے لیے اس کے سواکوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ وہ قریش کے تجارتی راستوں کی ناکہ بندی کردیں اوردیگر قبائل کواسلام دشمن پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے مجبور کریں ۔مشرکین مکہ،اس کے اتحاد ی قبائل ،اہل یہوداور منافقین کو سبق سکھانے کا یہ بہترین وقت تھا۔یہ لوگ اسلام کے فروغ کوکسی صورت میں برداشت نہیں کرپارہے تھے اوروہ اسے لوگوں کے دلوں ،حتی کہ روئے زمین سے نیست ونابود کردینا چاہتے تھے ۔جب کہ تقدیر کو کیا منظورتھا کہ انہی بڑے بڑے سرداروں و جاگیرداروں کو اسلام کے آگے جھکنا ہی تھا۔

محترم قارئین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جنگ کی نوبت آئی کیسے ؟عرض کرتاچلوں کہ جنگ کی فضا کچھ اس طرح بنتی ہے کہ دوہجری کے اوائل میں ابوسفیان کی قیادت میں ایک تجارتی قافلہ کم و بیش چالیس محافظوں کے ساتھ شام سے مکہ کے لیے محو سفر تھا۔جب مسلمانوں کی حدود سے گزرنے لگا۔مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوف زدہ ہوکر اس نے ابوسفیا ن نے مدداایک قاصد مکہ کی جانب دوڑادیا۔اس خبر سے مکہ میں افراتفری پھیل گئی ،لہذاسرداران قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بھرپور جنگ کا فیصلہ کرلیااور مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کو جڑسے اکھیڑ دینے کے ارادے سے ایک ہزار کا لاؤ لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوگئے ۔پلاننگ یہی تھی کہ ابکہ انھیں اس طرح زیر کریں کہ ہم غالب اور وہ مغلوب ہوجائیں ۔

سوال پیداہوتا ہے کہ دوسری جانب مسلمانوں کی پلاننگ کیاتھی ؟
تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتاہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم قریش سے فیصلہ کن معرکے کا ارادہ کرچکے تھے،تاہم مسلمانوں کی اکثریت قریش کے تجارتی قافلے پرغلبہ پانے کی آرزومندتھی ۔ صورت حال سے آگہی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلمنے اپنے صحابہ کو جمع کیااور مطلع کیا کہ قریش کا تجارتی قافلہ اس وقت مدینہ کے شمال میں ہے، جب کہ ان کالشکر جنوب کی طرف سے مدینہ کی طرف بڑھ رہاہے ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان دونوں قافلوں پر انھیں غلبہ عطا فرمائے گا۔ان یہ مسلمانوں پرمنحصر ہے کہ وہ تجارتی قافلے پر حملہ کرتے ہیں یاان کے مسلح لشکرپر۔

سوچنے کی بات ہے ۔مسلمانوں کی کمان تو پیارے آقا کے ہاتھ میں تھی سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ قائد و رہبر کی جانب سے پلاننگ کا اظہار ہونے کے بعد ماتحت جوانوں کا کیا رد عمل تھا؟وہ اپنے رہبر کے شانہ بہ شانہ تھے یا متزلزل ؟
محترم قارئین!مسلمان کبھی بزدل نہیں ہوسکتا۔جرائت و شجاعت ،وفاداری و تابعداری اس کا ورثہ ہے ۔حضور ؐ نے جب پانے پیغام اور جنگ کی حکمت عملی صحابہ کے سامنے رکھی تو ان شہپروں و شہبازوں کی طرف سے حوصلہ افزاجواب ملا۔جو جنگ میں کسی میں سپہ سالار کے لیے فتح کی نوید ہوتاہے ۔چنانچہ
صحابہ کرام کے جذبہ کچھ ایسے تھے جسے کتب میں درج کیا گیا کہ ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم !جوحکم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کواللہ تعالی کی طرف سے ملاہے ،اس کے لیے تیارہوجائیے ۔ہم لوگ بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے ۔'(اگرلڑنا ہی ضرور ہے)توتم اورتمھارا خدا جاؤاورلڑو،ہم یہیں بیٹھے رہیں گے ۔' ٠ قسم ہے اس ذات کی ،جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق وصداقت کے ساتھ بھیجا ہے ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اقصاے یمن کے ایک مقام )برک الغمادتک جائیں گے توہم ساتھ ساتھ ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کودرمیان لیتے ہوئے آگے پیچھے ،دائیں بائیں جنگ کریں گے ۔'

سوال یہ اُٹھتاہے کہ دشمن اور مسلمانوں کی تعداد کتنی کتنی تھی طاقت جنگی توازن کا اندازہ ہوسکے ؟
محترم قارئین۔کفار مکہ کا مسلح لشکر ایک ہزار جنگ جوؤں مشتمل تھا، جس میں چھ سوزرہ پوش اور دوسوسوار شامل تھے ۔لشکرکے ساتھ ساتھ گائک اوررقاصائیں بھی تھیں۔راستے میں جہاں کہیں پڑاؤڈالاجاتا ، محفل رقص وسرودکااہتمام کیاجاتا۔مقصد یہ تھا کہ دیگر قبائل اورآس پاس کے علاقوں پران کی قابل تسخیر فوجی برتری اورعددی قوت کی دھاک بیٹھ جائے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس لشکر کے پیش نظر کوئی اعلی جنگی مقاصد نہ تھے ۔

دوسری جانب مشرکین کے اس لشکر کاسامنا کرنے کے لیے کم وبیش تین سو تیرہ مسلمان روانہ ہورہے تھے۔اسلامی لشکر میںمہاجرین اورباقی انصارشامل تھے۔ وسائل کے فقدان کایہ عالم تھاکہ ان کے پاس دو تین گھوڑے اورستر اونٹ تھے ، جس کی وجہ سے تین تین ،چارچارآدمی باری باری ان پر سواری کررہے تھے ۔خود حضورصلی اللہ علیہ و سلم دو صحابہ کے ساتھ ایک سواری میں شامل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کوسوار ہونے کی پیش کش کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ 'تم لوگ طاقت میں مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو۔ثواب کی مجھے بھی تمھاری ہی طرح ضرورت ہے۔' مجاہدین اپنی زندگیاںاسلام کے لیے وقف کرچکے تھے ۔اللہ تعالی کی طرف سے پہلے ہی فتح وظفر کاوعدہ ہوچکا تھااوراب اس کی ایفا کاوقت آن پہنچا تھا ۔

مسلمان سوچ کیا رہے تھے ؟یہ جنگ ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟
محترم قارئین:غزوہ بدر مسلمانوں کے لیے زندگی اورموت کا مرحلہ تھا۔وہ میدان کارزارسے بھاگنے والے تو تھے نہیں،مگر دشمن کے زبردست دباؤمیں جنگی حکمت عملی کے تحت ، تازہ کمک کے حصول کے لیے یادوبارہ منظم ہونے کی خاطر پیچھے ہٹنے سے منع نہیں کیاگیاتھا، تاہم بزدلی یا خوف شکست سے پسپائی اختیار کرنے سے روک دیا گیاتھا۔ وجہ یہ تھی کہ صحرائی مزاج میں زندگی کے تحفظ کےاعلی مقاصد کو قربان کردیا جاتا تھااورحقیقت یہی تھی کہ اس قسم کی فاش غلطی ہول ناک تباہی کا باعث بن سکتی تھی۔

جب عزم کے اظہار کا وقت آیاتو میدان جنگ نے کی منظرپیش کیا؟
محترم قارئین !!جنگ کاآغاز ہواتوقریش کے پائے کے جنگجو عتبہ بن ربیعہ اور اس کا بھائی شیبہ اوراس کابیٹا ولیداپنی صف سے آگے نکلے اورمسلمانوں چیلنج دیتے ہوئے للکارا ۔ انصار میں سے تین مجاہد آگے بڑھے ،جنھیں دیکھتے ہی عتبہ چیخا۔'ہم مدینہ کے کسانوں اورچرواہوں سے نہیں لڑیں گے ۔

مسلمانوں کے رہبر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس کی بات کو سمجھ گئے اورآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے علی ،حمزہ اورعبیدہ کو مقابلے کا حکم دیا۔حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اوراس کا سرقلم کردیا۔علی نے دوہی ضربوں سے ولید کو جہنم رسید کردیا۔عبید ہ ،جومعمر تھے ،شیبہ کی طرف بڑھے ۔ دونوں میں سخت مقابلہ ہورہاتھا کہ شیبہ کی ایک کاری وار نے عبیدہ کا گھٹنا کاٹ کر رکھ دیا ۔اتنے میں علی اورحمزہ شیبہ پر ٹوٹ پڑے ،اس کاکام تمام کردیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے۔ خیر قصہ مشرکین کے ستر آدمی مارے گئے ستر مشرکین قیدی بھی بنالیے گئے ۔ئ مختصر یہ کہ طاقت کے نشے میں مخمور قریش نہتے مسلمانوں کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوگئے ۔

ایک سوال ذہن پر گردش کرتاہے یہ تو مان لیا کہ مسلمانوں کو فتح ہوگئی اس فتح کے بعد مسلمانوں کا رویہ کیسا رہا؟
محترم قارئین !!بہت عمدہ سوال ہے کیوں کہ ہوتا یہ ہے کہ جب انسان کو فتح ملتی ہے دشمن مغلوب ہوجاتاہے تو پھر وہ ستم کے وہ پہاڑ ڈھاتاہے کہ انسانیت روز رویے پروان چڑھتے ہیں لیکن چونکہ یہاں اسلام کو فتح نصیب ہوئی مسلمان کو فتح ملی یہاں تو ہر طرف سلامتی ہی سلامتی نے ہی پروان چڑھناتھا ۔آپ اس بات سے اندازہ کرلیجیے ۔

ستر مشرکین قیدی بھی بنالیے گئے ۔اللہ نے مسلمانوں کو ان سے فدیہ لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے چند کو فدیہ وصول کرکے رہاکردیا۔بعض دوسروں ،جو پڑھنا لکھناجانتے تھے ،کی رہائی کےلیے یہ شرط عائد کردی کہ وہ ناخواندہ مسلمانوںکوپڑھنا لکھنا سکھادیں۔قیدیوں کے ہاتھوں میں عموما بیڑیاں ہوتی ہیں ۔فاتح جو من میں آئے ان پر قانون مسلط کرتاہے لیکن میرے ماں باپ قربان یہ جیت اسلام کی جیت تھی اس میں ایک قیدی کی جانب سے بیڑی کی تکلف کی آواز آتی ہے تو ادھر اسلام کے رہبر کی جانب سے یہ مژدہ جانفز ا دیاجاتاہے کہ سب کی بیڑیاں ہلکی کردونہ صرف ہلکی کردو بلکہ ان کے ہاتھ آزاد کردو۔قیدیوں سے اس قسم کاسلوک مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہوا۔ سزائے موت کے منتظر ان لوگوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اورفدیہ اداکردیا ۔ دوسرے یہ کہ مدینہ میں شرح خواندگی انتہائی پست تھی اوراشاعت اسلام کے لیے ان کا تعلیم یافتہ ہونا از حد ضروری تھا،تاکہ مشرکین کے مقابلے میں وہ اپنی تہذیبی برتری قائم کرسکیں ۔تیسری بات یہ کہ جو قیدی مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا رہے تھے ، انھیں اسلام کوزیادہ بہتر طور پرسمجھنے اورمسلمانوں سے قریبی روابط کا موقع مل گیااور اپنے خاندان کےساتھ وہ بھی اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ۔چوتھا فائدہ یہ ہوا کہ وہ خاندان یااعزہ ،جوان قیدیوں کی زندگی مایوس ہوگئے تھے ، جب انھیں زندہ سلامت پایا توان کی اسلام دشمنی میں کمی واقع ہوگئی اوربعضوں کے دل اس غبار سے بالکل پاک ہوگئے ۔

محترم قارئین !دیکھا آپ نے کہ جب ہم نے تاریخ کے اس پہلو پر باریک بینی سے غور کیا اس واقعہ کو فقط واقعہ نہ جانا اور تہہہ دل سے تفکر و تدبر کے گھوڑے دوڑائے تو کتنے ہی اہم پہلوہم پر منکشف ہوگئے ۔اللہ عزوجل ہمیں غزوہ بدر میں شریک صحابہ کرام کے طفیل اپنے پاکباز بندوں میں شمافرمالے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ: مجھے شاید مضمون ارسال کرنے میں تاخیر ہوگئی ہے لیکن علم توعلم ہے ۔مقصود تو شعوری بیداری ہے ۔حقائق تک رسائی ہے تو وہ میرے پیارے قارئین کو ابھی بھی حاصل ہوجائے گی ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593946 views i am scholar.serve the humainbeing... View More