گزشتہ دنوں آزاد کشمیر سے
تعلق رکھنے والے بعض افراد کی طرف سے ڈوگرہ حکومت کے بانی گلاب سنگھ کا یوم
وفات منایا گیا۔ تاہم یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ انہوں نے گلاب سنگھ کا
یوم وفات کسی سیاسی حوالے سے منایا یا خود کو ڈوگرہ خاندان کی نسل / قبیلہ
،سمجھنے کے حوالے سے ؟آزاد کشمیر میں اس پر چند سیاسی حلقوں کی طرف سے
تنقید بھی کی گئی اور اسے کشمیریوں پر ڈوگروں کے ڈھائے جانے والے بھیانک
مظالم کی حمایت اور کشمیریوں کی قربانیوں کی مخالفت وتوہین قرار دیا۔مولوی
حشمت اﷲ ڈوگرہ حکومت کے مختلف ادوار میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے کے
علاوہ ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں گورنر کے
عہدے پر بھی فائز رہے۔مولوی حشمت اﷲ (غالبا غیر ریاستی باشندے) اعلی پائے
کے عالم اور محقق بھی تھے۔جس علاقے میں جاتے ،وہاں کے بارے میں پوری تحقیق
کر کے مصدقہ طور پر احاطہ تحریر میں لاتے۔ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’تاریخ
جموں‘‘ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک مستند حوالہ ہے۔ مولوی حشمت اﷲ
’’ نے ’’ تاریخ جموں ‘‘ میں ایک تاریخی واقعہ لکھا ہے ۔
رنجیت سنگھ نے اپنے ایک فوجی کمانڈر گلاب سنگھ،( جس نے بعد میں انگریزوں کے
ساتھ مل کر سکھوں سے غداری کی جس وجہ سے انگریز جنگ جیت گئے اور اسی کے عوض
انگریزوں نے گلاب سنگھ کو جموں و کشمیر فروخت کر دیا)،کو جموں میں’’ تریڈو
‘‘ نام کے ایک ڈوگرہ کی بغاوت کو کچلنے کے لئے بھیجا۔جموں کے لوگ تریڈو کے
ساتھ تھے اور ہر گاؤں تریڈو اور اس کے ساتھیوں کو کھانا فراہم کرتا
تھا۔گلاب سنگھ ،سکھ فوج کے ساتھ جموں آیا،ہر گاؤں کے باہر ڈیرہ ڈال کر کچھ
آدمی گاؤں بھیجتا کہ ’’تریڈو‘‘ آیا ہے،اس کے لئے کھانا بھیجو۔گاؤں والے
فورا کھانا فراہم کرتے۔تریڈو کے لئے کھانا دینے کی پاداش میں گلاب سنگھ اس
گاؤں والوں کو سخت ترین سزا ئیں دیتا۔اسطرح تریڈو اور اس کے ساتھیوں کے لئے
کھانے کی فراہمی مشکل تر ہو گئی۔اس کے بعد گلاب سنگھ اور اس کی سکھ فوج نے
تریڈو کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔تریڈو وہاں نہیں تھا،تریڈو کا ضعیف باپ خود
گلاب سنگھ کی فوج کا مقابلہ کرنے نکلا اور لڑتے لڑتے مارا گیا۔باپ کے مارے
جانے کی خبر تریڈو کو ملی تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گلاب سنگھ اور اس کی
سکھ فوج کا مقابلہ کرنے آن پہنچا۔تریڈو سب سے پہلے خود سامنے آیا اور گلاب
سنگھ کو مقابلہ کرنے کے لئے للکارہ ۔گلاب سنگھ نے خود اس کا چیلنج قبول
کرنے کے بجائے ایک سکھ فوجی افسر کو اس کے مقابلے میؓ بھیجا۔تریڈو نے ان سے
کہا کہ تم نے ایک بوڑھے کو مارا ہے ،اب ایک جوان کا وار سہو،تریڈو نے تلوار
کا ایسا بھر پور وار کیا کہ سکھ فوجی افسر کا جسم کٹنے کے بعد اس گھوڑے کے
بھی دو حصے ہو گئے جس پر وہ سوار تھا۔سخت معرکہ ہوا،دونوں طرف سے کافی جانی
نقصان ہوا،گلاب سنگھ کی فوج کو واضح عددی برتی حاصل تھی،تریڈو کے تمام
ساتھی مارے گئے،صرف تریڈو زندہ رہاجو بہادری سے لڑتا ہواسکھ فوجیوں کو
مارتا رہا۔سکھ فوج نے اس کے گرد گھیرا ڈال دیا،تاہم اس کے مقابلے میں آنے
سے کترانے لگے۔تریڈو نے اپنے ملازم سے کرسی اور حقہ منگوایا اور سکھ فوجیوں
کے گھیرے کے درمیان بیٹھ کر حقے پینے لگا اور ساتھ ساتھ گلاب سنگھ کو ماں ،بہن
کی گالیاں دیتے ہوئے اسے غیرت دلانے لگا کہ سامنے آ کر اس کا مقابلہ
کرے،لیکن گلاب سنگھ کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ تریڈو کا مقابلہ کرتا۔سکھ فوجیوں
کوجرات نہ ہوئی کہ وہ قریب آکر اسے پکڑتے یا تلوار سے مارتے،آخر سکھ فوجیوں
نے فائرنگ کر کے تریڈو کو ہلاک کر دیا۔
میں تریڈو کو گلاب سنگھ کے مقابلے میں بہت اچھا سمجھتا ہوں ،کیونکہ جموں کے
تمام گاؤں والے ہنسی خوشی سے تریڈو اور اس کے ساتھیوں کو کھانا دیتے تھے
اور اس سے غالب امکان ہے کہ تریڈو ،جو سکھوں کے خلاف ڈوگروں کی بغاوت کا
سربراہ تھا،کا جموں کے مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے سلوک اچھا
تھا۔اس کے بجائے گلاب سنگھ اور اس کے خاندان نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں
پر جو مسلسل بھیانک مظالم ڈھائے،اس سے ان کے جسم ہی نہیں ان کی روحیں بھی
گھائل ہیں ۔
اگر ہر سچا ڈوگرہ اور ڈوگروں سے کسی نسبت پر فخر کرنے والے، اپنی نسبت گلاب
سنگھ سے استوار کرنے کے بجائے ’تریڈو‘ کا طرز عمل اپنائیں،تو ریاست جموں و
کشمیر کے باشندوں کے درمیان ہمدردی کے جذبات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔یوں
امید کی جا سکتی ہے کہ ’تریڈو‘ کا تاریخی کردار سامنے آنے کے بعد گلاب سنگھ
کے طرزعمل کو سراہنے کے بجائے تریڈو کی طرح خطے کے دوسرے مذاہب کے ساتھ
اچھے سلوک کے داعی بنیں گے۔اب میدان خالی نہیں ہے بلکہ’’ گلاب سنگھ عرف
گلابو لورز ‘‘کے مقابلے میں ’’تریڈو لورز‘‘ میدان میں آ گئے ہیں ۔یہ توقع
بھی رکھی جانی چاہئے کہ ڈوگرہ اور اس سے نسبت والے ’’ تریڈو لورز ‘‘میں
شامل ہونا اپنا اعزاز سمجھیں گے اور اس کی بنیاد گلاب سنگھ کے طرز عمل کی
نفی اور مخالفت ہے۔ چناچہ آپ کو بھی میرے ساتھ کہنا چاہئے ،
’’ گلاب سنگھ ، گلابو مردہ باد ، تریڈو ڈوگرہ زندہ باد ‘‘۔ |