ایرانی ڈیزل

گزشتہ ماہ ڈی جی پاکستان رینجرزسندھ کی ایک پریس ریلز جس میں ملک مختلف انکشافات کئے گئے ،پاکستان رینجرزسندھ کی جانب سے جاری کئے گئے پریس ریلز کا پاکستان بھر کی میڈیا میں خوب تذکرہ ہوا مختلف انکشافات میں ایک انکشاف یہ بھی تھا کہ ایرانی ڈیزل اسمگلنگ کے پیسوں سے ملک میں دہشت گردوں کوفنڈڈنگ کی جاتی ہے،ایک معتبر ادارے کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،مگر اس کے متعلق زمینی حقائق کچھ اور کہتے ہیں، اسمگلنگ ڈیزل کی ہو یا منشیات کی ہر چیز اپنے زمینی حقائق کوخود بیان کرتی ہے ،ساحلی علاقوں کے 80فیصد لو گوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری اور 20فیصد لوگ مختلف زریعے سے اپنے بچوں کی روزی روٹی کی کمانے میں مصروف ہے ،گزشتہ دنوں نجی ٹی وی کے پروگرام سر عام کے میزبان کا کہنا تھا ایرانی ڈیزل کے پیسے دہشت گردی میں استعمال ہوتے ہے۔۔۔ بحیثیت مقامی صحافی مجھے اچھی طرح علم ہے کہ ایرانی ڈیزل کس طرح ایران سے پاکستان میں آتا ہے حکومت ایران ہر ماہ اپنے ایرانی عوام کے گاڑیوں ،ٹریکٹروں، باغات کے مشینوں، لوڈر، لانچوں، کشتیوں اور موٹرسائیکلوں کی ضرورت کے مطابق کوٹہ مقرر کیا ہوا ہے، ایرانی عوام پاکستان کے باڈرعلاقوں میں رہتے ہیں وہ لو گ اپنے ضرورت کے استعمال کے بعد بقایا ڈیزل یا پٹرول کو فروخت کر دیتے ہے ۔ایرانی عوام کی جانب سے فروخت شدہ ڈیزل یا پٹرول گاڈیوں کے ذریعے پاکستان کے باڈر کے علاقوں میں لایا جاتا ہے اگر اُن ڈیزل پر ایرانی حکام کی نظر پڑی تو وہ پکڑ لیتے ہے کیونکہ وہاں سے اسمگلنگ ہوتی ہیں ایران میں ڈیزل سستا اور دسترس میں ہے،جبکہ بلوچستان اور مکران میں انڈسٹری نہ ہو نے کی وجہ سے روز گار کے دیگر مواقع نہیں ہے ،بلوچستان کے عوام ایرانی ڈیزل کے کاروبار کو اسمگلنگ نہیں بلکے اپنا روز گار سمجھتے ہیں،چند دن قبل کوچز نے کوسٹل ہائی وے کو بلاک کر رکھا تھا ُن کا کہنا تھا ڈیزل لے جانے نہیں دے رہے بلوچستان اور وفاقی سرکاری اداروں نے یہاں کے عوام کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور روزگار کے دیگر مواقع نہ ہونے کے باعث د اداروں نے اپنے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ڈھکے چھپے لفظوں میں اایرانی ڈیزل کا کاروبار کی اجازت دے دی ہے تاکہ لوگ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں،ایرانی ڈیزل کے کاروبار کی اجازت دینے کی سب سے بڑی وجہ کا یہاں ذکرکرنا چاہوں گا ۔۔دو سال قبل گوادر کے ایک سیکورٹی ہیڈ کے مطابق ضلع بھر میں متعدد منشیات کا کاروبار کرنے والے لوگوں کو بامشکل ایرانی ڈیزل کی جانب راغب کیا ہے تاکہ بلوچستان کے آنے والی نسلوں کو منشیات جیسی لعنت سے بچایا جا سکے۔اور انھوں نے یہاں تک کہ دیا کہ اگرا یرانی ڈیزل کو جبرن بند کیا گیا تو ایرانی ڈیزل کے کاروبار میں مگن متعدد لوگ پہاڑوں کا رخ کر لیں گے ،جس سے سیکورٹی اداروں کی پریشانی میں خاطرہ خواہ اضافہ ہو جائے گا،

بلوچستان میں غربت کی شرح زیادہ ہے بلوچستان میں ایرانی ڈیزل کا کاروبار بند ہو جائے تو یہاں حالت خرابی کی جانب گامزن ہوجائے گی ،ا س وقت ہزاروں لو گ اس کاروبار میں مصروف ہیں جن میں ڈرائیور ، مزدور، سمیت روٹ کے ہوٹل بھی آباد ہے ، خدارا اس کاروبار کو دہشت گردی اور دوسرے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے لوگوں کو کاروبار کرنے دے کیونکہ ایرانی ڈیزل کا کاروباربلوچستان کے لو گوں کا ذریعہ معاش ہے، بلوچستانی عوام پہلے ہی کافی مشکلات کا شکار ہیں ،ڈیزل کی بندش سے یہاں معاشی مشکلات کا سامنا بھی کرنا ہوگا،صوبہ سے باہر کے لوگ یا اقتدار میں بیٹھے ارباب اختیارشاید یہ سوچتے ہوں گے کہ ایرانی ڈیزل میں لاکھوں روپے فائدہ ہے ،مگر ڈیزل فی لیٹر سے3.5 ملتے ہیں دوسری جانب بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پٹرول پمپ انتہائی کم، کوئٹہ اور صنعتی شہر حب کے علاوہ سی،این، جی اسٹیشن صوبے بھر میں کئی بھی نہیں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کو بگ سٹی،پورٹ سٹی ، سرمائی درالحکومت کا اعزاز ملا مگر صرف ایک پٹرول پمپ ہے کبھی پٹرول نہیں تو کبھی پاکستانی ڈیزل دستیاب نہیں، ایرانی تیل کی بندش سے جہاں ماہی گیر، زمینداراور ٹرانسپورٹرز کو دشواری کا سامنا ہے وہی بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوجائے گا ،جن اداروں نے بلوچ عوام کی مجبوری کو دیکھ کر اپنے آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر لوگوں کو ایرانی تیل کا کاروبار کرنے کی چھوٹ دی تاکہ لوگ منشیات اور دوسرے دھندوں میں شامل نہ ہوجائے ،جس کے باعث ایرانی تیل آ ج وہی اداروں کی بد نامی کا باعث بن رہاہے ، تیل کی بندش کے لئے اور لوگوں کو بے روزگار دیکھنے کی خواہش اور تمنا لیے معروف ٹرانسپورٹرمحمد اقبال شاہ زی نے چیئرمین کسٹم سے ملاقات کرکے شکایت کی کہ کوچوں کے ذریعے ایرانی ڈیزل کا کاروبار ہو رہا ہیں اس کو بند کیا جائے ،اس کی شکایت کے بعد مختلف آفیسرز ٹرانسفر ہو گئے ،تیل کا کاروبار کرنے کے لئے کئی لو گوں نے اپنے بچوں کے زیورات، زمینیں فروخت کر کے گاڑیاں قسطوں پر لی ،تیل کی اسملنگ کو روکنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گاڑیوں کو روک کر تیل بھی ضبط کر لیا بلکہ گاڑیو ں کو تحویل میں لے لیا گیا ،سر عام کی ٹیم کی داد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے حق ملک کے اندر سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے قابل ستائش کوشش کی لیکن ایرانی ڈیزل کے پیسے ملک کے اندر دہشت گردتنظیموں کو مل رہے ہیں اس پر سر عام کی ٹیم کو چائیے دوبارہ اس حوالے سے پروگرام نشر کرے اور مکمل تحقیق کر کے بلوچستانی عوام کے ساتھ محبت کا ثبوت دے ،پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان کے حالات سے بخوبی واقف ہے کہ بلوچستان کے لوگ کن نازک مراحل سے گزررہے ہے اس صورت حال میں یہاں کے لوگوں کو معاشی دشواریوں سے گزارنا کسی امتحان سے کم نہ ہوگا ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ایرانی ڈیزل سے ملکی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے تو بلوچستان کے لوگوں کو متبادل روزگار فرائم کیا جائے تاکہ لوگ عزت سے اپنی زندگی گزار سکے کیونکہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔۔
 
Adam Qadir Buksh
About the Author: Adam Qadir Buksh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.