یو پی اے حکومت میں رہے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ’مون موہن‘ کے القاب سے
نوازنے والی اپوزیشن آج جب اقتدار میںآئی ہے توشاید اس نے بھی منموہن
سنگھ کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔منموہن سنگھ کو مکمل اکثریت نہیں
تھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ اقتدار میں تھے اس لئے شاید اتحادیوں کا لحاظ
کرتے ہوئے تمام مسائل پر بولنے کے بجائے خاموشی اختیار کرنا ان کی مجبوری
تھی لیکن فی الحال مودی حکومت تو مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے،انہیں
کسی بھی مسئلے پر اپنے اتحادیوں کا خوف بھی نہیں ہے اس کے باوجود اگر مودی’
مون مودی‘ بنے ہوئے ہیں تو اس سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ خاموشی حکومت
کی مجبور ی نہیں بلکہ پالیسی ہے ۔حکومت میںہر دن نت نئے تنازعات مودی سرکار
کی ترقی کے غبارے میں سوئی چبھو کر غبارے کی ہوا نکال رہے ہیں ۔بڑھتی
مہنگائی اور روز گارکی کمی ،اقتصادی بحران اور کسانوں کی خود بڑھتی خودکشی
نے مودی سرکار کی ترقی کے تمام دعوئوں کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے ۔اٹالی سے
لیکر رام پور منیہاران ،سہارنپور اور اب دیوبند میں بھڑکے فرقہ وارانہ
فسادات ،مہاراشٹر میں مدرسوں سے حکومت کی بے زاری جیسے مذہبی تعصب اور فرقہ
وارانہ بنیاد پر اٹھا ئے گئے قدم مودی حکومت کے ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس
‘کے نعرے کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔لیکن عوامی ریلیوں میں شیر کی طرح دہاڑنے
والے ،لچھے دار تقریروں کے ذریعہ عوام کی تالیوںکی گڑ گڑاہٹ پرواہ واہی
حاصل کرنے والے مودی آج ان تمام مسائل پر خاموش ہیں ۔مرکزی وزیر اسمرتی
ایرانی ،مرکزی وزیر سشما سوراج ،وسندھرا راجے اور پنکجا منڈے جیسے وزرا پر
جب ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے اورگڑ بڑیوں کے نئے نئے تنازعات سامنے آ رہے
ہیں پھر بھی مودی خاموش ہیں۔’نہ کھائیں گے او ر نہ کھانے دیں گے’ کی دعوے
داری کہاں چلی گئی؟ان تمام تنازعات پر اپوزیشن کے ذریعہ زبر دست تنقید کے
باوجود مودی نظریں چرا کر ’من کی بات ‘کر رہے ہیں اور ریڈیو میں اپنی
مقبولیت اور اپنی بگڑتی شبیہ کو سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
در اصل گزشتہ دنوں ملکی سیاست میں کچھ ایسے واقعات اتنی تیزی کے ساتھ رونما
ہوئے ہیں جس نے سب کو حیران کر دیا ہے ۔گزشتہ دو ہفتو ں کے اندر للت مودی
کا ہر بیان مودی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بنا رہا۔کبھی سشما سوراج کے
ذریعہ مودی کے شفاف حکومت کے دعوے کی ہوا نکال رہا ہے تو کبھی وسندھرا راجے
کے ساتھ اپنے تعلقات کا انکشاف کر کےحکومت کے خلاف اپوزیشن کے لئے راہ
ہموار کر ہا ہے ۔حالانکہ مودی تنازع نے درمیان میں گاندھی خاندان کو بھی
اپنی زد میں لے لیاہے جس پر کانگریس جو ابھی تک مودی سرکار پر حملہ آور
تھی بری طرح تلملائی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ داغ ہمیشہ دوسروں کے دامن پر
ہی اچھے لگتے ہیں اپنے دامن پر لگیں تو وہ برے ہو جاتے ہیں خصوصا سیاست میں
گندگی کے انبار اور کیچڑ کے ڈھیر میں بھی خود کو پاک صا ف ظاہر کرنے کی
روایت رہی ہے ۔ حکومت کی تشکیل کے گزشتہ ایک سال ملک اور بیرو ن ملک نریندر
مودی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ ہندوستان کی شبیہ اب تک ’اسکیم انڈیا
‘کی تھی جسے ہم نے ’اسکیم فری انڈیا‘میں بدل دیا اور اب تک سرکاری سطح پر
ہونے والی لوٹ مار اور چور بازاری پر قدغن لگا دیا ۔لیکن جس قدر سیاست میں
بے ایمانی اور بد عنوانی قدم قدم پر موجود ہے اسے دیکھتے ہوئے ہندوستانی
سیاست میں دو قدم بھی بغیر بد عنوانی کے آگے بڑھنا محال ہے ،اس سیاسی دلدل
میں ’نہ کھائیں گے اور نہ کھانے دیں گے ‘کا فارمولہ فیل ہے ۔شفاف حکومت اور
’اسکیم فری انڈیا‘ کا دعویٰ صرف تقریروں اور بیانوں میں اچھا لگتا ہے عملی
طور پر یہ تمام دعویداری ایک فریب او ر دھوکہ ہے ۔جس کی تازہ مثال مفرور
اور اقتصادی مجرم آئی پی ایل کے سابق کمشنر للت مودی کے وہ انکشافات ہیں
جو انہوں نے مرکزی وزرا سے لے کر اسٹیٹ منسٹر کے سلسلے میں کئے ہیں۔جس نے
ایوان سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا ہے ۔ایک ایسا تنازع کھڑا ہو گیا ہے جس
سے یا تو وزیر اعظم بولنے کے لائق نہیں رہے یا سب کچھ جانتے ہوئے حالات کی
نذاکت کو سمجھتے ہوئے خاموشی میں ہی اپنی عافیت تلاش کر رہے ہیں۔بات صرف
وزیر خارجہ سشما سوراج اور راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے تک کی محدود
نہیں ہے۔فرضی ڈگری کے معاملے میں جہاں اسمرتی ایرانی پہلے ہی حکومت کے لئے
سر درد بنی ہوئی تھیں وہیں مہاراشٹر کی ایک وزیر پنکجا منڈے پر بھی گھوٹالے
کی گھٹا چھائی ہوئی ہے ۔دوسری جانب مدھیہ پردیش میں ویاپم گھوٹالے میں ہو
رہی ہرروز اموات نے حکومت کیلئے چوطرفہ مصیبت کھڑی کر دی ہے ۔حالانکہ یہ
تمام تنازعات مودی حکومت کی تشکیل سے پہلے کے ہیں اور ان تمام واقعات میں
مودی کا براہ راست کوئی عمل دخل بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی آئین کے مطابق
وزیر اعظم کابینہ وزرا کے سر براہ کے طور پر تمام سر گرمیوں پر نظر رکھتا
ہے اور قیادت کرتا ہے اس لئے وزیر اعظم کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ
مشتبہ اور بد عنوان وزار کے خلاف کیا قدم اٹھانے جا رہے ہیںاس کے بارے میں
ملک کو آگاہ کریں ،وزیر اعظم کو ان تمام تنازعات پر خاموشی توڑنی
چاہئے۔لیکن وزیر اعظم ’مونی بابا‘بن کر صرف من کی بات کر رہے ہیں او ر
ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیںجووزیر اعظم کی نیت پر شک پیدا
کرتا ہے۔
مودی کی خاموشی صرف حکومت میں پیدا ہوئے تنازعات پر ہی نہیں ہے بلکہ ملک
میں خصوصاً شمالی ہند میں فرقہ وارانہ تشدد کے روز بروز ہونے والے واقعات
پربھی مودی مون ہیں۔لال قلعہ کی فصیل سے کم از کم دس سال تک فرقہ وارانہ
تشدد سے رک جانے کا مشورہ دینے والے آج فرقہ پرستوں سے نمٹنے میں نا کام
ہیں ۔اٹالی میں رمضان میں مسلمانوں کے گھر وں پر پھر سے شر پسندوں کا حملہ
اور ان کی در بدری پر ریاستی اور مرکزی حکومت دونوں خاموش تماشائی بنی ہوئی
ہیں ۔اتر پردیش میں یکے بعد دیگرے کشیدگی کے واقعات اور شرپسندوں کے ذریعہ
اقلیتی فرقہ کے گھروں پر پتھرائو اور فائرنگ کے واقعات کیا مودی کو نظر
نہیں آ رہے ہیں؟در اصل مودی حکومت کے آنے کے بعد شر پسندوں کے حوصلے مزید
بلند ہو گئے ہیں اور ان تشدد کے واقعات پر مودی کی خاموشی نے انہیں اجازت
نامہ فراہم کر رکھا ہے ۔یہی سبب ہے کہ یو پی اور اٹالی میں فرقہ پرست اپنی
حرکتوں سے باز نہیں آ رہے ہیں۔کچھ ماہ قبل جب کلیسائوں پر حملے ہو رہے تھے
تو عالمی دبائو بڑھنے پر مودی نے خاموشی توڑی اور تیور سخت کئے تو اب
کلیسائوں پرحملے بند ہو گئے ہیں،لیکن مسلمانوں پر ہونے والے فرقہ وارانہ
تشدد پر مودی کی خاموشی افسوسناک ہے ۔ یوں تو نریندر مودی اب تک مسلمانوں
کے کئی وفود سے ملاقات بھی کر چکے ہیں ،ان ملاقاتوںمیں یقین دلا چکے ہیں کہ
وہ ہر وقت مسلمانوں کی مدد کیلئے حاضر ہیں ،حتی کی آدھی رات کو پکاریں گے
تو انہیں مدد کیلئے تیار پائیں گے ۔لیکن مسلمانوں کے خلاف مسلسل اشتعال
انگیز بیانات جاری ہیں ،تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے
اور مودی آدھی رات کو مسلمانوں کے ذریعہ پکارے جانے کا انتظار کر رہے
ہیں۔اٹالی گائوں میں پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے ہو
رہے ہیں،تحفظ کی تمام یقین دہانیوں کے باوجود شر پسندوں کے حوصلے بلند ہیں۔
فی الحال بہتر یہی ہے کہ ان تمام معاملوں پرمودی اپنے من کی بات سے پورے
ملک کو آگاہ کریں۔’شفاف حکومت’اسکیم فری انڈیا‘سب کا ساتھ سب کا وکاس،اور
نہ کھائیں گے نہ کھانے دیں گے ‘جیسے دعوے جو پورا ملک گزشتہ سال بھر سے
سنتا آ رہا ہے اب ان تمام دعوئوں کو عملی جامہ پہنائیں ۔ورنہ یہ پبلک ہےسب
جانتی ہے ،صرف کچھ وقت کے لئے حکومت کے کارناموں سے آنکھیںضرور بند کر
لیتی ہے اورایک وقت گزرنے پر آنکھیں کھول بھی دیتی ہے ۔اس لئے صرف دھیرے
دھیرے من کی بات کر کے عوام کو زیادہ دنوں تک بہلایا نہیں جا سکتا۔اچھے
دنوں کے خواب اب ٹوٹ چکا ہے،سوچھ بھارت مہم بھی اب صرف کاغذوں تک سمٹ کر رہ
گئی ہے اور حقیقی طور پر دم توڑ چکی ہے ۔ شفاف حکومت کی دعویداری کی سشما
سوراج ،وسندھرا راجےاور اسمرتی ایرانی کے تنازعات پول کھول کر رکھ دیئے
ہیں۔ملک کی فضا اقلیتوں کے لئے زہر آلود ہوتی جا رہی ہے اس لئے ملک میں
امن و امان کی فضا سازگار بنانے کیلئے کچھ تو سہی آپ کو خاموشی توڑنی
ہوگی۔ کیونکہ ’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس ‘کے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے
سوچھ بھارت ابھیان،یوگا ڈے اور ڈیجیٹل انڈیا سے زیادہ ملک میں امن و امان
کی فضا اور قومی یکجہتی کا ماحول ضروری ہے ۔
|