دل میں کھوٹ ، زباں پر جھوٹ

۱۳ ستمبر ؁۲۰۱۳ کے دن گوا کے اندر بی جے پی نےوزارتِ عظمیٰ کیلئے نریندر مودی کو اپنا امیدوار بنایا اور ۱۵ ستمبر کو انہوں نے ہریانہ کے ریواڑی میں سابق فوجیوں سے اپنا پہلا خطاب کیا۔ اس تقریر میں مودی جی کہا تھا’’ اس سے بری بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے جن فوجیوں نے مادرِ وطن کی خاطر میدانِ جنگ میں اپنے ہاتھ ، پیر یا آنکھیں قربان کی ہیں ۔ انہیں ہسپتالوں اور ریلوے اسٹیشن پر بھیک مانگنا پڑے میں اس سے بدترین کسی چیز کا تصور نہیں کرسکتا۔ ہمارے سابق فوجیوں کو عزت و وقار سے جینے اور ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنے میں کون رُکاوٹ بن رہا ہے؟ ہم ایک عہدہ اور ایک پنشن کے بارے میں کئی سالوں سے سنتے آرہے ہیں۔ کیا مسئلہ ہے؟ آج میں فوج اور سابق فوجیوں کی جانب سے عوامی طور پر حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک عہدہ ایک پنشن اسکیم پر قرطاس ابیض شائع کیا جائے‘‘۔ مودی جی کی تقریر کا یہ اقتباس آج بھی ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

اس اعلان کو سننے کے بعد ریواڑی میں موجود سابق فوجی کس قدر پر امید ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔مودی جی نے یہ بھی کہا تھا کہ دوستو(ں)مجھے یقین ہے کہ اگر ؁۲۰۰۴ میں واجپائی جی حکومت سازی میں کامیاب ہوجاتے تو آج تک یہ مسئلہ نہیں الجھارہتا۔ لوگ سر جوڑ کر بیٹھتے اور اٹل جی اس مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے اور سبکدوش فوجیوں کوعزت و وقار کی زندگی سے نواز دیتے۔ اس تقریر کے بعد کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ اٹل جی۴ سالوں تک برسرِ اقتدار تھے۔ اس دوران ان کی دیش بھکتی کہاں سوئی رہی؟ انہوں نے اس عرصے میں یہ مسئلہ حل کیوں نہیں کیا؟ خیر ؁۲۰۰۴ میںجو ہوا سو ہوا لیکن ؁۲۰۱۴ میں تو خود مودی جی کی سرکار بن گئی اس کے بعد کیا ہوا؟ اب ان سابق فوجیوں کے عزت و وقار کی زندگی میں روڑا کونبنا ہوا ہے؟

مودی جی اپنے دیگر وعدوں کی طرح اس عہد کو بھی بھول گئے۔جب سبکدوش فوجیوں کے مطالبات سےکمبھکرنکینیندسونےوالیسرکارکےکانوںپرجوں نہیں رینگی تو مجبوراً انہیں عدالت ِ عالیہکا رخ کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ نے ۱۷ فروری ؁۲۰۱۵ کو یاددہانی کرائی اور مرکزی حکومت کو اپنا ۶ سال پرانا فیصلہ نافذ کرنےکا حکم دیا۔ اسی کے ساتھ خبردار کیا کہ اگر ۳ ماہ کے اندر یہ نفاذ نہیں ہوا تو وہ توہین عدالت کے مترادف ہوگا۔ عدالت کی اس پھٹکار کا بھی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا تو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مجبور ہو کرسبکدوش فوجیوں کودہلی میں دھرنا اور احتجاج کرنا پڑا۔ کیا اس سے بدترین کسی چیز کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ سابق فوجی ۳ ہفتوں سے احتجاج کررہے ہیں اور حکومت کو یوگا کا تماشہ کررہی ہے۔ وزیر خارجہ سشماکے دل میں للت مودی کیلئے ہمدردی کے جذبات تو امڈتے ہیں لیکن وزیراعظم کا دل اپنے سابق فوجیوں کیلئے نہیں دھڑکتا۔ منوہر پریکر دنیا کے واحد وزیر دفاع ہیں جو اپنے فوج کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ’’ چونکہ گزشتہ ۴۰ تا ۵۰ سالوں میں کوئی جنگ نہیں ہوئی اس لئےفوج کا احترام کم ہوا ہے‘‘۔اسے کہتے ہیں ناگپوریکمل چھاپ زعفرانی دیش بھکتی۔

جنتر منتر پر اور ملک کے کئی شہروں میں ۳ ہفتوں تک احتجاج کرنےکے بعد اب سابق فوجیوں کے متحدہ محاذ نے طے کیا ہے کہ وہ ارکان پارلیمان کے گھروں کے سامنے احتجاج کریں گے۔ اس کے علاوہ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے مثلاً بہاروہاں جاکر عوام کو مودی سرکارکے خلاف ووٹ دینے کی تلقین کی جائیگی۔ اگر یہ حربہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا تو بالآخر جنگ میں بیوہ ہونے والی خواتین اپنے خون سے صدر مملکت کو خط لکھیں گی اور اسے اپنی چوڑیوں کے ساتھ روانہ کریں گی۔ اس احتجاج کی خبر ذرائع ابلاغ عوام کو نہیں دیتا اس لئے اس کا اصول’ گاجر اور لگام ‘ہے۔ اگر فوجیوں کی انجمن کو کیجریوال کی طرح بین الاقوامی تنظیموں سے چندہ ملتا اور وہ اسے ذرائع ابلاغ کو بانٹتے تو یقیناً اس مظاہرےکی خبریں نشر ہوتیں ۔ یہ تو رہی گاجر والی بات لیکن یہاں تو حکومت نے بھی لگام کھینچ رکھی ہے کہ ہمارے خلاف احتجاج کو نشر کرکے ہمیں بدنام کرنے کی جرأت نہ کی جائے۔ ایسے میں کون احمق ایسا ہوگا جو ان سبکدوش فوجیوں کی ہمدردی میں حکومت کو ناراض کرکے اپنے پیٹ پر لات مارے۔

سابق فوجیوں کی یہ دکھ بھری کہانی بہت پرانی ہے۔؁۱۹۷۱میںبنگلہدیشکی لڑائی میں فوج نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی اس کا تحفہ یہدیاگیاکہ؁۱۹۷۳ کے اندر تیسرے پے(تنخواہ کے)کمیشن نےفوجیوں کی پنشن کو ۷۳ فیصد سے گھٹا کر ۵۰ فیصد کردیا گیااس کے برعکس دیگرسرکاری ملازمین کی پنشن کو ۳۰ فیصد سے بڑھا کر ۵۰ فیصد کردیا گیا۔ اس کے بعد ؁۱۹۸۳ میں کے پی سنگھ دیو کی قیادت والی پارلیمانی کمیٹی نے سب سے پہلے ’ایک عہدہ ایک پنشن ‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس لئے اسے سبکدوش فوجیوں کیلئےخیرات سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ دراصل فوج کے ساتھ بد عہدی کا طویل سلسلہ ہے جو ۴۰ سالوں پر محیط ہے۔ اس مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کروانے کیلئے ماضی میں سبکدوش فوجیوں نے کئی بار نہایت نظم و ضبط کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی بلکہ اپنے تمغہ تک لوٹائے لیکن اس کے باوجود انہیں فوجی سربراہ سے ملاقات تک کا موقع نہیں دیا گیا۔

فوج کے اپنے مسائل ہیں جن کا موازنہ دیگر ملازمتوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ فوج میں ترقی تیزی کے ساتھ نہیں ہوسکتی ۔ یہاں لوگ ۳۵ سال کے آس پاس سبکدوش ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے سامنے زندگی کا طویل سفر تو ہوتا ہے لیکن کوئی خاص بچت نہیں ہوتی۔ جوپہلے کسی عہدے پر سبکدوش ہوتے ہیں انہیں اپنی تنخواہ کے لحاظ سے پنشن ملتی ہے اور جو بعد میں وہی مدت گذار کر اسی عہدے پر سبکدوش ہوتے ہیں انہیں اپنی آخری تنخواہ کے حساب سے پنشن ملتی ہےلیکن نئی اور پرانی پنشن میں خاصہ فرق واقع ہوچکا ہوتا ہے ۔ سبکدوش ہونے والے نئے اور پرانے حضرات ایک ہی سماج میں گذر بسر کرتے ہیں جہاں ان کے مسائل بھی یکساں ہوتے ہیں اورمہنگائی کی مار بھی برابر پڑتی ہے اور اس کا براہِ راست اثر ان کے معیار حیات پر پڑتا ہے ۔
سبکدوشفوجیوںکامطالبہنہایتسہلہےکہکسیایکعہدےپریکساںمدتخدمتانجامدینےوالےکواسکےریٹائرمنٹکیتاریخسےقطعنظریکساںپنشنملنیچاہئے۔یہ آسان سی بات ہرکسی کی سمجھ میں آسکتی ہے لیکن وزیراعظم اس کو سمجھنا نہیں چاہتے اس لئے انہوں نے ’’ من کی بات ‘‘میں کہا کہ یہ نہایت پیچیدہ معاملہ ہے اس لئے کہ اس کئی تعریفیں ہیں ۔ مسئلہ پیچیدگی کا نہیں نیت کا ہے ۔ سابق وزیر دفاع کے زیر نگرانی فروری ؁۲۰۱۴ میں پارلیمانی کمیٹی ایک تعریف پر اتفاق رائے کرچکی ہےجسے فوجی تسلیم کرتے ہیں۔ اب مودی جی کو نئی تعریف وضع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ انہیں تو بس اسے نافذ کرنا ہے لیکن جب من میں کھوٹ ہو تو بھلا زبان پر پر سچ کیسے آسکتا ہے؟

اس معاملے کڑوا سچ یہ ہے کہ فوجی جرنیلوں کے ساتھ مل کر وزارت دفاع نے جو تجویز مرتب کی تھی اسے وزارتِ خزانہ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وہ اس کام کیلئے سالانہ ۸۴۰۰ کروڈ کا انتظام نہیں کرسکتی۔ انتخاب سے قبل جب راہل گاندھی نے اس معاملے کو حل کرنے کیلئے پہل کی تھی تو اس کیلئے بجٹ میں ۵۰۰ کروڈ رکھے گئے ۔ اس کے بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر اس رقم کو دوگنا یعنی ۱۰۰۰کروڈکردیا لیکن یہ رقم بھی ناکافی ہے۔ بظاہر یہ بہت بڑی رقم لگتی ہے لیکن اس سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پنشن کیلئے جو ۸۸۵۲۱ کروڈ روپئے مختص کئے گئے ہیں اس کے مقابلے۱۰ فیصد سے بھی کم ہے۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی حکومت کے خزانے میں تنگی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یوگی اویدیہ ناتھ کی سربراہی میں قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی نے سابق ارکان پارلیمان کے پنشن میں ۷۵ فیصد کے اضافہ کا مطالبہ کیوں کیا ؟ اس فضول خرچی کیلئے روپیہ کہاں سے آئیگا؟ سابق ارکان پارلیمان کے علاوہ حالیہ ارکان کی تنخواہوں میں ۱۰۰ فیصد اضافے کی تجویز بھی ہے۔کیا یہ شرمناک صورتحال نہیں ہے کہعام آدمی تو تمام ترمحنت ومشقت کے باوجود ۱۰ فیصد تنخواہ کی بڑھوتری سے بھی محروم رہ جاتاہے جبکہ ان کے نمائندے ۱۰۰فیصد اضافہ چاہتے ہیں۔ فی الحال ارکان پارلیمان کوبغیر کسی محنت کے ۵۰ ہزار روپئے ماہانہ ملتے ہیں۔ اس کے باوجودیہ ارکان خود کو حاصل طبی سہولیات سے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پوتوں اور نواسیوں تککو مستفید کروانا چاہتے ہیں۔

یہ عوامی نمائندے سرکاری خرچ پر پارلیمان کے اجلاس میں حاضری دینے کیلئے دہلیتشریف لاتے ہیں۔ کرایہ کے علاوہ راستے میں جیب خرچ کیلئے انہیں سیکنڈ اے سی کے کرایہ جتنا بھتہ ملتا ہے جسے وہ بڑھا کرفرسٹ اے سی کے برابر کروانا چاہتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے اگر ایک رکن پارلیمان ناگپور سے دہلی کا سفر کرے تو کیا وہ ۱۸ گھنٹے میں ۳۰۰۰ روپیوں کا کھانا کھائے گا ۔ یہ رقم تو پیچھے سیکنڈ کلاس میں لگی بوگی کے سارے مسافروں کا پیٹ بھرنے کیلئے کافی ہے لیکن جب ساری رقم عوام کے نمائندے کھاجائیں تو بیچاری جنتا فاقہ کشی کا شکار نہ ہو تو اور کیا ہو؟حد تو یہ ہے ان ارکان پارلیمان(مثلاً ہیما مالنی) کی تیز رفتار گاڑی اگر کسی عام آدمی کی گاڑی سے ٹکرا جائے تومظلوم کی دم توڑتی بچی کو رکن پارلیمان کے ساتھ لے جاکر اس کا خاطر خواہ علاج تک نہیں کیا جاتا۔

دہلی آنے کے بعدارکانِ پارلیمان محل نما سرکاری مکان یا فائیو اسٹار ہوٹل میں عیش کرتے ہیں۔ ایوان کی کینٹین میں سستا کھانا کھاکر شور ہنگامہ کرتے ہیں ۔لیکن اس احسانِ عظیم کے عوض انہیں الگ سے ۲۰۰۰ روپیہ یومیہ مل جاتے ہیں ۔ یوگی جی اس میں بھی خاطر خواہ اضافہ کے طلبگار ہیں۔ کمیٹی کے مطابق مہمانوں کو چائے پلانے پر روزآنہ ۱۰۰۰ روپیہ خرچ ہو جاتا ہے۔ ویسےسیاسی رہنماوں کو عوام کی مفت چائے پیتے تو ہر کسی نے دیکھا ہوگا لیکن کیا کسی نے سیاستداں کو اپنی جیب عوام کو چائے پلاتے دیکھا ہے؟ ممکن ہے جو رشوت دینے والے سرمایہ دار ان سے ملنے آتے ہوں ان کی اس طرح خاطر مدارات کی جاتی ہو؟لیکن اگر رشوت کی رقم سے چند روپئے گاہک کی خدمت میں صرف بھی ہو جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اپنی جیب سے خرچ کرنے کی عادت ہی چھوٹ گئی ہے وہ صرف اور صرف سرکاری خزانے پر جینا اور مرناجانتے ہیں ۔

ارکان پارلیمان کو اپنے مستقبل کا کس قدر خیال ہے اس کااندازہ اس سرکاری فیصلے سے کیا جاسکتا ہے جس میں حکومت نے ان اربابِ اقتدار کی خاطر۱۰۰ نئے عالیشان مکان تعمیر کرنے کا فیصلہ کیاہے۔یہ مکان ؁۲۰۱۹ کے انتخابات سے قبل تیار ہوجائیں گے ۔ گزشتہ انتخاب کے بعد جن ارکان پارلیمان کو ہوٹلوں میں ٹھہرانا پڑاتھا اس پر حکومت نے ۳۵ کروڈ روپئے خرچ کئے۔ ارکان پارلیمان کیلئے گنگا کے ساتھ ساتھ جمنا، سرسوتی، پرہمپترا اور کاویری وغیرہ کے نام پر رہائش گاہیں تو تعمیر ہورہی ہیں لیکن حکومت کے ذریعہ گنگا کی صفائی کیلئے جو ۲۰ ہزار کروڈ ؁۲۰۱۵ اور ؁۲۰۱۶ کے بجٹ میں رکھے گئے ہیں اس پر پہلے تین ماہ میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ دراصل گنگا کا پانی عوام پیتے ہیں اس لئے اس پر سرکارکی مختص شدہ رقم بھی خرچ نہیں ہوتی ارکان پارلیمان تو ’’منرل واٹر ‘‘پیتے ہیں سرکار ی خزانہ اس پر پانی کی طرح پیسہ بہاتا ہے ۔

سنا ہےوزیراعظم نریندرمودی امریکی صدر براک اوبامہ کے اچھے دوست ہیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ کم از کم اپنے دوست اوبامہ کی اس ہدایت پر عملدرآمد کریں جس میں انہوں سابق فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جب آپ لوگ وردی اتاردیں گے( یعنی سبکدوش ہوجائیں) تب بھی ہم آپ کی اسی طرح خدمت کریں گے جس طرح آپ نے ہماری (قوم) کی خدمت کی ہے۔ اس لئے کہ جو قوم کیلئے لڑتا ہے اسے ملازمت کیلئے، اپنے سر پر چھت کیلئے یا گھر آنے پر درکار دیگر سہولیات کیلئے لڑنے کی نوبت نہیں آنی چاہیے‘‘۔ اگر اوبامہ کی اس نصیحت پر توجہ نہ دی گئی تو خدانخواستہ ہمارے یہاں بھی امریکہ کی ؁۱۹۳۰ والی صورتحال رونما ہوجائے گی جب کہ پہلی جنگ عظیم کے بعدسبکدوش فوجیوں نے اپنے بقایا جات کے حصول کی خاطر ایوان صدر کا محاصرہ کرلیا تھا اور صدر نے ان پر گولی چلانے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ کسی بھی امریکی صدر کا بدترین فیصلہ شمار کیا جاتا ہے۔

مودی جیکے اس رویئے میں عام لوگوں کیلئے یہ پیغام ہے کہ وہ حقیقت پسند بنیں اور اپنی توقعات درست کرلیں ۔ جو شخص سابق فوجیوں سے کئے گئے اپنے اولین وعدے سے مکر سکتا ہے وہ بھلا دیگر وعدوں کاپاس و لحاظ کیونکر کرسکتا ہے۔ ویسے مودی جی کویاد رکھنا چاہئے کہ اپنے ریواڑی میں کئے گئے عہد سے پھر کر وہ ۲۵ لاکھ سابق فوجیوں اور تین لاکھ بیواؤں کے جذبات سے کھلواڑکر رہے ہیںاور عدالت عالیہ کی توہین بھی ان سے سرزد ہورہی ہے۔ ہندوستانی فوج ’نام ، نمک اور نشان‘ کیلئے جیتی اورمرتی ہے لیکن افسوس کہ اسےاپنے جائز حقوق کے حصول کی خاطرنام و نمود کے بھوکے نمک حرام سیاستدانوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہجو قوم اپنے فوجیوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک کرتی ہے کال چکر انہیں بے نام و نشان کردیتا ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450422 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.