عرب ممالک کا دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ

رمضان المبارک میں مسلمان اپنے مالک حقیقی کو راضی کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو انکے دشمن اپنی چالبازیاں اور منصوبہ بند سازشوں کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام اور انکی املاک کی تباہی کے لئے عملی اقدامات کرتے ہوئے مساجد و دیگر مقامات پر فائرنگ، خودکش حملے کررہے ہیں۔ افغانستان، عراق، کویت، تیونس، نائجریا، مصر، شام ، یمن میں ماہ صیام میں جس قدر ممکن ہوسکا دشمنان اسلام اور نام نہاد جہادی تنظیموں نے عبادتگاہوں کے تقدس کو تک پامال کردیا اور اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے والے بندوں کو نشانہ بناکر انہیں شہید کررہے ہیں ش۔ کویت کے شیعہ سنی مسلمانوں نے کویت کی شیعہ مسجد میں حملہ کے بعد ملک بھر میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ساتھ sدوسرے جمعہ کی نماز ادا کی اور ایک دوسرے سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں شیعہ سنیوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی بنائے رکھنے اور دشمنوں کے ناپاک عزائم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ اگر عالم اسلام میں بھی کویت کے مسلمانوں کی طرح تمام عام شہری سنی و شیعہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف اتحاد کا ثبوت دیں تو ہوسکتا ہے کہ نام نہاد جہادی تنظیمیں جو مسالک کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں تو شام میں النصرہ اور داعش کے درمیان اختلافات شدید ہوچکے ہیں جبکہ نائجریا کی ایک مسجد میں جس وقت وہاں کے امام ماہ صیام کی فضیلت پر تقریر کررہے تھے اس موقع پر اس مسجد پر حملہ کرتے ہوئے ابتداء میں فائرنگ کی گئی اور پھر ایک زور دار دھماکہ کیا گیا جس میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ کہا جارہا ہے جس مسجد پر حملہ کیا گیا اور جو امام صاحب خطاب کررہے تھے وہ نائجریا کی شدت پسند دہشت گرد تنظیم بوکو حرام کے خلاف تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کارروائی بوکو حرام نے کی ہو۔ جبکہ گذشتہ کئی روز سے مشرقی نائجریا میں چرچوں پر بھی حملے کئے جارہے ہیں جس کی ذمہ داری بوکو حرام نے قبول کی ہے ۔ عالمی سطح پر ان حملوں کی مذمت کی گئی ویسے یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ دہشت گردی کے بعد ظالموں کے خلاف مذمتی بیانات جاری کئے جاتے ہیں لیکن عالمی طاقتوں اور عرب و عالم اسلام کے حکمرانوں کو صرف مذمتی بیانات دینے کے بجائے دہشت گردی کے سدّباب کے لئے متحدہ حکمتِ عملی بنانی ہوگی۔ اگر دہشت گردی کو دہشت گردی کے ذریعہ ہی ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا گیا تو اس میں انہیں ناکامی ہوگی جس کا مشاہدہ عالمی طاقتیں گذشتہ کئی برس سے کررہے ہیں۔ عراق، افغانستان، شام، پاکستان وغیرہ میں امریکہ اور نیٹو فورسس نے خطرناک حملوں کے ذریعہ ان ممالک کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور کررہے ہیں اور انکی املاک کو جس قدر ممکن ہوسکتا تھا تباہ و تاراج کیا گیا ، اسلامی تاریخ کو ملیامیٹ کردیا گیا، عراق کے ایک مشہور و معروف کتب خانہ کو جلاکر خاکستر کردیا گیا جہاں صدیوں پرانی اسلامی تاریخ کا صفایا ہوگیا۔ دشمنانِ اسلام نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل مسلمانوں میں تفرقہ ڈال کر اس طرح انجام دی کہ ایک طرف چند حکمرانوں کو دوسرے حکمرانوں کے خلاف اکسایا اور بعض حکمرانوں پر الزام عائد کرکے اس طرح بدنام کرنے کی کوشش کی کہ عام شہری انکے ناپاک عزائم کو حقیقت پر مبنی سمجھنے لگے۔ گذشتہ تین چار سال کے دوران شام میں جو خانہ جنگی جاری ہے اس میں کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد بشمول خواتین و بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ لاکھوں افراد پناہ گزیں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انہیں روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیاء تک میسر نہیں ہورہی ہیں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پناہ گزیں کیمپوں میں عالمی سطح پر امداد مہیا نہیں کی گئی تو ستقبل قریب میں کئی جانیں تلف ہونے کا خطرہ ہے۔ پناہ گزین کیمپوں میں جو لاکھوں بچے ہیں انکی تعلیم و تربیت کا مسئلہ بھی سنگین نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے اگر ان بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہہ نہیں دی گئی تو یہی بچے بڑے ہوکر بین الاقوامی سطح پرخطرہ بن سکتے ہیں۔عرب ممالک کی جانب سے قاہرہ عرب لیگ کے دفتر میں ایک ایمرجنسی میٹنگ طلب کی گئی ہے جس میں تمام عرب ممالک دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے وضع کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس میٹنگ میں فیصلہ کیاگیا کہ عوامی سطح پر بھی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ جس طرح ممکن ہو کیا جائے۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ جس طرح دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ان ممالک (عراق، افغانستان، پاکستان، شام، لیبیا وغیرہ پرشدیدفضائی حملے کئے اور لاکھوں افراد کو بے گھر کرکے چھوڑ دیا انکی بازآبادی کاری کے لئے اقدامات کریں۔ عالمی سطح پر اگر کسی مقام پر حملہ ہوتا ہے اور اس میں غیر مسلم کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو اس حملے کو مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے یا کوئی غیر مسلم اس حملہ میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اتنی شدید مذمت دیکھنے میں نہیں آتی جتنی کہ مسلم شدت پسندوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کے خلاف دکھائی دیتی ہے۔ ہم کسی شدت پسندوں کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کی تائید و حمایت نہیں کرتے بلکہ اس کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں لیکن امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کی جو پالیسی مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے درمیان ہے اس میں بھی بدلاؤ ہونا چاہیے اور مسلمانوں کو ہمیشہ دہشت گرد بتانے کے بجائے غیر مسلم ظالموں کی درندگی کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔غزہ کے بے قصور مسلمانوں پر جس طرح گذشتہ سال اسرائیل نے ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑے اسکا عالمی طاقتیں صرف مذمتی بیانات دے کر خاموشی اختیار کرلئے جبکہ اسرائیل کے خلاف سخت جوابی کاررائی کی جانی چاہیے تھی۔ اب ایران پر سے پابندیاں ہٹائے جانے کے امکان کو لے کر اسرائیل عالمی طاقتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے ۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران مسالک کی بنیاد پر لڑائیاں جاری ہیں جس میں ایک طرف سعودی عرب اور دیگر عرب و اسلامی ممالک پر الزام ہیکہ وہ شدت پسند نام نہادجہادی تنظیموں کی امداد کررہے ہیں تو دوسری جانب ایران پر بھی الزام ہیکہ وہ یمن، بحرین، شام، عراق وغیرہ میں شیعہ ملیشاء کو تقویت پہنچانے میں نمایاں رول ادا کررہا ہے۔

ایران پر پابندیاں ہٹائی گئیں تو؟
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا ہیکہ ایرانی قوم کے دشمن پابندیوں کے ذریعے اسے اس کے شایان شان تہذیبی مقام تک پہنچنے سے روکنا چاہتے ہیں-ایران بھر کی یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور اسکالرز نے ہفتے کی شام رہبر انقلاب اسلامی آیت اﷲ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی- رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پرکہا کہ دشمنوں نے ایٹمی معاملے یا انسانی حقوق اور دہشت گردی جیسے مسائل کی بنا پر ایران پر پابندیاں عائد نہیں کی ہیں کیونکہ خود انہوں نے ہی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مراکز قائم کر رکھے ہیں-ایران پابندیوں کے باوجود جس طرح عالمی سطح پر ایک مقام بنایا ہوا ہے اس کے لئے اسرائیل پریشان ہیکہ اگر ایران پر سے پابندی اٹھائی جاتی ہیں تو وہ مزید طاقتور بن کر اسکے خلاف کارروائی کرسکتاہے اور اسی ڈرکی وجہ سے وہ آئیے دن عالمی طاقتوں پر دباؤ ڈالکر ایران پر عائد پابندیوں کو برخواست نہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران پر سے پابندیاں ہٹائی گئیں تو اس کے اثرات دیگر عرب ممالک پر بھی مرتب ہونگے یعنی شیعہ ملیشیاء مزید طاقتور ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے مسالک کی بنیاد پر جو لڑائیاں ہورہی ہیں اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

حوثی باغیوں اور سعودی عرب کے درمیان بگڑتے حالات
یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی درخواست پر مارچ سے جاری سعودی قیادت میں عرب ممالک کے حملے سعودی عرب کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ماہِ رمضان المبارک میں بھی یمن پر سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں کے تازہ ترین حملوں میں متعدد شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں- یمنی ذرائع کے مطابق ہفتے کی شام کو سعودی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے یمن کے شمال مغربی صوبے حجہ کے ایک بازار پر بم برسائے جس کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور زخمی ہو گئے- سعودی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے اسی طرح صوبہ صعدہ کے شمالی علاقے میں ایک اسکول کو بھی نشانہ بنایا جس میں ہونے والے ممکنہ جانی نقصان کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہے- در ایں اثنا اعلان کیا گیا ہے کہ ہفتے کی شام کو شہر ذمار میں یمنی فوج نے طیارہ شکن توپوں کے ذریعے سعودی عرب کے ایک ڈرون طیارے کو مار گرایا ہے- حوثی قبائل کا دعوی ہیکہ اب تک انہوں نے سعودی عرب کے متعدد لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو مار گرایا ہے- حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کے سرحدی شہروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے جواب میں سعودی فوج سخت کارروائی کررہی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے لئے سعودی عرب اپنے معصوم شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہا ہے۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.