کراچی کئی عشروں سے لاقانونیت کی
مثال بنا ہوا ہے ۔ کراچی میں بد امنی کے ذمے داروں کے حوالے سے کسی ایک
فریق کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں معلوم ہوتا کیونکہ شہر پر قبضے کی
جنگ میں ہر اسٹیک ہولڈر کسی نہ کسی طور ملوث رہا ہے۔کراچی ملک کا معاشی حب
و شہہ رگ ہے اس لئے اس کے وسائل پر کسی کی بھی رال ٹپکنا کوئی اچھنبے کی
بات نہیں ہے۔حقوق کے نام پر ہر سیاسی ، مذہبی جماعت سے لیکر سول سوسائٹی
اور این جی اوز نے کراچی کو دل کھول کر لُوٹا ہے اور اس کیلئے ہر وہ حربہ
استعمال کیا ہے جو ایسے بخوبی آتا تھا ۔ چند لاکھ نفوس کا ساحلی شہر ، یہاں
کے رہنے والے پر امن کاروباری اور محنت کش عوام جب مختلف قومیتوں کے
آجامگاہ بنتی چلی گئی اور اس شہر نے سونے کی چڑیا کی حیثیت اختیار کرلی تو
اس پر سونے کی چڑٰیا پر لسانیت ، قومیت، فرقہ واریت کے نام پر سیاست کرنے
والے عفریتوں نے ڈیرا ڈالنا شروع کردیا۔ لسانیت کے نام اقوام کو لڑیا تو
پھر قومیت کے نام پر خون کی ندیاں بہا دیں گئیں ، شدت پسندی کو عروج دینے
کے لئے مذہب کے نام پر فرقہ واریت کو عروج دے دیا گیا ۔ اب اس کو ملک دشمن
عناصر کی چال کہیں یا پھر موساد ، الذولفقار،تھنڈر اسکوڈ،را ، گینگ وار ،
کالعدم جماعتیں ، یا تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ۔کراچی کو جس نے چاہا
تختہ مشق بنایا ، کسی نے بھی اس پر رحم نہیں کیا ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ
قصور وار اگر کسی کو گردانا جائے تو وہ خودکراچی کی عوام ہیں ۔ لاکھوں سے
کروڑوں کی تعداد میں تبدیل ہوگئے ۔ لیکن یہ بھیٹروں کا ریوڑ ، صر ف چند
افراد کے ہاتھوں ہرغمال بن کر اربوں روپے بھتے کی صورت میں دیتا گیا ۔کراچی
کے یہ کروڑوں باسی ، ایک ووٹ حق کے مطابق کے دینے کے بجائے یہ سوچے سمجھے
بغیر کہ درست ووٹ کا حقدار ہے یا نہیں خود پر جابر حکمران مسلط کرتے چلے
گئے۔کنگ میکرز بننے کی خواہش ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کی پہلی دلی آرزو
بنتی چلی گئی ۔ کبھی اردو بولنے والوں کو سندھیوں سے لڑادیا تو کبھی
پختونوں کی گردنیں تن سے جدا ہونے لگیں تو کبھی بلوچوں کے جسم جلا کر اس سے
فٹ بال کھیلے جانے لگے ۔ ایسا کونسا سا ستم ہے کہ کراچی کی عوام نے اپنی
آنکھوں سے نہ دیکھا ہو،ایسا کون سا ظلم ہے جس کا وہ شکار نہ ہوا ہو ۔ ڈر و
خوف کی اس فضا میں اپنا شناختی کارڈ بھی جیب میں رکھتے ہوئے ڈر لگتا کہ
مخالفین کہیں دیکھ نہ لیں کہ کٹی پہاڑی کا تو نہیں ، کہیں عزیز آباد کا تو
نہیں ، کہیں لیاری کا تو نہیں ۔کون سی زبان بولتے ہو ، کہاں سے آئے ہو ،
کیوں آئے تو ، واپس جا ؤ، جہاں سے جو جہاں آیا ہے واپس چلا جائے ۔ ایک
طوفان ہے کہ کراچی میں جاگزیں ہوا ۔ روشنیوں کا شہر ، خون کے سرخ رنگ سے
نہانے لگا ۔کوئی موچی ، کوئی کچے چننے والا ، کوئی گولہ گنڈے بیچنے والا ،
کوئی ٹیکسی چلانے والا ، کوئی رکشہ چلانے ولا ، کوئی گارمنٹ کی فیکڑی میں
کام کرنے والا ، کوئی محنت کش ، کوئی گدھا گاڑی ، اونٹ بانی کرنے والا ،کون
سا ایسا غریب نہیں کہ کراچی میں ڈر و خوف کے سائے میں زندگی نہیں بسر کر
رہا ۔ آج اگر کراچی میں امن کا وقفہ ہے تو کب تک ہے کچھ علم نہیں ۔ حکومت
کیا کر رہی ہے سب کو نظر آتا ہے۔ کوئی پھبکی کستا ہے کہ وزریر اعلی بوڑھا
ہوچکا ہے ایسے فریج میں رکھ دیا جائے ، کسی نے کہا کہ طوق غلامی ڈال کر
ساتھ نہیں دے سکتے ، تو بچارے وزیر اعلی اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہیں کہ میں
نے فون کی تمام باتیں بتا دوں تو اور گالیاں پڑیں گی۔وزیر اعلی کو ہٹانے
کیلئے کئی بار خبریں چلیں اور چل کر ختم ہوگئیں ، نواز شریف پھر 1992ء کا
عزم لیکر آئے اور کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے نام پر ایک آپریشن شروع
کردیا ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی منظوری دی اور پھر آپریشن کا پہلا
مرحلہ اسٹارٹ ہوگیا ، سب نے واہ واہ کی ، کسی نے نہیں پوچھا کہ بے گناہ
گرفتار ہوا کہ گناہ گار گرفتار ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں ملزمان دھر لئے
گئے ، کراچی کی جیلیں بھر گئیں۔تنازعہ اٹھا کہ آپریشن کرنے والوں نے دس
ہزار سے زاید افراد گرفتار کئے تھے جیل میں آدھے کیوں ہیں ۔ باقی کہاں گئے
کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔ کچھ پتہ نہ چلا ، دوسرا مرحلہ شروع ہوا ۔کچھ سیاسی
و مذہبی جماعتوں کو تھوڑی پریشانی ہوئی لیکن بیانات دیئے کہ کڑوے گھونٹ پی
رہے ہیں ۔کراچی میں امن کے خاطر پہلے ہمارے گھر سے آپریشن کیا جائے تو بھی
ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔تیسرا مرحلہ شروع ہوا تو جیسے سیاسی جماعتوں میں
ایک بھونچال سا آگیا ۔ براہ راست الزامات لگنے شروع ہوئے اور آپریشن کو
متنازعہ سمجھا جانے لگا ، نگران کمیٹی نہ بننی تھی اور نہ بنی ۔چوتھا مرحلہ
نقطہ عروج تھا جس نے آپریشن کو مکمل سیاسی قرار دے دیا ۔ مینڈیٹ کی باتیں
کی جانے لگیں ، اختیارات سمجھائے جانے لگے،حدود میں رہنے کو کہا جانے لگا
۔لیکن کئی عشروں سے کراچی میں رہنے والی رینجرز جیسے ہر چار ماہ بعد انجکشن
لگا کر کراچی میں امن کی بحالی کا مینڈیٹ دیا جاتا تھا ۔اس بار عملی میدان
میں کچھ اس طرح اتری کہ آپریشن کے کپتان بھی پریشان ہوگئے۔ کبھی رینجرز کو
پانی کی بحالی و تقسیم کا مینڈیٹ دے دیا کہ ہائی ڈرینٹس کے خلاف کاروائی
کرو ۔ کبھی وی آئی پیز کی سیکورٹی کا مینڈیٹ دے دیا ۔ مینڈیٹ کے نام پر
رینجرز سے ہر کام لئے جانے لگا ۔ جو اس کے شایان شان بھی نہ تھا ۔ واٹر
بورڈ کی موجودگی کے باوجود رینجرز ، پاکستانی فوج کا ذیلی ادارہ پانی کے
ٹینکرز سپلائی کرنے لگا ۔کے الیکڑک جیسے سفید ہاتھی کی موجودگی کے باوجود
عوام کو بجلی فراہمی کیلئے رینجرز کو آگے آنا پڑا۔ میاں بیوی کے جھگڑے ہوں
یا خاندانی تنازعات رینجرز صبح شام ناظم بن کر ان کے عائلی مسائل کو بھی
نپٹانے لگی۔ تو دوسری جانب جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے ان پر خود کش حملے
، فائرنگ اور ہیڈ کواٹرز پر حملے آئے روز کا معمول بنتے چلے گئے۔لسٹیں الگ
جاری ہونے لگیں کہ ماورائے عدالت قتل کئے گئے ، لیاری نے اپنی فہرست تو
عزیز آباد نے اپنی فہرست جاری کی ۔
پولیس کہاں گئی ، اس کے اختیارات کہاں گئے اس کی تنظیم نو پر توجہ کیوں
نہیں دی گئی ۔ پولیس کو سیاسی عناصر سے پاک کیوں نہیں کیا گیا ، سرحدوں کی
محافظ رینجرز کو کالجوں ، میدانوں میں ڈیرے ڈالنے پر کئی عشروں سے مجبور
کیا گیا۔ رینجرز کے لئے اربوں روپے کے بجٹ مختص کئے جاتے رہے ۔ سب کچھ ٹھیک
ٹھاک تھا لیکن جب بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اختیارات
اور مینڈیٹ کی گردان شروع ہوگئی۔ جرائم پیشہ عناصر کے کوئی تو مائی باپ ہے
نہ ، جن کی سر پرستی میں یہ پنپتے ہیں۔سیاسی جماعت کا جھنڈا اٹھا کر بے
گناہ عوام کے سینے میں اتار دیتے ہیں۔کرپشن کی تاریخ رقم کرنے والوں پر
ہاتھ ڈالا گیا تو سب کچھ بدل گیا ۔ اچھا بُرا ہوگیا، بُرا اچھا ہوگیا
۔جمہوریت کا فرسودہ نعرہ یک جہتی پھر بلند ہوا۔ اور تمام مفاد پرست محمود
ایاز بن کر ایک صف میں کھڑے ہوگئے۔رینجرز کو کرائے کی فورس سمجھا جانے
لگا۔سیاسی بنیادوں پر خواہشات پوری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس وقت
تو کسی نے رینجرز کی واپسی کی بات نہیں کی جب ہزاروں پختونوں اور بلوچوں کو
گھروں سے باہر نکال کر میدانوں میں اوندھا باندھ کر ان میں جرائم پیشہ
افراد تلاش کئے جاتے تھے۔ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کے نام پر ٹارگٹڈ آپریشن
کے نام پر پوری کی پوری آبادی کا محاصرہ کرکے گھروں کی کئی کئی روز تلاشی
لی جاتی تھی۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے اس وقت رینجرز کی واپسی کی بات کیوں
نہیں کی گئی۔جب کراچی میں غریبوں کا خون بہا یا جاتا ، مسجدیں دہماکوں سے
گونجتی ، سرکاری پلاٹوں پر قبضے کرلئے جاتے ، قیمتی زمینوں پر بلدیہ ٹاؤں
کی ابتدا سے ڈیفنس تک چاینا کٹنگ کے نام کھربوں روپے عوام سے لوٹے جانے
لگے۔بھتے کے نام پر کھربوں روپے تاجروں سے چندہ لئے جانے لگا ، ہائی ڈرینٹ
کے نام پر کراچی کا پانی ، کراچی کے باسیوں پر کئی ہزار گنا مہنگا فروخت
کئے جانے لگا تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ آج اگر کئی عشروں بعد
رینجرز، عسکری قیادت کے بدولت کچھ با اختیار ہوئی ہے تو اپنے صبر کے پیمانے
کو لبریز نہ ہونے دیں ۔ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے پر اسی کو تکلیف ہوتی ہے
جس کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے۔
کراچی میں رینجرز کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن پہلے کراچی پولیس میں تطہیر کا
عمل تو کریں ، ان میں اتنی استعداد کار تو پیدا کریں کہ وہ جرائم پیشہ
عناصر کے خلاف رینجرز سے بڑھ کر کاروائی کرسکے۔انھیں بے گناہوں کو گرفتار
کرکے رشوت لینے اور گناہ گاروں کو رشوت لیکر چھوڑنے کی تربیت تو دیں۔پڑھے
لکھے نوجوان آنا چاہتے ہیں فورس جوائن کرنا چاہتے ہیں ، کیمونٹی پولیس بنا
کر علاقے میں غیر سیاسی پولیس تو پہلے بنائیں۔جرائم پیشہ عناصر کے خلاف
مخلص پولیس افسران کو آگے لائیں ، انھیں اختیارات دیں۔رینجرز ایک سیکنڈ
کیلئے بھی کراچی میں نہیں روکے گی اگر حکومت پولیس کو حقیقی معنوں میں
پولیس بنانے کیلئے حب الوطنی کا مظاہرہ کرے۔ |