صوبے بھر میں نرسنگ کے امتحانات لینے اور
امیدواروں کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ کرنے والا ادارہ سندھ نرسنگ
ایگزامینیشن بورڈ ان دنوں شدید بحرانوں کی ضد میں ہے، جس کا تازہ ترین ثبوت
بورڈ کی کنٹرولر محبوبہ سلطانہ کی عہدے سے برطرفی اور انہیں افسر بکار
خاص(او ایس ڈی)بنایا جانا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اگرچہ انہوں نے
تاحال اپنا چارج نہیں چھوڑا لیکن محکمانہ حکم جاری ہو چکا ہے۔ اس بحران نے
یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ مذکورہ افسر پر لگائے جانے والے الزامات کی نوعیت
اتنی سنگین تھی کہ وزارت صحت کو تمام تر روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
ایسے افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینی پڑی جو اصولاً اس معاملے کی چھان بین
کے اہل ہی نہیں ہیں۔ انکوائری کمیٹی میں شامل کئے جانے والے ایڈیشنل
سیکرٹری خالد شیخ اور سیدین رضا عابدی محکمہ صحت کے افسران تو ہیں لیکن
بورڈ ممبر نہ ہونے کے ناطے وہ اندرون خانہ معاملات سے بالکل لا علم نہیں تو
اتنی آگاہی بھی نہیں رکھتے جو کسی معاملے کی چھان بین کے لئے درکار ہوتی
ہے۔اصلاً انہیں ایگزامینیشن بورڈ کے ممبر نہ ہونے کے ناطے اس کمیٹی کا رکن
نہیں بنایا جانا چاہئے تھا کہ تفتیش پر غیر جانبداری کا تاثر برقرار رہتا۔
ذرائع کی جانب سے فراہم کی جانے والی مذکورہ بالا اطلاعات کے ساتھ یہ امر
بھی معنی خیز ہے کہ خالی ہونے والی اہم ترین ادارتی پوزیشن پر کسی فرد کی
باقاعدہ تقرری کے بجائے بورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر جمال الدین لُنڈ کو اضافی
چارج دینے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ جو اس اہم ترین نشست سے روا رکھے جانے
والے غیر سنجیدہ رویہ کا مظہر ہے۔ البتہ اس موقع پر سابقہ کنٹرولر کو یہ
موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود امور کو دوسروں کو منتقل کر سکیں۔ جس
کی وجہ سے انہوں نے فی الوقت سابقہ پوزیشن کا چارج نہیں چھوڑا۔
راقم کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق محبوبہ سلطانہ کو او ایس ڈی
بنانے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انہوں نے دسمبر میں منعقدہ سالانہ
امتحانات میں اہل امیدواروں کو فیل اور نااہل یا سفارشی امیدواروں کو پاس
کیا تھا۔ محبوبہ سلطانہ کی تنزلی سے قبل ایک حکومتی جماعت کے پیرا میڈیکل
ایسوسی ایشن کے رہنماﺅں نے ۰۳تا۵۳ملازمین کے ہمراہ سیکرٹری صحت کراچی کے
دفتر پر احتجاج بھی کیا تھا۔ یہ احتجاج اپنے رہنماﺅں کے نرسنگ میں فیل ہونے
کے معاملے پر تھا یا اس کا سبب کچھ اور بھی ہو سکتا ہے اس کی تشریح واقعات
خود کر رہے ہیں۔ احتجاج میں شریک پیرامیڈیکل رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ سندھ
نرسنگ ایگزامینیشن بورڈ کی جانب سے ان کے ایسے ساتھیوں کو فیل کیا گیا ہے
جو گزشتہ امتحانات میں فیل ہو جانے کی وجہ سے آخری چانس کے طور پر سالانہ
امتحانات میں شریک ہوئے تھے۔ پیرا میڈیکل ملازمین سے وابستہ ذرائع کے مطابق
اس احتجاج کے بعد سیکرٹری صحت فصیح الدین نے کنٹرولر کی عہدے سے برطرفی اور
تنزلی کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔ سیکرٹری صحت کی جانب سے جاری 25فروری کو
جاری کئے جانے والے اولین حکم نامے کے فوراً بعد ایک دوسرے خط کے تحت
امتحانات میں بدعنوانیوں کے مبینہ الزامات کی تحقیقات اور او ایس ڈی بنانے
کے آرڈر جاری کئے گئے تھے۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سیکرٹری صحت اس خط کے وجود کو تسلیم کرنے کے
باوجود انکوائری رپورٹ کی وجہ تاخیر سے لاعلم ہیں۔ 25فروری کو انکوائری
کمیٹی بنانے کے لئے جاری ہونے والے سرکاری خط میں محکمہ صحت کے افسران کو
ایک ہفتہ کا وقت دیتے ہوئے رپورٹ جمع کروانے کا کہا گیا تھا لیکن 8مارچ تک
ایسی کسی بھی رپورٹ کے چئیرمین بور ڈ کو موصول ہونے کی اطلاعات نہیں تھیں۔
واضح رہے کہ سیکرٹری صحت سندھ اپنے عہدہ کی بناء پر بورڈ کے چئیرمین ہیں جب
کہ وائس چئیرمین اور کنٹرولر وغیرہ کو بورڈ میں باقاعدہ تعینات کیا جاتا ہے۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد یہ صورتحال تو واضح ہو جائے گی کہ
لگائے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا پروپیگنڈہ، تاہم وزارت صحت
اور نرسنگ ایگزامینیشن بورڈ کے ذرائع کی جانب سے فراہم کی جانے والی
اطلاعات کچھ اور ہی کہانیاں سنا رہی ہیں۔ جن میں رپورٹ کی تاخیر مزید رنگ
آمیزی کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر محکمہ صحت سے وابستہ ذرائع نے بتایا کہ
ایگزامینیشن بورڈ کی کنٹرولر کو، اسپیشل سیکرٹری ہیلتھ اور حکومتی جماعت کے
اہم رہنما کی نارروا سفارشات نہ ماننے کی سزا دی گئی ہے۔ جس میں سیاسی دباﺅ
کے تحت ایسے امیدواروں کو پاس کرنے کی سفارش کی گئی تھی جو سال بھر سیاسی
سرگرمیوں میں شامل رہنے کی وجہ سے ایک روز بھی اپنے اپنے نرسنگ اسکولوں میں
حاضر نہیں ہوئے تھے۔ ان امیدواروں میں کچھ مرد و خواتین طلبہ ایسے بھی تھے
جنہوں نے اپنی جوابی کاپیوں پر”اللہ جی نالو“،Define the following،اور کچھ
پرچوں میں سوالنامے کا معروضی حصہ حل کرنے کے بعد باقی بالکل خالی چھوڑ دئے
تھے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کنٹرولر پر لگائے جانے والے الزامات عقلی
اعتبار سے بھی ناقابل یقین ہیں۔ چونکہ امتحانی پرچے حل ہونے کے فوراً بعد
ممتحن حضرات کو دے دئے جاتے ہیں جو انہیں چیک کر کے دئے گئے جوابات کی
روشنی میں نمبر دینے اور طلبہ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ممتحن کی جانب سے تیار کردہ رزلٹ ایک جگہ جمع کر نے کے بعد بورڈ کے چئیرمین
کو بھی بھیجا جاتا ہے، جہاں ایگزام کمیٹی کی جانچ پڑتال اور بورڈ چئیرمین
کے دستخط کئے جانے کے بعد نتائج کا اعلان ہوتا ہے۔ جن امتحانات میں کنٹرولر
پر جانبداری برتنے کا الزام لگایا گیا ہے اس کے نتائج آنے سے قبل امتحانی
کمیٹی اور بورڈ چئیرمین کی جانب سے دستخطوں کے وقت اعتراض نہ کرنا اور
اعلان نتیجہ کے کئی روز بعد اس میں نقص کی نشاندہی کرنا معنی خیز ہے۔ خاص
طور پر ایک ایسی کیفیت میں جب کنٹرولر اس بات کا مجاز ہی نہیں کہ وہ کسی
بھی امیدوار کو اضافی نمبر دے سکے، ماسوائے اس صورت کے کہ اگر کوئی طالب
علم تمام سات پرچوں میں سے چھ میں پاس ہو اور کسی ایک میں ایک یا دو نمبر
کی وجہ سے فیل ہو رہا ہو تو گریس مارکس کے طور پر اسے یہ نمبر دئے جا سکتے
ہیں۔ لیکن مذکورہ کیس میں ایسی بھی کوئی مثال سامنے نہیں آ سکی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ امتحانی نظام اور بورڈ کے قوانین کے تحت ناکام
امیدواری کاﺅنٹنگ(دوبارہ گنتی) کے لئے درخواست دے سکتے تھے، جو نہیں دی
گئی،ایسا کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ فیل ہونے والے امیدواروں اور ان کے
سفارشیوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ میرٹ پر نہیں لیکن اس معاملے کو
جواز بنا کر کنٹرولر کو او ایس ڈی بنانے کی نادر شاہی مثال قائم کر دی گئی۔
دوسری جانب نتائج کے اعلان کے 40روز بعد تک ری کاﺅنٹنگ کی درخواستوں کی
موصولی کی صورت میں ان کی چھان بین نئے سرے سے امتحان منعقد کئے جانے، اس
کے لئے پرچوں کی تیاری، ممتحن حضرات کا تقرر وغیرہ جیسے وقت طلب امور درپیش
ہوتے ہیں جن کے لئے کنٹرولنگ اتھارٹی کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن
کنٹرولر کی معطلی کے احکامات جاری کئے جانے کی اطلاع سامنے آنے کے بعد یہ
پورا عمل بھی معطل ہو کر رہ گیا ہے جس سے اگر کوئی امیدوار ری کاﺅنٹنگ کی
درخواست دیتا یا دوبارہ امتحان میں شرکت کرنا چاہتا ہے تو وہ اس قانونی
سہولت سے مستفید نہ ہو سکے گا۔ وزارت صحت کی جانب سے کنٹرولر کو او ایس ڈی
بنانے کے بعد انکوائری کمیٹی تشکیل دے کر تفتیشی عمل شروع کرنا بھی اس لئے
حیران کن قرار دیا جا رہا ہے کہ جب ایک فرد کو سزا سنا دی گئی ہے تو تحقیق
کس بات کی اور اگر بغیر تصدیق کے سزا دی گئی ہے جواز کیا تھا؟ اصولاً ان
دونوں میں سے کسی ایک بات نے غلط ہونا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ صحت
حکام کی غلطی کی صورت میں انہیں سزا دیتا ہے یا یہ نزلہ بھی کم تر درجہ کے
ملازمین پر ہی گرے گا۔
محکمہ صحت سے وابستہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ محکمے کے اہم افسران کی
جانب ایسے امیدواروں کو پاس کرنے کی سفارش کی گئی تھی جنہوں نے اپنے
امتحانی پرچے بالکل خالی یا غلط جواب لکھ کر جمع کروائے اور اس پر پاس ہونے
کے خواہاں بھی تھے۔ بورڈ ذرائع کا اندر کی کہانی کے متعلق مزید کہنا تھا کہ
پیرامیڈکل ملازمتوں پر فائز نرسنگ کے طلبہ امتحانات کی تیاری کے بجائے نت
نئی سفارشیں لانے جب کہ محکمہ صحت کے افسران سیاسی دباﺅ کی وجہ سے ان کے
سفارشی بننے پر مجبور تھے۔
حکومتی جماعت کے اہم رہنما کی جانب سے محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر کو یہ
دھمکی بھی دی گئی تھی کہ ان کی پارٹی کے لئے سال بھر کام کرنے والے لڑکوں
کو پاس نہیں کیا گیا، کیوں کہ گزشتہ دو امتحانوں میں فیل ہو جانے کے بعد یہ
ان کا آخری موقع تھا، اس لئے کنٹرولو بورڈ کو فوراً عہدے سے ہٹایا جائے اور
ان کے تجویز کردہ امیدواروں کو پاس کروایا جائے۔ مذکورہ افسر کی جانب سے جب
یہ احکامات بورڈ کے ذمہ داران کو دئے گئے تو انہوں نے ایسا کرنے سے معذوری
ظاہر کی جس کی سزا کے طور پر وہ سارہ منظر نامہ سامنے آیا ہے جس نے کرپشن
کی نئی داستان کو سامنے لا کر نظام کی خرابی پر ایک نیا سوالیہ نشان لگایا
ہے۔
کنٹرولر کی برطرفی اور ان پر لگائے جانے والے الزامات پر مؤقف جاننے کے لئے
کنٹرولر سندھ
ایگزامینیشن بورڈ محبوبہ سلطانہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی رائے دینے
سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ وہ سرکاری ملازم ہیں اسلئے میڈیا کو ایسی
کوئی بات نہیں بتا سکتیں جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہو، البتہ اپنے
اوپر لگائے جانے والے الزامات کے متعلق وہ انکوائری کمیٹی کے سامنے تمام تر
ثبوتوں کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کریں گی۔ چارج نہ چھوڑنے کے متعلق ان کا کہنا
تھا کہ وزارت صحت کی جانب سے انہیں جاری معاملات کی منتقلی کا وقت دیا ہے
جو کثرت کے سبب ایک یا دو روز میں نہیں ہو سکتے اس لئے وقت لگ رہا ہے۔
سیکرٹری صحت سندھ فصیح الدین نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اس معاملے کی
انکوائری رپورٹ ایک ہفتے میں ملنا تھی لیکن وہ اس کی تاخیر کے سبب سے لاعلم
ہیں۔ رپورٹ ان کے سامنے نہیں آئی ہے۔ سیکرٹری صحت کا کہنا تھا کہ انکوائری
اس لئے کروائی جا رہی ہے کہ اصل صورتحال سامنے آسکے۔
سندھ نرسنگ ایگزامینیشن بورڈ کی کنٹرولر پر لگائے جانے والے الزامات درست
ہیں یا غلط اس کا جواب شفاف انکوائری کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے، وزیر
صحت سندھ کی محکمانہ شہرت بھی یہی ہے کہ وہ بددیانتی کے معاملات پر سخت
کاروائی کرنے کے عادی ہیں، لیکن ان کی عین ناک کے نیچے اس طرح کے کام ہونا
جو ان کی نیک نامی کے لئے نقصان دہ ہو اور ان پر معنی خیز خاموشی اس بات کی
علامت ہے کہ وہ لا علم ہیں یا اتحاد کی مجبوریوں کی وجہ سے اکثریتی پارٹی
کے رہنماﺅں کو ناراض کرنے والے اقدامات نہیں کر سکتے۔ |