پاکستان میں اوپرسے لیکر
نیچے تک ہر طرح کے چھوٹے بڑے جرائم عروج پر ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں
کو نہ تو قانون کا کوئی خوف ہے نہ سزا کا ڈر۔ وہ دھڑلے سے قانون شکنی کرتے
اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب پاکستان میں شادی کی تقریبات میں One dishکا
قانون لاگوکیا گیا تھا ، ایک بااثر اور مال دار شخصیت کے بیٹے کی دعوت
ولیمہ میں کھانے کی کوئی بیس پچیس ڈشوں سے مہمانوں کی توا ضع کی گئی جس پر
ان کے خلاف مذکورہ قانون کے تحت کاروائی عمل میں لائی گئی ۔ عدالت میں
انہوں نے جرم تسلیم کیا جس پر انہیں جرمانے کی سزا سنائی گئی، وہ صاحب
عدالت سے باہر نکلے جرمانہ ادا کیا اور بڑے فخر سے سینہ تان کر اپنی بیش
قیمتی گاڑی میں ٓادھ درجن گارڈز کے ساتھ قانون کا مذا ق اڑاتے ہوئے گھر چلے
گئے۔
ایسا ہی ایک تماشہ پوری پاکستانی قوم نے پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت
میں اپنی ٹی وی سکرینز پر دیکھا جب اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا
گیلانی کو سپریم کورٹ ٓاف پاکستان میں توہین عدالت کیس میں ایک منٹ کی سزا
سنائی گئی جسے بھگتنے کے بعد جب موصوف اپنے وزیروں مشیر وں کے ساتھ کمرہ
عدالت سے باہر ٓائے تو نہ چہرے پر کوئی ملال تھا اور نہ ماتھے پر کوئی شکن
البتہ سب کے چہروں پر ایک تمسخرانہ ہنسی ضرور تھی۔ ان کی چال میں رعونت اور
تنی ہوئی گردن جیسے پاکستان کے نظام انصاف سے کہہ رہی ہو کہ تم نے ہمارا
کیا بگاڑ لیا؟
ایسے بیشمار واقعات پاکستان میں چاروں طرف ہر لمحہ وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔
ٹریفک سگنل توڑنے سے لیکر قتل تک اورسگریٹ کی ڈبی رشوت میں لینے سے عربوں
کھربوں کی کرپشن تک ہر لمحہ پاکستان میں نہ صرف قانون کی دھجیاں بکھیری
جاتیں ہیں بلکہ اس کا جی بھر کے مذاق بھی اڑایا جاتا ہے کیونکہ امیر ہو یا
غریب کسی کواس بات کا کوئی ڈر نہیں کہ قانون شکنی پر اسے سزا ملے گی۔
تھیوری ٓاف ڈیٹرنس Theory of Deterrence
قانون کے طالبعلم خاص طور پر Penologyکا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ سزا
کے مختلف نظریا ت میں تھیوری ٓاف ڈیٹرنس بھی ایک ہے ۔ اس کے دو پہلو ہیں؛
ایک یہ کہ مجرموں کو دی جانے والی مخصوص سزائیں انہیں مزید جرم کرنے سے باز
رکھتی ہیں ، دوسرا یہ کہ سزا کے خوف سے دیگر لوگ ایسے جرائم کا ارتکاب نہیں
کرتے ۔ اسکے علاوہ سزا کا ایک اور نظریہ جو Retributivismکہلاتا ہے یہ کہتا
ہے کہ جرم کرنے پر سزا ضروری دی جانی چاہیے اور جرم جتنا سنگین ہو سزا بھی
اتنی ہی سخت ہونی چاہیے۔ سخت سزاکے خوف سے لوگ جرم کرنے سے باز رہیں گے ۔
قر ٓان میں کہا گیا کہ ــ''قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے '' ۔ حکمت کیا ہے
کہ جب جان کے بدلے جان ، ٓانکھ کے بدلے ٓانکھ اور دانت کے بدلے دانت کا
قانون ہوگا تو لوگ اپنی جان جانے کے خوف سے دوسروں کی جان لینے سے باز رہیں
گے۔ پورے سعودی عرب اورامریکہ کی صرف ایک ریاست نیو یارک کے کرائم ریٹ کو
دیکھ لیں ۔ سعودی عرب میں قتل اور چوری کے اتنے واقعات پورے سال میں نہیں
ہوتے جتنے نیو یار ک میں ایک دن میں ہوتے ہیں ۔ ایسا اسلیئے ہے کہ سعودی
عرب میں قتل کرنے والے کی گردن اور چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے
ہیں جبکہ نیو یارک میں نہ کسی کا سر قلم کیا جاتا ہے نہ کسی کے ہاتھ کاٹے
جاتے ہیں ۔ اسی طرح Law of Tortsمیں حرجانہ کی ایک قسم مثالی حرجانہ یعنی
Exemplary Damagesبھی ہے ۔ عدالت غلطی ثابت ہونے پر سزا کو مثال بنانے
کیلئے مقدمہ کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنا حرجانہ ادا کرنے کا حکم دی
سکتی ہے کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں اور اس قسم کی غلطی نہ کریں۔
کیا محض سخت سزائیں تجویز کرنا کافی ہے؟
اگر قانون کی کتابوں میں مختلف جرائم کیلئے سخت ترین سزائیں تجویز کر دی
جائیں تو کیا جرائم کم ہو جائیں گے؟تحقیق بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
کیونکہ اگر صرف کتاب میں لکھنے کی حد تک قتل کی سزا موت ہوگی تو اس سے
لوگوں کے دل میں خوف پیدا نہیں ہوگا ۔خوف تب پیدا ہوگا جب حقیقت میں اس سزا
پر عمل در ٓامد ہوگا۔ یعنی سزا کا دیا جانا کافی نہیں بلکہ اس کی Execution
ضروری ہے ۔ جب لوگ اپنی ٓانکھوں سے دیکھیں گے کہ قتل کرنے والوں کو پھانسی
پر لٹکایا جا رہا ہے تو وہ قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ سعودی عرب میں جب
Deera Squareمیں سرے عام مجرموں کا سر قلم کیا جاتا ہے یا ہاتھ کاٹے جاتے
ہیں تودیکھنے والوں کے بدن میں خوف کی جو لہر دوڑ تی ہے وہ انہیں جرم کرنے
سے باز رکھتی ہے ۔
پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے سزائے موت پر عملدر ٓامد رکا ہوا تھا جس کی
وجہ سے کسی کو اس بات کا خوف نہیں تھا کہ اسے قتل کی پاداش میں پھانسی پر
لٹکایا جائے گااس وجہ سے پورے پاکستان میں روزانہ کی بنیادوں پر قتل کی
وارداتیں ہو رہی تھی لیکن جیسے ہی برسوں سے رکی ہوئی پھانسیوں پر عملدر
ٓامد شروع ہوا تو قتل کی وارداتوں میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی کیونکہ لوگوں
کے دل میں خوف پیدا ہونا شروع ہوگیا تھا کہ اگر انہوں نے قتل کیا تو انہیں
بھی پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔
کرمنل جسٹس سسٹم:
کسی معاشرے میں سب سے زیادہ اہمیت قانون و انصاف کی ہوتی ہے ۔ جہاں قانون
اور انصاف کا نظام کمزور ہو وہاں جرم اور انارکی کا راج ہوتا ہے ۔ ایک
مضبوط اور مؤثر کرمنل جسٹس سسٹم معاشرے میں Deterrenceکا کام کرتا ہے ۔
لوگوں کے دلوں میں خوف ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی جرم کیا تو وہ سزا سے
نہیں بچ سکیں گے لیکن پاکستان کا کرمنل جسٹس سسٹم ناکارہ ہونے کی حد تک
کمزور اور نہ اہل ہے یہ شہریوں کے دل میں خوف تو کیا اپنا احترام تک کروانے
کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ واضح رہے کرمنل جسٹس سسٹم سے مراد محض عدالتیں
نہیں ۔ کرمنل جسٹس سسٹم تین ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے ؛ تفتیشی ادارے (mainly
police)، پراسیکیوشن اور عدالت اور اسکی روح ہوتے ہیں وہ قوانین جن کے تحت
یہ ادارے تشکیل پاتے اور اپنا کام سر انجام دیتے ہیں دوسرے وہ قوانین جنکا
نفاذ ان اداروں کے ذریعہ عمل میں لایا جاتا ہے ۔ جب تک اس نظام کے تینوں
شعبے صحیح طور پر کام نہ کریں یہ نظام مؤثر اور فعال نہیں ہو سکتا اور جب
تک یہ ٹھیک نہیں ہوگا جرائم کم نہیں ہونگے۔ |