توانائی

کامن سینس کی بات ہے کہ انسان کو زندہ رہنے کیلئے توانائی کی ضرورت ہے جس میں نہ صرف روزمرہ فوڈز بلکہ پانی ،بجلی ، گیس اور دیگرنان فوڈ اشیاء شامل ہیں جن کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے اور توانائی کے حصول کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاتا ہے ،دنیا بھر میں سائنسدان دن رات تحقیق کرتے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرم رہتے ہیں کہ کم سے کم لاگت میں نئی ٹیکنالوجی پر ریسرچ کی جائے اور کامیابی کے بعد دنیا بھر میں اسے متعارف کروایا جائے تاکہ کرہ ارض پر بسنے والا ہر انسان مستفید ہو سکے،ایسا ہی ایک پروجیکٹ بیلجئیم حکومت متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے ریاست کو مزید توانائی حاصل ہو اور بے خوف و خطر انرجی کا ضیاع کئے بغیر تاحیات فائدہ اٹھایا جا سکے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق بیلجئیم شمالی سمندر میں مصنوعی جزیرہ تعمیر کرنے کی پلاننگ کر رہا ہے اس مصنوعی جزیرے میں توانائی کو پرو ڈیوس کرنے کے علاوہ اسے سیو بھی کیا جائے گاجزیرے کی بناوٹ بیضوی ہو گی جو بعد از تعمیر رات کو ہوائی فارمز اور ہائی پاور وولٹیج سے نہ صرف توانائی پیدا کرے گا بلکہ اسے ذخیرہ بھی کیا جا سکے گا،سطح زمین سے دو اور تین سو میٹر کی بلندی سے دیکھا جائے تو جزیرہ ایک آنکھ سے مشابہت رکھتا ہے اس جزیرے پر توانائی سٹوریج بجلی گھر جسے حکومت نے آئی لینڈ کا خطاب دیا ہے جس کے معنی انرجی لینڈ (توانائی جزیرہ) ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے جزیرے کی تعمیر سے توانائی کو ذخیرہ کرنے اور ملک میں بجلی کی قلت کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی منصوبے کے تحت آنے والے سالوں میں سیکڑوں ٹربائن اور ونڈز پارک ساحل سمندر کے قریب تعمیر کئے جائیں گے جن سے ہمیشہ بجلی حاصل کی جا سکے گی اور کئی سالوں تک کے لئے ذخیرہ کی جائے گی ،رات کو توانائی کی طلب کم ہونے پر ٹربائن بدستور پروگرام کے تحت مخصوص مقدار میں توانائی فراہم کرتے رہیں گے اور ہائی ٹیک انسٹرومنٹ سے اضافی توانائی کو ذخیرہ کیا جا سکے گاتمام سسٹم آٹو میٹک میکانزم اور کمپیوٹرائزڈ ہوگا، سطح سمندر میں تیس میٹر گہرا سوراخ کرنے کے بعد مخصوص آلات گہرائی میں نصب کئے جائیں گے جو بوقت ضرورت توانائی فراہم کریں گے مثلاً اگر صبح بجلی کی ضرورت زیادہ ہے تو پانی کے اندر نصب ٹربائن ایک بٹن دبانے سے سٹارٹ ہونگے اور توانائی مہیا کی جائے گی آٹو میٹک سسٹم کے تحت کمی پوری ہونے کے بعد آلات مینویل یا خود کار نظام سے بند ہو جائیں گے، یہ توانائی جزیرہ چار گھنٹے میں پانچ سو میگا واٹ توانائی پروڈیوس کرے گا ۔بیلجئم کے سٹیٹ سیکریٹری مسٹر بارٹ ٹوم لین جو سمندرکے تحقیقی ادارے سے بھی منسلک ہیں کا کہنا ہے یہ دنیا کا پہلا بجلی گھر ہوگا جو چار گھنٹے میں اتنی زیادہ بجلی فراہم کرے گا ہم حکومتی وزراء کے ساتھ اس میگا منصوبے پر بات چیت کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ موسم گرما کے آخر تک حکومت اس منصوبے پر عمل درامد کرنے کی منظوری دے دے گی،توانائی کے اس منصوبے کے علاوہ دوسرے مرحلے میں مصنوعی گیس سے بھی توانائی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا جائے گا لیکن یہ نئی ٹیکنالوجی ابھی ریسرچ کے مراحل سے گزر رہی ہے،آئی لینڈ جزیرے کی تعمیر پر تقریباً ایک ارب یورو کی لاگت آئے گی۔اپوزیشن لیڈرز کا کہنا ہے اس منصوبے سے ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہونگے آٹھ میلین یورو سالانہ اس پروجیکٹ کی دیکھ بھال پر خرچ ہونگے اور کنسٹرکشن فرمز کے لئے یہ پروجیکٹ کسی سونے کی کان سے کم نہیں ہوگا ،اس پروجیکٹ پر گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا گیا کہ سمندری طوفان یا دیگر قدرتی آفات اور  ایمرجینسی میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی علاوہ ازیں ساحل سمندر کے رہائشی اس منصوبے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ جزیرہ ساحل سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر کیا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈرز کے خدشات پر ٹوم لین نے اخباری نمائندے کو بتایا کہ میں جانتا ہوں رہائشی خوفزدہ ہیں میں بھی اسی علاقے میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہوں اور اردگرد کے تمام علاقے کی واقفیت ہے منصوبے کی منظوری تک ماحولیاتی منفی اثرات پر سب سے پہلے توجہ دی جائے گی اور تمام خدشات دور کئے جائیں گے مکمل پلاننگ کے بعد ہی پروجیکٹ کی تعمیر کا آغاز ہو گا اور ہمارے پلان کے تحت دوہزار اکیس سے توانائی جزیرہ توانائی فراہم کرنا شروع کر دے گا۔قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں ملک و قوم کی بہتری ،خوشحالی کیلئے جدید ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر مثبت منصوبے کی منظوری دیتی ہیں اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ منصوبہ پایہ تکمیل پہنچ جاتا ہے اور ملک وقوم استفادہ کرتے ہیں،لیکن کچھ ممالک کے لیڈرز اور ان کے کارندے محض طلسماتی باتیں کرتے ہیں اور عمل ندارد۔ہر انسان کی بنیادی ضرورت روزمرہ خالص فوڈز ، ادائیگی کے قابل توانائی کی فراہمی ، ہیلتھ سسٹم اور ہر خاص و عام کیلئے مفت تعلیم ہے نہ کہ ۔۔۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246100 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.