توانائی بحران اور حکومت کی مخلصانہ کوششیں

وزیر اعظم نواز شریف نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو انہیں سب سے زیادہ پریشانی اس بات کی تھی کہ ملک ووقوم کو لوڈ شیڈنگ کے عزاب سے کیسے نجات دلائی جائے؟ ارض پاک کے دیہات اور شہروں کی روشنیاں کیونکر بحال کی جا سکتی ہیں اور ملک بھر میں پھیلے تاریکی کے سایوں کو مذید بڑھنے سے کیسے روکا جائے؟اپنی اور قوم کی پریشانی کے خاتمہ کے لیے انہوں نے وزارت پانی اور بجلی کے اعلی ماہرین کا اجلاس بلایا اور ان کے سامنے اپنی اس خواۂش کا اظہار کیا کہ وہ جلد از جلد قوم کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے کے خواہاں ہیں اس لیے کوحل تلاش کیا جائے۔اس اہم ترین اجلاس میں مسلم لیگ نواز کے چوٹی کے چند راہنما بھی موجود تھے-

وزارت پانی و بجلی کے ماہرین نے وزیر اعظم کی خواۂش کی تکمیل کی حامی بھری اور انکی پریشانی کا حل تلاش کرنے میں جت گئے، پہلے وزرات پانی و بجلی کے کولڈ سٹور سے بدنام زمانہ’’ رینٹل پاور‘‘ منصوبہ نکلا اور وزیر اعظم نواز شریف کی خدمت اقدس میں پیش کرکے انکی مہربانیاں اپنے نام کرنے کی سعی لا حاصل کی۔ جب وزیر اعظم نے اس منصوبے پر اپنی رضامندی دینے سے انکار کیا اور سمری پر ’’سرخ کراس‘‘ لگا یا تو پھروزارت کے چند دور اندیش حکام نے کولڈ سٹور میں محفوظ گیلانی دور حکومت کا ایک اور پروگرام ’’ مفت انرجی سیورز تقسیم کرنے کا منصوبہ‘‘ پیش کیا ،جسے وزیر اعظم نواز شریف نے ڈاکٹر اسحاق ڈار کی تائید سے منظورکیا۔

مفت انرجی سیور کی تقسیم کا منصوبہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دو ہزار بارہ میں بنایا اور اسکے لیے تعاون ایشئین ڈیویلپمنٹ بنک( ADB ) نے کیا اور کروڑوں انرجی سیور خریدنے کا سودا ہانگ کانگ کی کمپنی ’’بیوٹی شیڈو‘‘ کی ذمہ داری ٹھہری، عوامی جماعت ہونے اور عوام کی خدمت کی دعویدار پیپلز پارٹی کی حکومت اس منصوبے پر عمل درآمد کیوں نہ کر سکی؟ شائد کوئی مورخ اس راز سے بھی پردہ سرکانے کا کارنامہ سرانجام دیدے، میرے خیال میں بیوروکریسی کی روایتی سست روی آڑے آئی ہوگی…… خیر وزیر اعظم نواز شریف اور اسحاق ڈار کی انتھک محنت اور توجہ کے باعث پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مکمل نہ ہونے والا اربوں کا منصوبہ برق رفتاری سے تکمیل کے مراحل طے کرنے لگا۔

کراچی سے خیبر تک انرجی سیور کی تقیم کا آغاز ہوگیا ایک انرجی سیور کے عوض صارفین بجلی سے دو بلب لیے گئے، اس میں بہت سا گپلا بھی ہوا ، صارفین سے بلبوں کے نقد پیسے وصول کیے گئے اور پھر کھلی مارکیٹ سے وزارت پانی و بجلی کے ملازمین نے بلب خرید کر واپس کیے، اطلاعات کے مطابق صارفین کی ایک بہت بڑی تعداد یہ مفت انرجی سیور کے حصول میں ناکام رہی کیونکہ کاڑٹن کے کارٹن افسر اور ملازمین کی بندربانٹ کی نذر ہوگئے، جن کا ابھی تک ریکارڈ مکمل نہ ہو سکا ہے۔ابھی حال ہی میں حکومت نے کمرشل صارفین کو بجلی کے کم استعمال کی جانب راغب کرنے کے لیے مفت انرجی سیور کی سکیم کا دوسرا مرحلہ شروع کیا تو ملازمین نے افسران بالا کی آشیر باد سے بجلی کے بلوں پر شائع کوپنز اتار لیے اور پھر بل صارفین کو تقسیم کیے گئے ،موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس وقت ایشئین ڈیوپلمنٹ بنک کے کنٹری صدر کے منصب پر بھی فائز ہیں-

مفت انرجی سیور کی تقسیم اور اشتہارات کی مد میں کسے فائدہ پہنچایا گیا ہے یہ تو حکومت بہتر بتا سکتی ہے۔ لیکن ایک بات جس کا مجھے علم ہے وہ آپ سے شئیر کر لیتا ہوں کہ مفت تقسیم کیے گئے ان کروڑوں انرجی سیورز کے حوالے دی گئی گارنٹی محض کاغذی کارروائی ثابت ہوئی ہے اور ایک کھلا دھوکہ…… کیونکہ آج تک کسی خراب انرجی سیور کی رپلیسمنٹ( واپسی یا تبدیلی) عمل میں نہیں آئی۔ لوگ لیسکو سمیت دیگر کمپنیوں کی سب ڈویژنل دفاتر میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں …… ان دفاتر میں کام کرنے والے عملے کو خود خراب انرجی سیورز کی تبدیلی یا واپسی کے طریقہ کار کا علم نہیں ۔ لوگ سب دویژنوں سمیت اعلی دفاتر میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ انرجی سیورز کی تبدیلی یا واپسی کے طریقہ کار کو مخفی رکھنے کی بات سمجھ سے بالا تر ہے۔

ماہرین کے مطابق کروڑوں انرجی سیورز مفت تقسیم کرنے کے نام پر قومی خزانہ کو لگائے گئے جھٹکے کے باوجودتوانائی بحران میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی توجروں سمیت عام گھریلو صارفین کو فائدہ حاصل ہوا ہے۔ طلب اور رسد کا فرق جوں کا توں ہی ہے۔ دوسرا مفت انرجی سیورز کی تقسیم میں خامی یہ رہی کہ ہر صارف کو محض ایک انرجی سیور فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ایک انرجی سیور لگانے سے توانائی میں کیا بچت ہوناتھی؟ حکومت یا وزارت پانی و بجلی بتائے کہ کروڑوں انرجی سیورز مفت تقسیم کرنے سے کتنے میگاواٹ بجلی کی بچت ہوئی؟ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے عادل گیلانی کو حکومتی آفس سنبھالنے کی بجائے اس بات کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

حکومت قوم کو بتائے کہ مفت انرجی سیورز کی تقسیم پر قومی خزانے سے کتنا قومی سرمیہ خرچ کیا گیا ہے؟ اور ھکومت قوم کو یہ بھی بتائے کہ چیچوکی ملیاں پاور پراجیکٹ کیوں بند کیا گیا ہے اور اس پر خرچ ہونے والے تین ارب سے زائد قومی سرمایہ کس کی جیب سے واپس لیا جائے گا؟میٹرو بس منصوبے پر دی جانے والی توجہ کا آدھا بھی چیچوکی ملیاں پاور پراجیکٹ پر دی جاتی تو یہ منصوبہ بھی عوام کا مقدر بنے اندھیروں کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا تھا۔

سابق حکومت پر الزام تھا کہ وہ باقی صوبوں کی نسبت کراچی سمیت پورے سندھ کو اضافی بجلی فراہم کرتی ہے جبکہ پنجاب کے عوام کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے ،لیکن کراچی اور سندھ میں سینکڑوں افراد کی موت کے شور و غوغا مین کچھ ایسی ہی باتیں مسلم لیگ نواز کی حکومت کے متعلق کہی جان رہی ہیں کہ وفاقی حکومت سندھ کو بجلی کم فراہم کر رہی ہے جبکہ پنجاب کو نوازا جا رہا ہے، اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ حکومت سب صوبوں سے یکساں انساف کرے کیونکہ پورے ملک کے عوام انکی رعایا ہیں اور بجلی سمیت تمام سہولیات کا حصولؒ انکا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا پنجاب کے عوام کا ہے۔حکومت کے سربراہ کو یہ کہہ کر کہ ‘‘انہوں نے کبھی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا وقت نہیں دیا‘‘ عوام کے مسائل میں مذید اضافہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے برخوردار ،فرماں بردار بھائی جو وزیر اعلی ہیں کے وعدوں کی تکمیل کا بیڑا اٹھانا چاہیے اور ایسے اقدامات کریں جن سے لوڈ شیڈنگ سے جلد از جلد عوام کو نجات ملے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161150 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.