"عید اور خوشیاں"
(نوشین فاطمہ عبدالحق, جدہ , المملکہ العربیہ السعودیہ)
وہ بڑی حیرت سے مالک کے بیٹے کو
واویلا کرتا دیکھ رہا تھا ۔
"افففف ۔ اب میں ابو کو کیا جواب دوں گا ؟ بڑی مشکل سے یہ سوٹ لے کر دیا
تھا انھوں نے ۔دکاندار پچاس ہزار سے کم پر راضی ہی نہیں ہو رہا تھا ۔اب یہ
کمبخت گاڑی والا ۔ پتا نہیں کیچڑ کے داغ اتریں گے بھی کہ نہیں "
بات صرف اتنی سی تھی کہ ریحان اپنے ملازم شرفو کے ساتھ سڑک کے کنارے چلتا
ہوا عیدگاہ کی طرف جا رہا تھا ۔ کچھ دیر قبل ہی بارش ہوئی تھی ۔جسکی وجہ سے
سڑک پر خاصا کیچڑ جمع ہوگیا تھا ۔یکایک ایک تیز رفتار گاڑی کیچڑ کے چھینٹے
اڑاتے ہوئے ان کے پاس سے گزری اور دونوں کے کپڑوں کا ستیاناس کر گئی ۔
شرفو کا تو وہی دو سال پرانا سوٹ تھا جسے وہ صرف عید کے روز پہنا کرتا تھا
۔
اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔پاس ہی عوامی استعمال کے لیے لگایا گیا نلکا
نظر آیا ۔شرفو نے جاکر اپنے کپڑوں سے کیچڑ کے چھینٹے دھو لیے اور اسی گیلے
سوٹ کے ساتھ دوبارہ عیدگاہ کی طرف چل پڑا ۔
بس اتنی سی ہی تو بات تھی ۔ شرفو کے اطمئنان میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں
آیا تھا ۔ اس لمحے اسے عید کی "حقیقی خوشی" محسوس ہوئی ۔
----------*****----------
"اماں جان ! چاند نظر آ گیا" منا جو چاند کی تلاش میں کافی دیر سے چھت پر
چھڑا ہوا تھا , چیخنے لگا ۔ سب گھر والے دوڑے دوڑے چھت پر پہنچے ۔
"بہو ! تو بھی آ جا نا چاند دیکھنے ۔ " منے کی اماں نے چھت کی سیڑھیاں
چڑھتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے سکینہ کو بلایا ۔
سکینہ نے سنی ان سنی کر دی ۔ سارے گھر والے چھت پر خوشی سے نعرے لگا رہے
تھے ۔ سکینہ کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں ۔
اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی ۔ سکینہ تیر کی طرح اٹھی اور جا کر دروازہ
کھولا ۔
اس کا پانچ سال سے بیرون ملک مقیم عزیز از جان شوہر ہونٹوں پہ نرم سا تبسم
سجائے کھڑا تھا ۔
سکینہ کے لب ہولے سے ہلے "اماں ! مجھے بھی چاند نظر آ گیا"
----------*****----------
اسی سالہ ضعیف بڑھیا لاٹھی ٹیکتے ہوئے بار بار مہمان خانہ کی طرف جاتی اور
پھر مایوس ہو کر لوٹ آتی ۔
اس کی ہم عمر عورتیں ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کرنے میں پیش پیش
تھیں مگر اس کے تو جیسے لب ہی سل گئے تھے ۔
"خالہ بی!" اولڈ ہاؤس کی انتظامیہ میں سے ایک شخص نے اسے مخاطب کیا "
تمھارے بچے اپنے بال بچوں سمیت تم سے ملنے آئے ہیں ۔ ادھر مہمان خانے میں
انتظار کر رہے ہیں"
"سہیلیوں!" خالہ بی نے نعرہ لگایا "عید مبارک"
----------*****----------
آج عید کا دن تھا لیکن ان ننھے منے بچوں کا کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا
۔ ان کے پیارے بابا ایک ہفتے سے ہسپتال میں زیرعلاج تھے ۔ ڈاکٹرز نے کہا
تھا کہ عید سے ایک دن پہلے انھیں فارغ کر دیا جائےگا لیکن اب تو عید کا دن
بھی گزرنے لگا تھا اور وارڈن کی طرف سے ابھی ان کے بابا کو گھر جانے کی
اجازت نہیں ملی تھی ۔
عید کے دوسرے دن انھیں ہسپتال والوں کی طرف سے کال آئی ۔ اب ان کے بابا
کافی بہتر تھے اور وہ انھیں گھر لے کر آ سکتے تھے ۔
حنظلہ نے اسی وقت ڈائری اٹھائی , حالانکہ وہ جانتا تھا کہ عید کا دوسرا دن
ہے اور وہ کافی لیٹ ہو چکا ہے , مگر پھر بھی اس تے ایک ایک عزیز , رشتہ دار
اور دوست کو کال کر کے عید کی مبارکباد پیش کی ۔
"نوشین فاطمہ عبدالحق کی طرف سے آپ سب کو عید کی"حقیقی خوشیاں"مبارک ہوں" |
|