کرپشن زدہ کلچر
(Tariq Hussain Butt, UAE)
پاکستانیوں کو جمہوریت سے دلی
محبت ہے اور اس کیلئے اسے کوئی ثبوت دینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی
جدو جہد خود سب سے بڑی گوا ہی ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسے اس بات سے کوئی
دلچسپی نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا نعرہ کو ن بلند کر رہا ہے، شجرِ
جمہوریت کس کے ہاتھوں میں زیادہ محفوظ ہے،اور کون جمہوریت کا بڑا علمبردار
ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ جمہوریت ہی پاکستان کی تخلیق کا باعث تھی لہذا
پاکستان میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اسے ہر حا ل میں قائم رہنا
ہے کیونکہ جب ساری دنیا میں جمہو یت ہی سکہ رائج الوقت ہے تو پھر یہ کیسے
ممکن ہے کہ ووٹ کی پرچی سے تخلیق ہونے والا ملک جمہوریت سے فرار کی راہ
اپنا لے۔ پاکستان کا مقدر حقیقی جمہوریت سے وابستہ ہے اور ہمیشہ وابستہ
رہیگا ۔یہ سچ ہے کہ پاکستان میں وقفوں وقفوں سے مارشل لائی حکو متیں تشکیل
پاتی رہیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ان مارشل لائی حکومتوں کے بعد بھی
جمہوری نظام کی جانب ہی مراجعت کا سفر اختیار کیا گیا یہ الگ بات کہ اس
جمہوری تجربے میں آمریت کا انداز حاوی رہا ۔حقیقی جمہوریت کی جانب ابھی تک
سیاسی جماعتیں اپنا سفر شروع نہیں کر سکیں کیونکہ ان کی اپنی جماعتوں میں
کوئی جمہوریت نہیں ہے بلکہ وراثتی سیاست کا رنگ نمایاں ہے ۔ان کی اپنی
جماعتوں میں انتخابات کی کوئی روائیت نہیں بلکہ چپکے سے اپنے خاندان کے کسی
نابالغ فرد کو جماعت کی قیادت سونپ دی جاتی ہے اور ایسا کرتے وقت یہ بھی
نہیں سوچا جاتا کہ جسے پارٹی قیادت سونپی جا رہی ہے وہ ا س قابل بھی ہے کہ
پارٹی کی قیادت سر انجام دے سکے؟ بڑے دھڑلے سے پارٹی قیادت گھر میں رکھ لی
جاتی ہے اور اسے جمہوریت کا نام دے دیا جا تا ہے اور اسی جمہوریت کو بچانے
کا نعرہ بلند کر کے عوام کو بلیک میل کیا جا تا ہے ۔ شہنشا ہیت میں تو یہ
ہوتاہے کہ شہزادہ ہی تاج و تخت کا وارث قرار پاتا ہے کیونکہ ان کے آئین کی
رو سے ایسا ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن جمہوریت میں اس کی گنجائش نہیں
ہوتی۔وراثتی روش نے اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جس سے اسلام کا
عد ل و انصاف کا تصور بری طرح سے مجروح ہوا اور کرپشن کو فروغ حاصل ہوا اور
ایک ایسا نظام تشکیل پایا جس میں دو طرح کے قوانین رائج ہوئے ۔ایک عوام
کیلئے اور دوسرا قانون حکمرانوں کیلئے۔حکمران عوامی خزا نے پر عیش و عشرت
کرتے رہے، مز ے لوٹتے رہے اور عوام محرومیوں اور استحصال کا شکار ہوتے
رہے۔انھیں یہ کہہ کر طفل تسلیاں دیتی جا تی رہیں کہ بادشا زمین پر خدا کا
نائب اور ظلِ الہی ہے لہذا س کی حکم عدولی اور بغاوت خدا کی بغاوت کے
مترادف ہے۔ملا ازم نے اس تصور کو راسخ کرنے اور عوام کو شہنشاؤں کا غلام
بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا کیونکہ ان کی دال روٹی اسی تصور کو عام
کرنے سے جڑی ہوئی تھی۔
بیسویں صدی میں اسلامی ممالک میں جمہوریت کا تصور عام ہوا تو ہماری سیاسی
قیادتوں نے جمہوری روش کا اظہار تو کیا لیکن عوام کو غلام بنانے اور کمتر
شہری سمجھنے کے اپنے پرانے تصور میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی۔عوام پہلے
شہنشاؤں کے غلام ہوتے تھے اب وہ سیاسی جماعتوں کے غلام بنا لئے گئے۔ملکی
خزانے پر دل کھول کر ہاتھ صاف کئے گئے او ر ذاتی دولت میں بے پناہ اضافہ کر
لیا گیا۔احتساب اور جوابدہی کے کسی نظام کو قائم کرنے کی کوششیں نہ کی گئیں
بلکہ ملکی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کیا جانے لگا اور اس میں حکومت
اور اپوزیشن دونوں شامل ہو گئے۔ایک ایسا فلسفہ گھڑا گیا جس میں ا قتدار کو
مخصوص خاندانوں تک محدود کر لیا گیا۔اقتدار کی باریاں مقرر ہو جائیں تو پھر
عد ل و انصاف کا خون ہونا فطری عمل ہوتا ہے اور پاکستان میں عدل و انصاف کا
جس بے دردی سے خون ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔تھانے کچہریوں اور
دوسرے اہم اداروں سے عوام کو ا نصاف ملنے کی ساری امیدیں دم توڑتی جا رہی
ہیں اور ان کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔اس سے بڑا المیہ
اور کیا ہو سکتا ہے کہ۱۶ جون کو پاکستان کے سب سے اہم شہر لاہور کے محلے
ماڈل ٹا ؤن میں منہاج القرآن کے ۱۶ افراد کوہلاک کر دیا جاتا ہے اوراس کی
ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تو منہاج القرآن کو ایف آئی درج کروانے کیلئے
لانگ مارچ کا سہارا لینا پڑتاہے اور پھر فوج کی مداخلت پر ایف آئی آر تو
درج ہو جاتی ہے لیکن جن کے خلاف درج ہوتی ہے انھیں گرفتار کرنے کا حکم صادر
نہیں ہوتا ۔یہ کس طرح کا انصاف ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی قاتل
قانون کی عدالت میں پیش نہیں کئے جا سکے۔ قانون کی نظر میں تو ہر شہری
برابر ہوتاہے ،اس کی نظر میں حاکم اور محکوم میں کوئی فرق نہیں ہوتالیکن بد
قسمتی سے پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایسا نہیں ہے۔سیاسی مخالفین کیلئے تو
قانون فورا حرکت میں آ جا تا ہے لیکن حکمرانوں کیلئے قانون گونگا اور بہرہ
بن جاتاہے۔اس کی سب سے بڑی مثال ذولفقار علی بھٹو کی ہے جس میں چیف مارشل
لاء اڈ منسٹر یٹرجنرل ضیا الحق نے انھیں قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث
کر کے پھانسی پر لٹکا دیا۔جنرل ضیا الحق چونکہ ذولفقار علی بھٹو کی طسماتی
شخصیت سے خوفزدہ تھا لہذا اس کا یہ فعل اپنے اقتدار کو بچانے کی ایک کوشش
تھی۔اگر ایسانہ ہوتا تو ذولفقار علی بھٹو کو کبھی پھانسی نہ ہوتی۔میاں محمد
نواز شریف کے ساتھ تو ذولفقار علی بھٹو والا معاملہ نہیں ہوا تھا بلکہ
انھیں جلا وطنی کا حکم سنا کر جنرل پرویز مشرف نے اپنے راستے سے ہٹا دیاتھا
لیکن چونکہ ذو لفقار علی بھٹو نے نے جلا وطن ہونے سے انکار کر دیا تھا لہذا
ان کیلئے ایک ہی راستہ باقی بچتا تھا کہ انھیں پھانسی دیکر اپنی راہ سے ہٹا
دیا جائے اور جنرل ضیا لحق نے امریکی اشیرواد سے یہ راہ اپنائی ۔،۔
پاکستان میں میاں برادران کے بارے میں ہر شخص کو علم ہے کہ ا قتدار میں آنے
سے قبل ان کے پاس کتنی دولت تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کے ہاں دولت
بڑھنے کو پر لگ گئے اور اب پاکستان کے امیر ترین افراد میں ان کا شمار ہو
تا ہے۔ان کی یہ دولت کیسے بڑی اور حکومتی مشینری نے اس اس میں کیا رول ادا
کیااس سے ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے لیکن اس کے باوجود ان کی جماعت کا کوئی
شخص ان سے یہ پوچھنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ جناب آپ کے پاس جو بے تحاشہ
دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں یہ کہاں سے آئی ہے کیونکہ آپ جو ٹیکس ادا کرتے
ہیں وہ آپ کی دولت کے ساتھ تال میل نہیں کھاتا؟میاں برادران کے خلاف مشرف
دور میں کچھ مقدمات نیب میں رجسٹر ضرور ہوئے لیکن ان پر عمل در آمد کبھی
نہیں ہوا کیونکہ مک مکاؤ کی سیاست میں اس طرح کے مقدمات کی شنوائی نہیں ہو
سکتی۔ آصف علی زرداری کا حال بھی میاں برادران سے مختلف نہیں ہے۔ان کا شمار
بھی امیر ترین افراد میں ہو تا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتاکہ کسی سیاسی جماعت
کے قائد، صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم،وفاقی وزیر،وزیرِ اعلی یا کسی ممبر
پارلیمنٹ کو کبھی سزا ہو ئی ہو۔یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ انتقام کی پیاس
بجھانے کیلئے کچھ افراد کے خلاف مقدمات ضرور قائم کئے گئے لیکن ان کا کوئی
نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا کیونکہ پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کی وجہ سے مقدمہ آگے
نہیں بڑھتا ۔ یہ بات صرف میاں برادران کیلئے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ملک کی
دوسری اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اس حمام میں ننگے ہیں اور ان کی
دولت میں اضا فے کی ہوش ربا کہانیاں بر سرِ عام ہیں لیکن ان جماعتوں کے
کارکن اپنے قائدین کو فرشتہ ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں ۔وہ خدا کا انکار تو
کر سکتے ہیں لیکن اپنی قیاد ت کے خلاف کوئی بات سننے کیلئے آمادہ نہیں ہوتے
کیونکہ ان کے اپنے مفادات بھی ان کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ۔ یوسف رضا گیلانی
کو وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے تو محض اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے قائد
آصف علی زرداری کے پانچ سو ملین ڈالر کی وطن واپسی کیلئے سویس حکومت کو خط
لکھنے سے انکار کیا تھا ۔ان پر تو ہینِ عدالت کا مقدمہ چلا تھا اور اس
مقدمے میں سپریم کورٹ نے انھیں پارلیمنٹ کا ممبر بننے سے نا اہل قرار دے
دیا تھا۔ان پر کسی مالی بد عنوانی کا مقدمہ نہیں چلا تھا بلکہ انھیں عدالت
کی حکم عدولی کی وجہ سے سزا ہوئی تھی ۔ان کے بارے میں بے شمار کہانیاں اور
سکینڈل منظرِ عام پر آئے لیکن ان کا کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو سکا کیونکہ ان
کا تعلق بھی حکمران طبقے سے ہے اور حکمران طبقہ ایک مقدس گائے ہے جسے چھونے
کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے کرپٹ طرزِ عمل
سے پاکستان کا جمہوری نظام اپنا وجود قائم رکھ پائیگا یا کوئی غیر مرئی
ہاتھ اسے تہہ و بالا کردیگا؟ |
|