انتہاپسند نریندرمودی کے
برسراقتدارآنے کے بعدبھارت میں علیحدگی کی تحریکوں میں ایک بارپھرزندگی کی
لہردوڑگئی ہے اوربھارتی انتہاپسندوزیراعظم کی پالیسیوں کے ردّعمل میں بھارت
کے نقشہ میں کئی ایک تبدیلیاں ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف
آسام،ناگالینڈاورتری پورہ وغیرہ میں نکسل باڑیوں نے پوری قوت سے بھارتی
ریاست پر حملے شروع کر رکھے ہیں اور ۸ریاستوں میں ١٦علیحدگی پسند تحریکوں
نے بھارتی ریاست کا بھرم اڑاکررکھ دیاہے وہیں بھارت کی سب سے پرانی تحریک
آزادیٔ کشمیرمیں بھی نیا جوش وجذبہ ابھرنے لگاہے۔اس کے ساتھ ساتھ کینیڈاسے
امرتسرتک سکھ نوجوان بھی ایک بارپھر خالصتان کے حصول کیلئے میدان میں اترنے
کیلئے تیاربیٹھے ہیں جس کاآغازہزاروں سکھوں نے برطانیہ پارلیمنٹ کے سامنے
دھرنے سے شروع کردیاہے۔
بھارتی ریاست کے چاروں طرف آزادیٔ کی تحریکوں کے الاؤدیکھ کربھارت سرکارکے
ساتھ بھارتی میڈیاکی بھی سٹی گم ہو گئی ہے اوروہ ان کے پس پردۂ کبھی
پاکستان اور کبھی چین کا ہاتھ تلاش کررہے ہیں۔بھارتی میڈیاکایہ دعویٰ خوف
کی علامت بناہواہے کہ پاکستان اورچین کی مشترکہ ضرورت ہے کہ پاکستان
اوربھارت کے درمیان خالصتان قائم ہو جائے اورخالصتانیوں کی جانب سے ریفرنڈم
٢٠٢٠ء کے نعرے نے دہلی سرکارکے ہوش اڑاکررکھ دیئے ہیں اورانہیں اپنی دھرتی
ماتاکے بٹوارے کا یقین ہونے لگاہے جس کے سبب جہادی قیادت کوبدنام کرنے کی
خاطرالزام تراشی کازنانہ طریقہ بھی آزماڈالاگیاہے۔
بھارت سے آمدہ اطلاعات کے مطابق بھارت کی ٨ جنوب مشرقی ریاستوں
اروناچل،پردیش،آسام،ساقی پور،ناگالینڈ،تھری پورن،سیگھالیہ اور میزوروم میں
جدوجہدآزادی کرنے والوں کی سرگرمیوں میں شدت آنے کے سبب وہاں مزید
فورسزبھیجی جارہی ہیں۔علیحدگی پسندوں کے حملوں کے خوف سے ان ریاستوں میں
جانے والی بھارتی ٹرینوں پر سے پرچم بھی ہٹادیاگیاہے۔ فورسزسے جھڑپوں
کاسلسلہ شدت اختیارکرتا جارہاہے جس کے سبب بھارتی ریاست کوپریشانی
کاسامناہے اوروہ الزام لگارہی ہے کہ چین ان علاقوں میں دہشتگردی کروارہاہے
۔اسی طرح مقبوضہ کشمیرمیں گزشتہ برس ١٤/اگست کے بعدپاکستانی پرچم لہرائے
جانے کی تحریک شدت پکڑگئی ہے اور بھارتی حکومت کی جانب سے گرفتاریوں
اورچھاپوں کے باوجودپرچم لہرائے جانے کے عمل میں کوئی کمی نہیں آئی۔
پوری وادیٔ عملاًپاکستان کے حق میں ریفرنڈم کاماحول پیش کررہی ہے ۔ایسے میں
بھارتی میڈیامیں تحریک کمزورپڑنے کے اعلانات کے بعدمقبوضہ کشمیر کے
نوجوانوں نے جہادی یونیفارم کے ساتھ اپنی تصاویرمختلف ویب سائٹس پرجاری
کرنی شروع کردی ہیں،جس سے بھارتی سٹی گم ہوگئی ہے۔کشمیری نوجوانوں میں
کشمیرمیں ہی قائم کردہ تربیتی مراکزجوائن کرنے کے رحجان میں اضافہ
ہورہاہے،جسے روکنے کی خاطربھارتی حکومت نے گھرگھر سروے شروع کررکھاہے
اورکشمیرمیں گھروں سے غائب ہوجانے والے نوجوانوں کی فہرستیں تیارکی جارہی
ہیں مگراس سے کوئی فرق نہیں پڑرہا۔
کشمیریوں کی جانب سے پہلی بارسیاسی اورعسکری دونوں محاذوں پر بھرپور پیش
رفت کی تیاریوں کے سبب بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کا شکارہے کیونکہ عالمی سطح
پر پاکستان دباؤڈالے ہوئے ہے کہ بھارت اگرسینٹرل ایشیاکیلئے راستہ
اوراکنامک کوریڈورکے ثمرات میں حصہ چاہتاہے توتوکشمیرمیں استصواب رائے
کرائے ورنہ اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔اس بوکھلاہٹ میں بھارت نے اپنی
دہشتگردانٹیلی جنس ''را'' کے سابق سربراہ سے کشمیرجہادی قیادت کے خلاف
غیراخلاقی الزامات بھی لگوائے مگربے سود،کیونکہ جن پر الزام عائدکیے گئے وہ
اس وقت بھی میدان میںنہ صرف اپنے پورے قدسے کھڑے بھارت سرکارسے نبردآزماہیں
بلکہ اوفامیں پاک بھارت سربراہ ملاقات کے بعدجاری ہونے والے اعلامیہ کے
بعدپوری جرأت کے ساتھ اپنے تحفظات کاظہارکرتے ہوئے تاریخ میں پہلی مرتبہ
پاکستانی ہائی کمیشن کی عیدملن پارٹی میں احتجاجاً شرکت سے انکارکردیاہے ۔دوسری
جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پہلی بارکشمیرپرآن گراؤنڈرپورٹ پیش کرکے بھارت
سرکارکوساری دنیا کے سامنے برہنہ کردیاہے۔کشمیرکے ساتھ ساتھ خالصتان میں
بھی انتہائی ہلچل دکھائی دی جارہی ہے۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ جوفاسق کمانڈوپرویزمشرف کی عنایات کے سبب گزشتہ دو عشروں
سے یہ سمجھ کرمزے سے جھوم رہی تھی کہ اس نے سکھوں کی تحریک کوکچل دیاہے
اوربھارتی کارپوریٹ سیکٹرکی آنکھوں کا تارامودی بھی خوش تھاکہ کارپوریٹ کے
نیچے گندچھپ گیاہے۔ ایک طرف وہ دنیاکوباور کرا رہے ہیں کہ بھارت میں سب
اچھاہے لیکن دوسری طرف وہ پورے بھارت پر ہندتواکارنگ چڑھاناچاہتے ہیں۔
مسلمانوں سے کہاجارہاہے کہ وہ پاکستان چلے جائیں ۔عیسائیوں اوران کے
کلیساؤں پرحملے ہورہے ہیں۔عیسائی لڑکیاں گینگ ریپ کاشکار ہو رہی ہیں اوریہی
برتاؤ باقی اقلیتوں سے بھی ہورہاہے۔
بھارت اپنی فوج کوآزادکشمیرپرچڑھائی کیلئے تیارکررہاہے ۔اگرپاکستان کی طرف
سے انتہائی سخت جواب نہ ملاہوتاتواب تک آزادکشمیرپر حملہ ہوچکا ہوتا۔ یہی
وجہ ہے کہ پاک بھارت سرحدوں پرآئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جس کے مؤثرجواب
کے بعدبھارتی سیناکے ارادے خاک میں ملادیئے جاتے ہیں۔ابھی حال ہی میں بھمبر
آزادکشمیرکی سرحد پربھارتی جاسو س طیارے کومارگرانے کے بعدفوری
طورپرپاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنرکو دفترخارجہ میں طلب کرکے سخت
تنبیہ بھی کی گئی ہے۔دوسری جانب سکھ علیحدگی پسندخالصتان تحریک اب ایک
بارپھراٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایک نئے اندازاورنئے جوش و خروش کے ساتھ ٨٠ء
کی دہائی والی تحریک مسلح جدوجہدمیں تبدیل ہوگئی تھی تاہم اب اس کا
نیاانداز سیاسی ہے البتہ منزل خالصتان کاقیام ہی ہے کیونکہ سکھ قوم اب اس
سے کم کسی چیزپرآمادہ نہیں۔ اسی لئے اب ہرسکھ کی زبان پرریفرنڈم ٢٠٢٠ء
کانعرہ ہے کہ پنجاب سکھ قوم سے پوچھاجائے کہ وہ آزاد مملکت خالصتان کے حق
میں ہے یابھارت کے ساتھ ہی زندگی بسرکرناچاہتی ہے۔امریکا،برطانیہ ،جرمنی
اورکینیڈامیں مقیم سکھ غیرمعمولی طورپرریفرنڈم ٢٠٢٠ء کی تحریک میں سرگرم
کرداراداکرتے ہوئے بڑے مظاہرے اوردیگرپروگرامزمنعقدکررہے ہیں۔
پاکستان اورمقبوضہ کشمیرمیں بھی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔٦جون کوگولڈن ٹیمپل
امرتسرمیں بڑی تعدادمیں سکھ جمع تھے جہاں وہ خالصتان زندہ باد،لے کررہیں گے
خالصتان،بن کررہے گاخالصتان کے پرجوش شگاف نعرے لگا رہے تھے۔مودی سرکارکے
حکم پرپولیس نے مظاہرین کی زبان بندی کراناچاہی تووہ مشتعل ہوگئے ،یوں سکھ
نوجوانوں اورپولیس میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ایک بھارتی اخبارکی رپورٹ کے مطابق
صوبہ پنجاب کے دارلحکومت امرتسرمیں شیرومائی اکال دل کے حامیوں نے گولڈن
ٹیمپل پر خالصتانی اور ممبرصوبائی اسمبلی دھیان سنگھ مندکی قیادت میں سکھوں
کی روایتی چمکتی تلواروں کو لہراتے ہوئے جونہی خالصتان زندہ بادکے فلک شگاف
نعرے بلندکئے توپنجاب کی پولیس نے جوابی ہلہ بول کر ٢٥نوجوان سکھوں
کوگرفتارکرلیا۔اکالی تخت کے جتھے دارنے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پوری دنیا میں
سکھ کیمونٹی کے گولڈن ٹیمپل بنے ہوئے ہیں ۔ سکھوں کی یہ تحریک اس وقت سامنے
آئی جب بھارتی وزیر اعظم نے حکم دیاکہ آپریشن بلیواسٹارکی برسی کے موقع
پرجرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کانام کسی کی زبان پرنہ ہو چنانچہ ہر ایسی تقریب
کوالٹ دینے کاحکم دیاگیا۔
جموں اورکشمیرمیں بھی سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی تصویرپرمبنی ایک
پوسٹرپھاڑڈالا گیا،جس پربھارت مخالف مظاہرے ہوئے۔یہ مظاہرے اس وقت
پرتشددہوگئے جب پولیس سے جھڑپوں میں ایک سکھ نوجوان ہلاک اور متعدد زخمی
ہوگئے۔وہاں کے سکھوں کاکہناہے کہ تاریخ میں پہلی بار سنت جرنیل سنگھ
بھنڈرانوالہ کی تصاویرچسپاں نہیں کی گئیں ،برسوں سے ان کایہ معمول ہے تاہم
اس بارمودی سرکارکی فرعونیت کی وجہ سے حالات میں بگاڑ پیداہوا ۔ دکھائی یہ
دے رہاہے کہ سرکاری ہتھکنڈوں کی وجہ سے خالصتان کی تحریک میں جان پڑ گئی ہے
اوراب سکھ ایک بارپھرخالصتان کاز کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ سکھ تنظیم
شیرومالی اکال دل کاکہناہے کہ نئی مملکت (خالصتان) پاکستان،بھارت اورچین کے
درمیان بفرنیشن کاکرداراداکرسکتی ہے۔خطے میں امن کیلئے جوہری ہتھیاروں سے
پاک نئی ریاست کاقیام ناگزیر ہے ۔ تنظیم کے سربراہ سمرن جیت سنگھ کاکہناہے
کہ خالصتان تمام قومیتوں کے درمیان امن ومفاہمت کی بہترین مثال ثابت ہوسکتی
ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ وہ بہت جلدخالصتان کانقشہ جاری کریں گے ۔واضح رہے کہ
خالصتان کیلئے جدوجہد شیرومالی اکال دل ہی نہیں کررہی بلکہ خالصہ راج پارٹی
سیاسی جماعت بھی سرگرم ہے جس کے سربراہ ڈاکٹرجگجیت سنگھ چوہان جنہوں
نے٢١سال تک لندن میں جلاوطنی میں بھی خالصتان کی تحریک کوزندہ رکھااوراس کے
بعداچانک واپس بھارتی پنجاب چلے گئے تاکہ سکھوں کے اندرایک مرتبہ پھرآزادی
کا شعور پیداکیا جائے لیکن انتہائی مشکوک اور پراسرارطورپران کی موت واقع
ہوگئی جس کاآج تک سراغ نہیں مل سکالیکن اب ان کی پارٹی جوعدم تشددپریقین
رکھتی ہے،وہ بھی مکمل طورپرخالصتان کی تحریک کیلئے میدان عمل میں کودچکی ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ عرصے میں مغربی ممالک
آزادسکھ ریاست خالصتان کے قیام کے حامی فعال ہورہے ہیں ۔یورپ اورشمالی
امریکاکے ملکوں میں سکھ عسکری پسندتنظیموں کیلئے چندہ جمع کرنے کی
بھرپورمہمات چلائی جارہی ہیں جبکہ بھارتی سفارتکاروں کاکہناہے کہ بھارت
اوراسی طرح بہت سے یورپی ممالک میں ببرخالصہ انٹرنیشنل اور خالصتان
کمانڈوفورس جیسی کالعدم تنظیموں نے اپنے مشن کیلئے نوجوان افراد بھرتی
کرناشروع کردیئے ہیں۔ مغربی ملکوں میں بسنے والے نوجوانوں کو خاص طورپرکیے
گئے انتظامات کے دوران جذبات ابھارنے والی فلمیں مثلاً آپریشن
بلیواسٹاردکھائی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسراپروپیگنڈاموادبھی سنایا اور
تقسیم کیاجارہاہے ۔بھارتی ذرائع کے مطابق اس تشہیری مہم میں کم ازکم ٥٠
سوشل نیٹ ورک سائٹوں اور٢٠ویب سائٹوں کواستعمال کیاجارہاہے گویاسکھ علیحدگی
پسندوں نے ایک مرتبہ پھرطبل جنگ بجاکراپنے فعال ہونے کااعلان کرکے بھارتی
ریاست کے اقتدارکے ایوانوں میں زلزلہ کی کیفیت طاری کردی ہے۔
اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے وابستہ روسی ماہریورس وولہونسکی کہتے ہیں کہ''ایک نسل
گزرجانے کے بعدموجودہ سیاسی حالات بھی علیحدگی پسندی کے رحجان کوپھرسے
ابھارنے میںبڑاکرداراداکرہے ہیں جبکہ بھارت حسب عادت ایک بار پھر آئی ایس
آئی پرالزام عائدکررہاہے کہ وہ بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک کوزندہ
کررہی ہے۔ اس مقصدکیلئے خالصتان کی تحریک ببرخالصہ اور خالصتان زندہ
بادفورس کوجعلی کرنسی اوردیگر سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔آئی ایس آئی
پرالزامات عائدکرنے والے بھارتی حکومت اور اس کے ادارے شایدآپریشن
بلیواسٹارکے اثرات کوبھول رہیں۔
اس وقت سکھ قوم بڑے پیمانے پرسیاسی جدوجہدکے ذریعے اپنے لیے حق خود ارادیت
کامطالبہ کررہی ہے اوران کانعرہ ہے کہ ٢٠٢٠ء میں سکھ علاقوں میں ریفرنڈم
کرایاجائے ۔اس مقصد کی خاطرریفرنڈم ٢٠٢٠ء تحریک زورپکڑتی دکھائی دے رہی
ہے۔کہایہ جارہاہے کہ اگر ریفرنڈم کامطالبہ نہ ماناگیاتوپھرآزادی پسندسکھ
نوجوان بے چین اورمضطرب ہوں گے۔ نوجوانوں کی ایک تنظیم کی طرف سے بھارتی
فضائی کمپنی کے بائیکاٹ کانعرہ بھی سامنے آگیاہے۔ امریکا میں مقیم سکھوں کی
ایک تنظیم سکھس فارجسٹس ریفرنڈم ٢٠٢٠ء کے لیے کام کررہی ہے۔ان کی سرگرمیوں
پر مودی سرکارپابندیاں لگانے کافیصلہ کرچکی ہے ۔ تنظیم کا مؤقف ہے کہ وہ
ناجائزمطالبہ نہیں کررہی بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹرکے عین مطابق ایک
جائزاورقانونی مطالبہ کررہی ہے۔اب ان کانعرہ ہے کہ ایئرانڈیاکیلئے
''ناں''،پنجاب میں ریفرنڈم کیلئے ''ہاں''۔
خالصتان کیلئے ہونے والی مسلح جدوجہدبھارت میں خالصتان تحریک میں اہم
کرداراداکرنے والی بڑی سکھ عسکریت پسندتنظیموں میں ببر خالصہ ہے۔اس میں
سابقہ سکھ فوجی ، پولیس اہلکاراورسکھ مذہبی تنظیموں کے افرادشامل ہیں۔پنجاب
میں کاروائیوں میں اس کانام ہی گونجتا رہا۔ تلوندرسنگھ، پرمارسنگھ،
سکھدیوسنگھ ببراور وداھاسنگھ ببرچوٹی کے رہنما کمانڈرزہیں۔٩٠ء کی دہائی میں
اس کے متعددکمانڈرزمارے گئے جس کی وجہ سے اس صدی کے اواخر تک یہ تنظیم
کمزورپڑگئی اوراس سے وابستہ عسکریت پسندنئی قوت حاصل کرنے کیلئے غیر متحرک
ہوگئے تاہم حالیہ دنوں میں ببرخالصہ کے لوگ نئے سرے سے صف بندی کررہے ہیں
۔انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن بھی خالصتان کے قیام کیلئے جدوجہدکررہی ہے، یہ
برطانوی سکھ نوجوانوں کی تنظیم ہے۔
بھارتی حکومت آئی ایس آئی پرالزام عائدکرتی ہے کہ وہ انٹرنیشنل سکھ یوتھ
فیڈریشن پرخاص توجہ مرکوزکیے ہوئے ہے۔خالصتان کمانڈو فورس بھی ایک اہم
تنظیم تھی تاہم ٩٠ء کی دہائی میں یہ تنظیم بھی کچلی گئی۔خالصتان لبریشن
فورس ١٩٨٦ء میں قائم ہوئی اوراس کے سرگرمیاں آج بھی جاری ہیں۔تنظیم نے
متعدداہم شخصیات کو ہلاک کیا۔خالصتان لبریشن آرمی بھی خالصتان کمانڈو فورس
کااہم ونگ ہے۔ یہ بھی زندہ ہے ،دیگرمتحرک تنظیموں میں ببرخالصہ انٹرنیشنل
سکھ یوتھ خالصتان زندہ باد فورس کے سربراہ رنجیت سنگھ نیتا ہیں ۔ فیڈریشن
دل خالصہ،بھنڈرانوالہ ٹائیگرفورس بھی میدان کارزارمیں سرگرم ہیں۔اس تنظیم
کامقصد پنجاب اوراس سے ملحقہ بھارتی اضلاع پرمشتمل آزاد ریاست خالصتان
کاقیام ہے۔یہ جموں وکشمیرمیں مقیم سکھوں کی تحریک ہے۔بھارت نے اس کے سربراہ
کو٢٠/انتہائی مطلوب افرادمیں شامل کررکھاہے۔
اس وقت اگردیکھاجائے تواروناچل پردیش سے کشمیرتک آزادی کی تحریکیں سرگرم
ہوچکی ہیں۔ بھارتی میڈیاکادعویٰ ہے کہ چین کی ضرورت ہے کہ پاکستان اوربھارت
کے درمیان خالصتان بنادیاجائے لہندا اس وقت خالصتان اورکشمیرکی تحریکوں
کوروکناممکن نہیں رہا۔ دکھائی یہ دیتاہے کہ کشمیر اور خالصتان کی تحریکوں
کے فیصلے کاوقت آچکاہے اورتحریک اپنے حتمی مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارت
کوخوف یہ ہے کہ اگرکشمیراورخالصتان میں ریفرنڈم ہوگیاتوگجرات کے مسلمان بھی
اٹھ سکتے ہیںاوریہی خوف لالہ کی دھوتی گیلی کیے جارہی ہے لیکن اس مرعوبیت
اوربزدلی کاکیاعلاج کیاجائے کہ اوفامیں پاک بھارت وزیراعظم کی ملاقات کے
مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا تذکرہ تک نہیں جبکہ موجودہ حالات میں تمام
مضبوط کارڈپاکستان کے ہاتھ میں تھے ۔کیاکسی نے جناب سیدعلی گیلانی کے دل
میں جھانک کردیکھاکہ اس عمر میں ان کے دل کوچرکے لگانے والے اپنے ہی ہیں!
دوست اتنے قریب ہیں میرے
کہ میری آستیں میں رہتے ہیں |