تصنیف "وہاب نامہ" کے بارے میں مختصر جائزہ
(Dr.Nasreen Shagufta, Karachi)
علم و ادب اور کتاب دوست کی
حیثیت سے عبدالوہاب خاں سلیم کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا
جاتا رہے گا۔اس کے علاوہ وہاب صاحب ایک فرشتہ صفت انسان کی حیثیت سے بھی
متعارف ہوئے ہیں۔ وہاب نامہ پڑھنے کے بعد ان کی شخصیت مکمل طور پر سامنے
آئی اور یہ کارنامہ وہاب نامہ کے مرتب محترم وقار مانوی صاحب [نئی دہلی] کے
حصہ میں آیا کہ انھیں خلوص نیت کے ساتھ اس بات کا خیال آیاکہ عبدالوہاب خاں
سلیم کی جملہ علمی و ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کریں۔ اس سلسلے میں وقار
مانوی صاحب نے وہاب نامہ کے لئے مضمون نگار، ادباء اور شعراء سے تعارفی
مضامین لکھوائے۔ اس کے علاوہ چند مضامین کتب، اخبارات اور ادبی رسائل سے
لئے گئے ہیں۔عبدالوہاب خاں سلیم سے ٹیلیفون پر ہونے والی بات چیت اور خطوط
کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں پاکستان اور ہندوستان کے ۴۵ اہل قلم
کے مضامین شامل کئے ہیں۔
وہاب نامہ کے مرتب وقار مانوی ۱۹۳۹ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ مشہور شاعر
اور مصنف بھی ہیں۔ تصنیف "وقار آگہی" ۱۹۹۱ء میں انجمن ترقی اردو سے شائع
ہوئی۔ ویب سائٹ پر بھی ایک ای بک شائع ہو چکی ہے۔ غزل پر چھ کتابیں اور ایک
ویڈیو منظر عام پر آ ئی۔ بقول وہاب صاحب "وقار مانوی کے نام سے معروف ہیں۔
صاحب دیوان شاعر ہیں۔ علامہ راشد الخیری [مرحوم] کے خاندان سے ہیں"۔
وہاب نامہ کے مرتب مشہور شاعر وقار مانوی زیر تبصرہ کتاب "وہاب نامہ" کو
عبدالوہاب خاں سلیم کی ادبی اور فلاحی کارگزاریوں کا اشاریہ قرار دیتے ہیں۔
انتساب لائق و فائق والدین کی ہونہار اور باشعور دختر ڈاکٹر ثروت سلیم کے
نام جنکی صلاحیتوں پر والدین اور تمام عزیز و اقارب کو ناز ہے۔
زیر نظر کتاب "وہاب نامہ" دراصل عبدالوہاب خاں سلیم کی ادبی اور فلاحی
کارگزاریوں کا اشاریہ ہی نہیں بلکہ ایک علم دوست اور انسان دوست شخص کی
مکمل زندگی کا آئینہ ہے۔ "وہاب نامہ " کے قارئین کوان کی زندگی کا ہر رخ
روشن، صاف اور سچا نظر آتا ہے۔
عبدالوہاب خاں سلیم ۶ فروری ۱۹۳۹ء کودریا باد، ضلع بارہ بنکی یوپی ہندوستان
میں پیدا ہوئے۔پاکستان بننے کے چار سال بعد ۱۹۵۱ء میں ہجرت کی۔ ابتدائی و
ثانوی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی۔ ڈپلومہ لائبریری سائنس میں ۱۹۶۰ء میں
پنجاب یونیورسٹی سے اور ماسٹرز ۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی سے کیا اور تیسری
پوزیشن حاصل کی۔ جامعہ کراچی میں کچھ عرصہ لائبریری سائنس کی تدرریس کے
فرائض انجام دیئے۔ ملازمت کا آغاز پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۶۰ء میں کیا۔اس کے
بعد ۱۹۷۳ء میں ملازمت کے لئے امریکہ روانہ ہو گئے۔
"وہاب نامہ" کے مضامین میں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔جس میں وہاب صاحب
کے استاد ،دوست و احباب نے اظہار عقیدت کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری [امریکہ] اپنے مضمون "عبدالوہاب خاں
سلیم"میں لکھتے ہیں،"لوگ جب کبھی کسی شخص کے اوصاف اور خوبیاں بیان کرتے
ہیں تو اس کی غیر معمولی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں جو عام افراد سے منفرد
ہوتی ہیں۔ ایسے ہی میرے ہونہار شاگرد عبدالوہاب خاں سلیم ہیں جنھوں نے نہ
صرف مجھے بلکہ بے شمار افراد کو اپنا شیدائی اور گرویدہ بنا لیا۔ میں انکی
شفقت، محبت، سخاوت اور صلہ رحمی سے بے انتہا متاثر ہوں۔ میں ان سے پہلی بار
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے اجلاس ۱۹۶۱ء میں لاہور میں ملا تھا۔ بہت
خوش اخلاق، مہمان نواز اور ملنسار معلوم ہوئے"۔
عبدالوہاب خاں سلیم کو ادبی کتابوں سے شغف ہے۔ عاشق کتب کے ساتھ ساتھ
مصنفین کو سرہانے میں کہیں بھی کوتاہی نہیں برتی۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی[کراچی] اپنے مضمون "ایک کتاب دوست" میں تحریر کرتے
ہیں کہ "وہاب صاحب نے مصنفین کی حوصلہ افزائی کی۔جس کے باعث انکی تخلیقات
منظر عام پر آسکیں۔ صہباء اختر نے نظم "کتابیں" میں مصنفین کے بارے میں کیا
خوب کہا،
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم
جو کرتے ہیں زندہ کتابیں رقم
کتابوں میں جس نے اضافہ کیا
سر طاق فن اک دیا رکھ دیا
عبدالوہاب خاں سلیم اللہ کی وحدانیت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ خوف خدا کے
جذبہ سے سرشار مذہبی ذہن کے مالک ہیں۔ متعدد عمرے اور حج کر چکے ہیں۔ سنا
ہے ہر سال ہی زیارت بیت اللہ کو جاتے ہیں"۔
بقول ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی "عبدالوہاب خاں سلیم کتابوں کے دیوانے ہیں۔
اچھی کتاب یا ان کے خصوصی موضوعات پر کوئی کتاب انکے علم میں آجائے تو وہ
کسی نہ کسی طرح اسے حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان اور ہندوستان
میں متعدد ایسے دوست بنائے ہوئے ہیں جو انکی خواہش کی تکمیل کو ممکن بناتے
ہیں۔ میں بھی اسی قسم کا فریضہ ان کے لئے انجام دیتا ہوں"۔
وہاب صاحب کو میں نے ایک علم دوست اور فرشتہ صفت انسان کی حیثیت سے پایا۔آپ
کسی بھی مصنف کی حوصلہ افزائی اور کسی بھی غریب و ضرورت مند کی مدد کے لئے
ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
سید معراج جامی[کراچی] اپنے مضمون " درد دل کے واسطے پیدا کیا وہاب کو" میں
عبدالوہاب خاں سلیم کے بارے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "
ہم دونوں کے تعلقات پر ماہ و سال کی خاصی گرد پڑ چکی ہے۔میں اس دوران وہاب
صاحب کی طبیعت، عادات، فطرت اور مزاج سے بہت زیادہ واقف ہو گیا ہوں اور اب
میں یہ باتیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ
وہاب صاحب ایک درد مند دل رکھتے ہیں۔
وہاب صاحب نے ایک طویل مدت کمایا مگر اسے اپنے پاس جمع نہیں رکھا۔
وہاب صاحب میں وضع داری بہت زیادہ ہے۔
وہاب صاحب میں قطعی کوئی گھمنڈ، غرور اور بڑاپن نہیں ہے۔
وہاب صاحب کی سوچ مثبت، قلب گداز، ذہن کشادہ، عمل صالح اور زبان نیک ہے۔
اگر ان میں دولت کمانے کی طلب تھی تو یہ تمنا بھی تھی کہ کمائی ہوئی دولت
کو اپنے پاس جمع نہیں کرنا، اس میں نوع انسانوں کا بھی حق ہے اور اس حق کی
ادائیگی بھی فراخ دلی سے کرنی ہے تنگ دلی سے نہیں"۔
معراج جامی اسی مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں "وہاب صاحب خلق خدا کے لئے
سائبان ہیں۔انکی کشادگی،خلوص اور دوستی کی روشنی میں مجھے یہ معلوم ہے کہ
وہاب صاحب ایک انسان ہونے کا اعزاز اور اشرف المخلوقات ہونے کا بھی حق ادا
کر رہے ہیں کیونکہ بقول ایں جناب،
جس کے دل میں درد ہو جامی زمانے کیلئے
آدمی وہ بالیقیں و بے گماں بخشا گیا
عبدالوہاب خاں سلیم کو کتابیں جمع کرنے کا شوق جنون کی حد تک ہے۔ مختلف
اداروں میں بھی گوشہ وہاب قائم کروائے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر[کراچی] اپنے مضمون "برادر بزرگ" میں تحریر
کرتی ہیں، "میرے اور وہاب صاحب کے درمیان قدر مشترک کتاب داری کا ذوق ہے۔
انھیں کتابیں خریدنے، پڑھنے اور جمع کرنے کا ذوق ہی نہیں جنون بھی ہے۔ اپنے
پہلے خط میں انھوں نے مجھے اطلاع دی تھی کہ ان کے پاس پانچ ہزار کتب کا
ذخیرہ ہے۔ اس وقت میری ذاتی لائبریری میں تقریبا دو ہزار کتابیں تھیں۔ آج
ان کے پاس دس ہزار کے لگ بھگ کتابیں ہیں اور میرے پاس چار ہزار۔ میرے پاس
لائبریری کے محدود ہونے کی سب سے بڑی وجہ محدود مکانی گنجائش ہے"۔
اسی مضمون میں آگے لکھتی ہیں کہ "وہاب صاحب کے کتب خانہ کی خصوصیت یہ ہے کہ
اسفار حج و عمرہ کا یہ سب سے بڑا ذاتی ذخیرہ ہے۔ انگریزی و اردو میں لکھا
جانے والا ہر سفر نامہ حج و عمرہ انکے کتب خانہ میں موجود ہے۔اس کے علاوہ
خود نوشت، شخصی کتب خانے، مجموعہ، مکاتیب اور روز نامچے وغیرہ سے بھی
دلچسپی کی وجہ سے ہر ایسی کتاب حاصل کرنے کے لئے جان سے گزر جانے کا حوصلہ
رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے انڈیا اور پاکستان کے تقریبا ہر ایسے شخص سے انکا
رابطہ ہے جس میں علمی ذوق بھی ہو اور سلیقہ کتاب داری بھی"۔
ڈاکٹر نگار اپنے شعبہ میں قائم گوشہ وہاب کے بارے میں بتاتے ہوئے تحریر
کرتی ہیں " جب میں شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کی صدر بنی تو انھوں نے
مبارک باد کا خط لکھا پھر فون پر بھی بات کی اور یہ پیش کش کی کہ اس موقعہ
پر شعبہ کی لائبریری میں ایک گوشہ قائم کرنا چاہتا ہوں ۔ جس میں میری طرف
سے عطیہ کردہ کتب رکھی جائیں لہذا ۲۰۰۲ء میں شعبہ اسلامی تاریخ میں "گوشہ
عبدالوہاب خاں سلیم" قائم کیا گیا۔ اس میں اب تک دو ہزار سے زائد کتب جمع
ہو چکی ہیں۔شعبہ اسلامی تاریخ کے طلباو طالبات کےلئے وظائف کا اجرا بھی
انھی کی طرف سے تھا۔ انھوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ میرے دور صدارت
میں وہ ذہین مگر ضرورت مند طلبا و طالبات کو وظائف دینا چاہتے ہیں۔ لہذا
میرے دور صدارت کے سات سالوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔جس سے متعدد طلبا و
طالبات فیض یاب ہوئے"۔
خطوط نویسی میں وہاب صاحب کا کوئی مد مقابل نہیں۔ مکتوب الیہ کو خوش کرنے
کا قرینہ آتا ہے۔
ڈاکٹر قراۃ العین طاہرہ کا مضمون وہاب نامہ میں "کردار کے غازی۔ جناب
عبدالوہاب خاں سلیم" کے عنوان سے شائع ہوا، اس میں لکھتی ہیں، " عصر موجود
میں آپ مکتوب نگاری میں سر فہرست جانے جاتے رہے۔ پاک و ہند کے سیکڑوں
ادیبوں، دانش وروں اور کتاب دوستوں کے پاس آپ کے بے شمار خط موجود ہیں۔
انھیں یکجا کرنا اور انکی اشاعت تحقیق کا اہم موضوع ہوسکتا ہے"۔آخر میں ان
کی خوبیاں بیان کرتی ہیں،" عبدالوہاب خاں سلیم جیسی علم پرور، کتاب دوست،
کتاب خواں، کتاب دار شخصیت اس قحط الرجال کے دور میں ایک نعمت و انعام سے
کم نہیں"۔
عبدالوہاب سلیم دوسروں کی خدمت کرنا جانتے ہیں کروانا نہیں۔مطالعہ کتب کے
وقت موضوع اور مصنف دونوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
"ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں" یہ عنوان ہے جناب تصور حسین جنجوعہ کے
مضمون کا۔وہاب صاحب کے بارے میں تحریر کرتے ہیں، "ان کی جس عادت نے مجھے
خاص متاثر کیا وہ انکا کسی پر بوجھ نہ بننا ہے۔ اگر کبھی میں نے معمولی سے
معمولی چیز کے دام ادا کرنے کی کوشش کی تو فورا انھوں نے یہ فرماتے ہوئے
روک دیا کہ بھئی میں ریٹائر آدمی ہوں۔اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔تمہارا پیسہ
تمہارے بچوں کے لئے ہے"۔آگے لکھتے ہیں، "عبدالوہاب خاں سلیم سطحی طور پر
کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے، بلکہ وہ کتاب میں گم ہو جاتے ہیں۔عام لوگ تو
صرف کتاب کا مطالعہ کرنے تک محدود رہتے ہیں مگر خاں صاحب مصنف کی شخصیت کا
مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ انھیں متعدد اہل قلم کی زندگیوں کے بہت سے واقعات
معلوم ہیں۔ اردو ادب پر تحقیق کرنے والوں کو خاں صاحب سے بہت سی ایسی
معلومات دست یاب ہوسکتی ہیں جو دیگر منابع یا مصادر سے نہیں مل سکیں"۔
عبدالوہاب سلیم کتاب دوست ہونے کے ساتھ ساتھ غریبوں ، بیوائوں اور یتیموں
کی خدمت میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔
فیروزالدین احمد فریدی[کراچی] کے مضمون کا عنوان ہے، "وہاب صاحب" انکی
انسان دوست صفت بیان کرتے ہیں،" مجھے آج تک حیرت ہے کہ وہاب صاحب کو میری
خادمہ کے لئے اتنی معقول رقم اتنے بر وقت اور اسکے برُے وقت میں بھجوانے کا
خیال کیسے آیا۔ انکے دل میں یہ بات کس نے ڈالی؟ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت
نہیں کہ یہ خادمہ ہندو ہے"۔ مزید تحریر کرتے ہیں، "وہاب صاحب کی شخصیت کے
اور بہت سے قابل ذکر پہلو ہیں۔ پڑھنے کا[لکھنے کا نہیں] دیوانہ وار شوق،
دنیا کے کونے کونے سے نایاب یا اچھی کتابیں جمع کرنے کا جنون، جنھیں رکھنے
کی جگہ نہیں رہی، سفرناموں سے عشق کی سرحد چھوتی ہوئی دل بستگی۔ وہ دیگر
مصروف صفات ہیں جنھیں انکے صاف و شفاف سر کے کونڈے پر رکھ کر، انکی من
موہنی شخصیت کا پیڑا، بہت نفاست سےگوندھا گیا ہے"۔
"وہاب نامہ "کے تمام مضامین کے مطالعہ کے بعد قارئین یہ کہنے میں حق بجانب
ہونگے کہ عبدالوہاب خاں سلیم بے انتہا اور منفرد خوبیوں کے مالک ہیں۔سب سے
پہلے اللہ کے نیک بندے اور عاشق رسول ہیں۔ اسکے بعد انکو بہت سارے ناموں سے
پکارا جا سکتا ہے۔ مثلا عاشق اردو ادب،علم دوست، کتاب کے رسیا، انسان دوست،
شہرت سے بیگانہ، کرم فرما، بہترین لائبریرین اوربہترین استاد وغیرہ۔
مرتب کتاب جناب وقار مانوی[دہلی] کتاب کے آخر ی حصے میں اپنے خیالات کا
اظہار "اظہار عقیدت"کے عنوان سے کرتے ہیں، تحریر کرتے ہیں،" میں اکثر سوچتا
ہوں کہ میں طبعا بہت سادہ مزاج تھا مجھے اس دنیا کو اگر کچھ سمجھنے کا موقع
ملا ہے تو وہ بھی محترم عبدالوہاب خاں سلیم کی بدولت اور میں نے خود اسکا
اظہار بھی موصوف سے با رہا کیاہے۔ مجھے اس ضمن میں بھی انکا شکر گزار ہونا
چائیے۔ تجربہ شاہد ہے کہ زندہ رہنے کے لئے اپنے ذوق سے مطابقت رکھنے والی
کوئی نہ کوئی مصروفیت ضرور ہونی چائیے، ورنہ زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ میں
مسلسل چودہ سال سے ریٹائر زندگی گزار رہا ہوں۔ وابستگی کا یہ عالم ہے کہ
ہفتہ دس دن اگر وہاب صاحب کا فون نہیں آتا تو تشویش رہنے لگتی ہے۔اللہ اس
تعلق کو قائم رکھے،آمین۔ ویسے بظاہر تو زندگی اب آخری پڑائو پڑ ہے۔ سدا نام
اللہ کا"
اپنا معمول ازل سے ہے وقار
جس کے ہو جاتے ہیں،ہو جاتے ہیں
زیر نظر کتاب "وہاب نامہ"کے آخر میں گوشہ خطوط، تہنیتی منظومات اور تصاویر
موجود ہیں۔ عبدالوہاب خاں سلیم اور وقار مانوی صاحب اس اعلٰی تصنیف کی
اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ |
|