شاہوں کا کیا' زیادہ تر' عموم پر
آشکار ہی نہیں ہو پاتا۔ کارے قضا‘ کوئی معاملہ‘ کسی کے سامنے آ جائے تو اس
پر نکتہ چینی‘ کھلی حماقت کے مترادف ہوتا ہے۔ یا پھر کسی کم زور کے کندھوں
کا سہارا لیا جاتا ہے۔ صاحب دانش مفادیوں کا یہی وتیرا رہا ہے۔ جان بچاؤ
موج اڑاؤ' ان کا پہلا اور آخری اصول ہوتا ہے۔ ڈھونڈورچی ادارے' شاہوں اور
اہل زر کو' پہلے اور آخری نمبر پر رکھتے ہیں۔ کم زور اور بےزر مظلوم
پہونکے' کسی نمبر پر نہیں اترتے۔ وہ اول تا آخر بےنمبر ہی رہتے ہیں۔
بےنمبری اور بےرنگی کی سر بھی' اول الذکر کے قریبیوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ وہ
ظالم اور استحصال پسندوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اصولی اور باشری راجدھانیوں میں‘ بالا و زیریں طبقہ کے معزز اور معتبر
شورےفا خواتین وحشرات‘ مستعمل شاہی اطوار کی اصول پسندی کو‘ ہاتھ سے جانے
نہیں دیتے۔ ہاں‘ ہاتھ آئے مال کو‘ مستقل طور پر ڈکار جاتے ہیں۔ رشوت‘ بد
دیانتی اور ہر دو نمبری کو‘ بےسرا اور بد وضع نہیں رہنے دیا جاتا۔ رہ گیے
عموم‘ ان کا کیا ہے‘ وہ تو ہزاروں سال سے‘ بےبسی اور بےکسی کی ٹکٹکی پر گزر
بسر کر رہے ہیں۔ گویا وہ لاوارثی اور بےچارگی کے‘ کلی طور پرعادی ہو چکے
ہوتے ہیں۔ اس لیے‘ ان کی چنتا اور کسی قسم کا تردد‘ کوئی معنویت نہیں
رکھتا‘ کیوں کہ معمولی ارتعاش کے بعد‘ فقط چہرے بدلتے ہیں اور کاروان حیات
سابق لایعنیت کی لنگز ٹی بی سے' اسی تابانی سے‘ نبردآزما ہو جاتا ہے۔ کیا
ہوا‘ زبانی کلامی سے زیادہ‘ نہیں رہ پاتا‘ یہ ہی معتوب طبقے‘ شاہوں کے
بانیہ بیلی بن جاتے ہیں۔ ان ہی میں سے‘ نئے کرسی قریب پیدا ہو جاتے ہیں۔
نواب صاحب‘ راجہ صاحب‘ خاں صاحب‘ چودھری صاحب‘ ملک صاحب وغیرہ کے لقب سے‘
ملقوب ہوتے ہیں۔ شاہی باغی کنبوں کے زخم بھی‘ ایک وقت کے بعد‘ مندمل ہو
جاتے ہیں۔ آتے وقتوں میں‘ چند یادوں کے سوا‘ کچھ باقی نہیں رہتا۔
جب کسی بھی حوالہ سے‘ زندگی چل رہی ہے تو اس پر انگلی رکھنا‘ بدامنی کا
رستہ ہی کھولنا نہیں‘ کھلی بغاوت بھی ہے۔ جس شخص کے‘ سوکھی پر گزر اوقات ہو
رہے ہیں‘ تو اسے چوپڑی دینا‘ اس پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔ ایسے تو اس کی
عادتیں ہی بگڑیں گی۔ عیش و نشاط شاہوں اور شاہ والوں کے چونچلے ہوتے ہیں۔
اس حقیقت کو آخر تسلیم کیوں نہیں کر لیا جاتا‘ کہ سوکھی خوروں کو‘ خوب محنت
و مشقت کرنی چاہیے‘ تا کہ شاہ‘ اپنی محبوبوں کے لیے‘ تاج محل اور نور محل
تعمیر کے لیے‘ بیسیوں کے قتل و غارت پر نہ اتر آئیں۔ زندگی صرف ایک بار
ملتی ہے‘ جو مر گیا‘ سو مر گیا۔ کسی مرے کو‘ آج تک واپس آتے‘ کسی نے نہیں
دیکھا۔ اس حوالہ سے‘ زندگی خدا کا انمول تحفہ ہے‘ اسے خواہ مخواہ میں ضائع
نہیں ہونا چاہیے۔ روٹی کے ٹکرے‘ زندگی کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ روٹی کے لیے
فساد کھڑا کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ جان کی امان کے لیے‘ انہیں خود کو
وفادار مشقتی بنائے رکھنا ہو گا۔ یہ ہی سچائی اور یہ ہی حقیقت ہے۔
گیڈروں نے فصلیں برباد کرکے رکھ دی تھیں۔ اکبرے کے دونوں شکاری کتے بھی‘ ان
کے سامنے بھیڑ ہو کر رہ گیے تھے۔ گیڈروں کا غول آتا‘ ایسا چکما دیتا‘ کہ
دونوں کتے‘ بےبس سے ہو کر رہ جاتے۔ اصل میں‘ ان میں سے ایک کتا‘ گیڈر کے
بچے پر ٹوٹ پڑا تھا۔ مادہ گیڈر‘ جو پاس ہی تھی‘ نے اس گستاخ کتے کو شدید
زخمی کر دیا اوراس کی بھاگتے بنی۔ یہ ہی اگر وہ مادہ گیڈر پر ٹوٹ پڑتا‘ تو
یقینا اسے ڈھیر کر دیتا۔ اس دن سے‘ اس کا کھیت پر ہونا یا نہ ہونا‘ برابر
ہو گیا تھا۔ گویا گنتی میں دو کتے تھے‘ ورنہ حقیقت میں‘ ایک کتا ہی کام کر
رہا تھا۔
ماں اپنے بچوں کے لیے' کسی بھی سطع تک جا سکتی۔ اسے ہر صورت اور ہر حالت
میں' بچوں کی جان اور آزادی عزیز ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کر
سکتی ہے۔ اس ذیل میں وہ اپنی جان سے بھی گزر سکتی ہے۔ ہاں مبین اور ببلو
جیسی مائیں بھی ہوتی ہیں' جو بچوں کو بےیار و مددگار چھوڑ کر' ننے چھوہارے
کی خاطر' اپنی ممتا کے چہرے پر' بدقماشی کا طمانچہ مار کر' نئی دنیا آباد
کر لیتی ہیں۔ چھوہارہ ہولڈر یہ نہیں سوچتا' جو اپنے ذاتی بچوں کی نہیں بنی'
اس کی خاک بن پائے گی۔ لکیر کا زہریلا نشہ' اس کی رگ و پے میں اتر کر' اس
کے جملہ حواس معطل کر چکا ہوتا ہے۔ ہر روکنے ٹوکنے والا' انہیں میر جعفر کا
پیٹی بھرا محسوس ہوتا ہے۔
اولاد پر' چھوہارے کو ترجیح میں رکھنے والی مائیں' بہت کم ہوتی ہیں' لیکن
ہوتی ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت کی دعوےدار وہ بھی ہوتی ہیں' حالاں کہ ان
کے کبھی قدم ہی نہیں رہے ہوتے۔ پھر جنت کہاں سے آ گئی۔ بابے شاہ نے ببلو کے
سر پر' پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا' بیٹا جو تم کرنے جا رہی ہو' کسی طور
پر درست نہیں۔ اسے شاہ بابے کی بات زہر لگی۔ اس نے اسے جعلی پیر کہا اور
پھوں پھوں کرتی کمرے سے باہر نکل گئی' حالاں بابے شاہ نے' اس سے ایک اکنی
تک نہ لی تھی اور ناہی' وہ لیتا تھا۔ ببلو نے اسے جعلی پیر مشہور کر دیا'
جس سے' بابے شاہ کی صحت پر رائی بھر اثر نہ پڑا. وہ کون سا پروفیشنل پیر
تھا' جو رزق رک جانے کے خدشے سے پریشان ہوتا۔
بئےگر پیر دھورے شاہ نے' ببلو سے پیسے لیے' بڑے باذوق انداز میں' اس کی ہر
دو اطراف سے پیٹھ سہلائی۔ تعویز' تسلی اور کام ہو جانے کی گرنٹی دی۔ دو تین
مرتبہ جانے کے بعد' وہ اس کی دل و جان سے قائل ہو گئی۔ کام ہو جانے کے بعد
بھی' وہ اس کے در دولت پر' دوسرے تیسرے حاضری دینے لگی۔ شہر بھر میں' اس کی
کرامات کا ڈھنڈورا بھی پیٹا۔ بئےگر پیر دھورے شاہ کے ہاں' عشاق حضرات کی
قطاریں لگ گئیں۔
حکومت بھی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے' یہ شروع سے' گیڈر ماں بھی نہیں
بن سکی۔ یہ ہمیشہ ببلو ماں ہی رہی ہے۔ اسے اپنی اولاد کبھی عزیز نہیں رہی۔
اولاد کی بھوک' پیاس' بےچارگی اور لاوارثی' ان کا کلیجہ ٹھنڈا کرتی آئی ہے۔
ان کی آہیں اور سسکیاں' سامان لطف بنی ہیں۔ گستاخ بچوں کو' زہر پلا کر نشان
عبرت بنانا' ان کا کرتوے رہا ہے۔ پیشاب بند ہو جانے کی صورت میں' اہل دانش
اور حکما کو جیل کا باسی بناتی آئی ہے۔ گویا نالائق اولاد کی ضرورت ہی کیا
ہے۔ گستاخ' نالائق اور نااہل اولاد سے صبر بھلا کو' زندگی کا اصول بناتی
ہے۔ جنتا اپنی اصل میں' رعایا رہی ہے۔ اسے اولاد ہونے کا اعزاز' کبھی حاصل
نہیں ہوپایا۔ زبانی کلامی ہی سہی' حکومت کو ماں کہنا غلط نہیں رہا۔ جیسی
بھی ہو' ماں خیر ماں ہوتی ہے' اس کا احترام لازم ہے۔ ببلو ماں کا احترام'
فرمابرداری اور خذمت گزاری میں کمی کوتاہی' جان لے سکتی ہے۔
میرے سمیت' ہر کوئی' گھر گرہستن ماں کے گن گاتا ہے۔ گھر گرہستن ماں کے بچے'
محنت کے بل بوتے پر' علمی ادبی یا اور حوالوں سے چیتھڑوں میں ملبوس' فاقہ
گرہست' بڑے آدمی تو بن سکتے ہیں' خوش حال بہت یا بہت ہی بڑے آدمی' کبھی بن
نہیں پاتے۔ یہ بڑے آدمی' معاشرے میں گڑبڑی کے سامان پیدا کرتے ہیں۔ حکومتی
امور میں' تو کون میں خواہ مخواہ کے مصداق' چھتر کھاتے ہیں یا ان لوگوں کی
خاطر' اپنے چھوٹے چھوٹے بچے ذبح کرواتے ہیں' جو ببلو ماں کی اولادوں کے
ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ببلو ماں کے بچے' کیا پلتے نہیں ہیں۔ شداد بھی تو پل
ہی گیا تھا۔ ببلو ماں کے بچے' راج کرتے آئے ہیں. راج کرتے آئے ہیں' راج
کرتے رہیں گے اور یہ کرامت بلاشبہ بئےگر پیروں کی ہے۔ ببلو ماں کا استفادہ'
ہمیشہ سے چار دیواری سے باہر کے لیے رہا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے' کسی کو
زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ |