امریکہ اور عالم اسلام۔ قربتیں اور فاصلے
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
جس طرح یہ مقولہ مشہور ہے کہ
پولیس اور حکمرانوں کی دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی، اسی طرح امریکہ کی دوستی
اچھی یا دشمنی اچھی۔ امریکہ کی پالیسی انتہائی خطرناک ہے اس سے دوستی کا حق
ادا کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اسکے حلیف رہے ورنہ کسی بھی
وقت وہ اسکے خلاف کارروائی کرسکتا ہے ۔ امریکی دشمنوں کو بھی چاہیے کہ وہ
امریکہ سے چوکس رہے ۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ امریکہ کے
تعلقات میں کسی قدر بگاڑ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور دوسری جانب امریکہ
اپنے دشمن ملک ایران کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس پر عائد اقتصادی
پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے کئی مخالفتوں کے باوجود پیش پیش دکھائی دے رہا
تھا اور ایران کے ساتھ چھ عالمی طاقتوں کے مذاکرات میں ایران کے جوہری
معاہدے کو محدود کرنے پر راضی کرتے ہوئے اس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیوں
میں نرمی کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ ایران جوہری
طاقت کی حیثیت سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ جمائے ۔ ویسے گذشتہ چند برسوں کے
دوران ایران نے جس طرح شیعہ ملیشیاء کی بھرپور حمایت اور مدد کی ہے اور
کررہا ہے اس سے عالمِ اسلام میں انتشار کی کیفیت پائی جارہی ہے اور مسالک
کی بنیاد پر شیعہ سنی اختلافات میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ امریکہ کی اس
کوشش کے باوجود ایران کے روحانی پیشوا امریکہ کے خلاف وہی لب و لہجہ اختیار
کئے ہوئے ہیں جو معاہدے سے قبل تھا اور انہوں نے رمضان المبارک کے اختتام
پر اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے ملک کے ابھی بھی امریکہ کے ساتھ واضح
اختلافات قائم ہیں اور امریکہ کے بارے میں اس کا موقف تبدیل نہیں
ہوگا۔انہوں نے گذشتہ ہفتے طے پانے والے جوہری معاہدے کے باوجود ’’مغرور‘‘
امریکہ کے بارے میں موقف تبدیل نہ ہونے کی بات کہی۔آیت اﷲ علی خامنہ ای نے
مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کے بارے میں کہاکہ ایران شام، عراق، فلسطین ، یمن
اور بحرین میں متاثرین کی حمایت جاری رکھتے ہوئے انہیں امداد پہنچاتا رہے
گا۔گذشتہ ہفتہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان دو سال کے طویل مذاکرات
کے بعد جوہری معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق کم از کم آئندہ دس سال
کے دوران ایران جوہری پروگرام محدود کردے گا اور اسکے خلاف عائد اقتصادی
پابندیاں نرم کردی جائیں گی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسا محسوس ہوتاہے
کہ ایران کے مذہبی پیشوا اور صدر ایران حسن روحانی اور وزیر خارجہ جواد
ظریف کی پالیسیوں میں تضاد ہے۔
صدر ایران اور وزیر خارجہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے کے
لئے طویل جدوجہد کئے ہیں اور ا2س دو سالہ جدوجہد کے بعد ایران کو کامیابی
ہوئی ہے ویسے اس سے قبل بھی ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے لئے
کوششیں ہوتی رہیں ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران کے تیئں نرم موقف کے سلسلہ
میں تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ اور مشرقِ وسطی خصوصی طور پر سعودی
عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات گذشتہ چند ماہ سے کشیدہ ہوتے دکھائی دے
رہے ہیں۔جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ امریکی پالیسی کے متعلق کہا جاتاہے
کہ وہ کبھی کسی کو اپنا مستقل دوست نہیں بناتا بلکہ جب تک اس کا مفاد جڑا
ہوتا ہے وہ دکھاوے کی دوستی برقرار رکھتا ہے اور اپنے اس دوست سے جس طرح
ممکن ہواپنے مفادِ حاصلہ کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور جب اس کا مفاد
ختم ہوجاتا ہے یا اس کی پالیسیوں سے ٹکراؤپیدا ہوتا ہے تو یہی امریکہ اپنے
اس دوست کے خلاف ایسی دشمنی اختیار کرتا ہے کہ دیکھنے والے دھنگ رہ جاتے
ہیں۔ ماضی میں امریکہ نے جن شخصیات بشمول اسامہ بن لا دن،صدام حسین اور
طالبان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا تھا اور پھر افغانستان، عراق ، پاکستان
اور دیگر ممالک پر جس طرح دہشت گردی کے خاتمے کے نام جو سوپر پاور دہشت
گردی کا مظاہرہ کیا اور ساتھ میں اپنے حلیف ممالک کی تائید و حمایت حاصل
کرتے ہوئے انہیں بھی ان سوپر پاور دہشت گردانہ حملوں میں گھسیٹ لیااور
ہزاروں افراد پر شدید فضائی حملے کرکے انہیں شہید کیا اور انکی کروڑوں کی
املاک اور تاریخی ورثہ کو ملیامیٹ کردیا۔ آج بھی امریکی پالیسی کو جانتے
ہوئے بھی کئی حکمراں امریکہ پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں اور اس سے مدد کے طالب
دکھائی دیتے ہیں۔ شام کی بشارالاسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی کا آغاز
2011میں ہوا اس جنگ میں اب تک کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد بشمول معصوم بچے
اور خواتین ہلاک ہوئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی
ممالک شام میں بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایران
کی تائید و مدد بشارالاسد کو حاصل ہے۔
شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں بچے تعلیم و تربیت سے محروم ہورہے ہیں
اور پناہ گزین کیمپوں کااس قدر بُرا حال ہے کہ انہیں اشیاء خوردو نوش اور
دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء ملنا دشوار ہورہا ہے جس کی رپورٹ اقوام متحدہ
نے دی ہے۔الزام ہیکہ یمن میں بھی ایران ، صدر عبد ربہ ہادی منصور کی حکومت
کے خلاف حوثیوں کی مدد کررہا ہے اور یہ حوثی قبائل شیعہ طبقہ سے تعلق رکھتے
ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عراق، بحرین اور دیگر ممالک میں بھی ایران شیعہ
افراد کو مدد پہنچا رہا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں حکومتوں کے خلاف
آوازیں اٹھ رہی ہیں اور یہاں کی شیعہ برادری حکمرانوں کے خلاف منظم ہورہے
ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک میں قتل و غارت گیری کا بازار گرم ہورہا ہے یہی
نہیں بلکہ شدت پسند تنظیمیں مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ختم کرنے کے
لئے خود کش حملے، بم دھماکے، فائرنگ کے ذریعہ حملے کرتے ہوئے بے قصورعام
شہریوں اورمعصوم بچوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ پاکستان نے جس طرح طالبان نے
پشاور فوجی اسکول پر حملہ کرکے معصوم جانوں کو شہید کرتے ہوئے اپنے گھناؤنے
پن کا ثبوت دیا ،شام میں ایک طرف حکمراں بشارالاسد کی فوج ہے تو دوسری جانب
شیعہ اور سنی شدت پسند تنظیمیں ان کے درمیان لاکھوں عام شہریوں کی ہلاکت
ہورہی ہے اور لاکھوں زخمی ہورہے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں کیونکہ
اقوام متحدہ ہو کہ امریکہ و دیگر مغربی و یوروپی طاقتیں وہ نہیں چاہتے کہ
مسلمان چین و سکون کی زندگی بسر کریں۔ ان کے مقاصد میں یہ شامل ہے کہ
مسلمانوں پر ظلم و بربریت جاری رہے وہ کسی نہ کسی طرح کرب و اذیت میں مبتلا
رہیں۔ آج اسرائیل کا وجود ان ہی مشرقِ وسطی کے ممالک کے پیسہ کے بل بوتے پر
ہے کیونکہ سعودی عرب ، عرب امارات و دیگر عالمِ اسلام کے ممالک کی جانب سے
امریکہ اوردیگر مغربی ویوروپی ممالک سے کروڑوں ڈالرز کے ہتھیارخریدے جاتے
ہیں اور فوجی امداد حاصل کی جاتی ہے۔
اسرائیل کے وجود کے لئے ہر روز لاکھوں ڈالرز کی امداد ضروری ہے جسے امریکہ
پوری کرتا ہے۔ اس طرح امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں مشرقِ وسطی اور دیگر
ممالک میں دوستی ظاہرکرتے ہوئے اپنے معاشی استحکام اوراسرائیل کی بقاء
کیلئے کروڑوں ڈالرز حاصل کررہے ہیں ۔ سعودی عرب شام میں بشارالاسد کی بے
دخلی کے لئے امریکہ پر زور ڈالا اور امریکہ اپنی وہی ڈوغلی پالیسی کو
اپناتے ہوئے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو دھوکا دینا چاہا لیکن اس
مرتبہ سعودی عرب اپنی بات کو منوانے کے لئے امریکہ سے کسی حد تک منہ موڑ
لیا ۔ امریکی صدر بارک اوباما شاہ عبداﷲ کے انتقال کے بعد نئے سعودی
فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کرنے سعودی عرب پہنچے جہاں پر
شاہ سلمان نے اتنی گرم جوشی سے امریکی صدر کا استقبال نہیں کیا جس کا احساس
امریکی صدر اور عالمی سطح کے قائدین کو ہوگیا۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ امریکہ
اپنی دوستی کا ہاتھ ایران کے طرف بڑھا یا جبکہ ایران کے قائد انقلاب علامہ
آیت اﷲ روح اﷲ خمینی نے1979ء میں جب وہ جلا وطنی کی زندگی گزار کر شاہ
ایران کا تختہ الٹنے کے بعدایران پہنچے تو سب سے پہلے انہوں نے امریکہ کو
’’شیطان ‘‘ قرار دیا تھا ۔ جس کے بعد ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بگڑ
گئے ۔ اب جبکہ امریکہ کی کوشش سے ایران پر سے معاشی پابندیاں ہٹائی جارہی
ہیں اور ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو کم کرنے کا وعدہ کیا ہے اس کے باوجود
ایک دوسرے کے خلاف کسی نہ کسی طرح کی بیان بازیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں
چاہے اس کے پیچھے کوئی بھی مقاصد کارفرما ہوں اگر یہ امن کے قیام میں
مددگار ہوتو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ شدت پسند تنظیمیں جو جہاد کے
نام پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں۔ آئے دن پرنٹ، الکٹرانک اور سوشل
میڈیا کی جانب سے جو خبریں پہنچتی ہیں اس کے مطابق اب تک جتنے بھی فائرنگ
کے واقعات، بم دھماکے اور خودکش حملوں کے واقعات عراق، شام، لیبیاء ، یمن،
تیونس، مصر، پاکستان، افغانستان وغیرہ میں ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں اس پر
نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے ان میں مرنے والوں کی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ شائد
ہی کوئی ایسا خودکش حملہ یا بم دھماکہ و فائرنگ کا واقعہ ان ممالک میں ہوا
ہوگا جس میں مرنے والوں کا تعلق دوسرے مذاہب سے رہا ہو، ویسے اسلام میں کسی
بھی بے قصور کو چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اسے تکلیف پہنچانے،
ہلاک کرنے کی اجازت نہیں۔ دوشنبہ کے روزافغانستان صوبہ لوگر میں ایک فوجی
چوکی پر امریکی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں کم از کم آٹھ افغان فوجی ہلاک اور
متعدد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔خبروں کے مطابق افغان فوج کے کمانڈرنے
بتایا کہ فوجی چوکی پر افغان پرچم واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ عینی شاہدین
کے مطابق حملہ آور ہیلی کاپٹر امریکیوں کے ہی تھے جبکہ امریکی موقف ہے کہ
وہ اس واقعہ کی تفتیش کرے گا۔ اس سے قبل بھی سابق حامد کرزئی کے دور حکومت
میں اس طرح کے حملے ہوچکے ہیں جس کے خلاف افغان عوام میں غصہ پایا جاتا ہے
بلکہ افغان کومت بھی متعدد بار اس پر احتجاج کرچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حامد
کرزئی کے دورِ حکومت میں افغانستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ
ہوگئے تھے۔اگر واقعی یہ حملہ امریکی فوج کی جانب سے کیا گیا ہے تو افغان
عوام کا احتجاج اور غصہ واجبی ہے اور افغان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس
واقعہ کے خلاف احتجاج کرے۔ |
|