ہم سب نے بہت سے مداری اور مجمع
باز ضرور دیکھے ہیں ۔ہر مداری کے ساتھ ایک بچہ جمہورہ ہوتا ہے۔''ادھر آؤ''''آگیا''
''جو پو چھوں بتائے گا''''بتائے گا'' ا یسی ہی گفتگوکر تے ہیں۔ ڈگڈگی کی ڈگ
ڈگ پر ناچتا بندربھی آپ نے ضروردیکھا ہو گا۔ بسوں ٹرینوں اوربہت سی جگہوں
پر مختلف مجمع باز بھی اپنا مال بیچنے کیلۓ لوگو ں کوبے وقوف بناتے دیکھے
ہونگے لیکن اس بیسویں صدی میں ان کی جگہ جدید مداریوں اوربچہ جمہوروں نے
سنبھال لی ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں سیا ہ خیالات کے باوجوداپنے آپ کو روشن
خیال کہلواتے ہیں ۔ سوٹ پہننا،ٹائی لگانا اورپھر یہ تان لگانا کہ روزی روٹی
کے لئے کچھ بھی کر والو۔میں نے ایک دن اس بہت پڑ ھے لکھے روشن خیال سے پوچھ
لیا'' یہ کون سی تعلیم ہے جس میں ہم اپنے خرچ پر اس انسان کش ذلیل نظام کو
سدھائے ہوئے فرماں بردار غلام فراہم کر رہے ہیں!''اس نے بہت برا منہ بنا یا
کہ مت پو چھیں۔ بھئی سوال غلط ہو سکتا ہے،جواب تو اس کا کوئی ہو گا ناں؟
ایک سے بڑھ کر ایک چغد ......دانش وری کی تو سیل لگی ہوئی ہے جناب..... ایک
لیں تین ساتھ میں مفت۔بہر حال ایک خوبی ہے ان میں،جس کی کھا تے ہیں اس کی
بین خوب بجاتے ہیں۔یقین نہ آئے تو ذرا ٹی وی کا کوئی چینل کھو ل کر دیکھ
لیں۔بس مزے ہی مزے۔
ابھی چند روز پہلے لندن میں ایک بھارتی تھنک ٹینک کی دعوت پر امریکا میں
مقیم روشن خیال دانشور حسین حقانی خطے کی معروضی سیاست میں پاکستان کے
کردارپراپنے پرزوربغض کااظہارکررہے تھے۔ مت پوچھئے کیا زبردست دانش ور ہیں
حسین حقانی!اب تومسکراناہی بھو ل گئے ہیں۔اکڑی اور تنی گردن کے ساتھ ایک
سوال پوچھنے والے کو ڈانٹ پلا رہے تھے۔ابھی سوال پوچھنے والے کے منہ سے
سوال پورا بھی نہیں ہوتا تھا کہ روشن خیال دانشور حسین حقانی کے کانوں سے
دھواں اور منہ سے آگ کے شعلے نکلنا شروع ہو جاتے تھے۔
بجائے سوال کاجواب دینے کے اپنی خالی فوں فاں اورموضوع سے ہٹ کر امریکاکی
شان کے قصیدے پڑھے جا رہے تھے کہ ہمیں ہوش سے کام لینا چاہئے۔ا مر یکا ہما
را دوست ہے،امریکی امداد سے ہم پلے بڑھے ہیں۔ ا مریکا ہماراحلیف
ہے...حلیفوں اوردوستوں سے بات محبت سے کی جاتی ہے ۔ا مریکا یہ ہے امر یکا
وہ ہے،امریکاسپرپاورہے۔عراق اورافغانستان کاحشر دیکھو۔ سامعین کو مسکراتا
دیکھ کر بڑی سنجیدگی کا کالا کمبل اوڑھے روشن خیال دانشور حسین حقانی زچ
ہوکرگو یا ہوئے کہ '' ا مر یکا ہمیں کچھ دے یا نہ دے ،امر یکا دہشت گردی کی
جو جنگ لڑ رہا ہے اس میں ہمارا فائدہ ہے۔سا تھ ہی دہمکی کے انداز میں ڈرانے
کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوے کہا کہ ہم نے اگر اپنے لوگوں کو نہ
سمجھایاتوامریکابہادرافغانستان سے رخصت ہونے کی بجائے آپ ہی کارخ کرکے
ناقدین کا تورابورا نہ بنا دے۔ گویا اس بند کمرے میں بیٹھے منہ کی کلاشنکوف
کو مسلسل استعمال کر نے کی ایک بھونڈی مشق فر ما رہے تھے۔
نجانے مجھے کیوں وہ منظریادآگیاجب کسی صمد خرّم نامی پاکستانی نوجوان طا لب
علم کو نیشنل آرٹ گیلری میں نجی کالج کی ایوارڈ تقریب میں بے شما ر تالیوں
کی گونج میں ایوارڈ لینے کیلئے اسٹیج پر ہارورڈ یونیورسٹی کا اسکالر شپ
اورسرٹیفکیٹ ا مریکی سفیراین ڈبلیوپیٹرسن کے ہا تھو ں د ینے کے لئے بلایا
گیاتھالیکن یہ کیا...وہ تو ا مریکی سفیر اوردوسرے تما م منتظمین کو نظر
انداز کرتا ہوا سیدھا روسٹرم پر پہنچ کربلند آواز میں اپنااحتجاج ریکارڈ
کروارہا تھاکہ امریکی افواج نے بلاجوازمہمند ایجنسی پر وحشیا نہ بمبا ری
کرکے بے گناہ ہما رے فوجیوں اورشہریوں کو شہیدکردیاہے اس لئے میں احتجا جاً
ایوارڈ نہیں لوں گا۔امر یکی سفیراس غیرمتوقع واقعہ پرحواس باختہ،ہکابکااور
ششدررہ گئی اورجواب پرافسوس اورواقعہ کوغلط فہمی کی بنیادبناکراپنی صفا ئی
دینا شروع کردی۔ان دنوں یہی روسیاہ دانشورامریکامیں سفیرتھا۔اس کی اوچھی
حرکات سے جہاں قوم کاندامت سے جوسرجھک گیاتھا ،صمدخرم کے اس عمل سے فخر سے
اٹھ گیا،عجیب سرشاری کی کیفیت،یقین نہیں آرہا تھا۔نظریں سکرین سے ہٹانے کو
جی نہیں چاہ رہاتھااورآج اس روشن خیال کو دیکھنے کوجی نہیں چاہ رہاتھا۔
واہ صمد خرم واہ!تم نے تو اپنے ضمیر کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے ہم سارے
پاکستانیوں کے دل جیت لئے تھے جو آج بھی ہمارے لئے باعث فخر بھی ہے اورلا
ئق ستائش بھی جس پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں دلوں سے بے ساختہ دعائیں نکل
رہی تھیں کہ ابھی میر ے ملک کے بے شمار سپوتوں کا ضمیر زندہ ہے جو ببانگ
دہل کہ رہے ہیں!
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار لے چکاہے تو امتحاں ہمارا
صمد خرم! تم نے ان کروڑوں پاکستانیوں کے دکھی دلوں کی ڈھارس بندھائی تھی جو
مہنگائی غربت اور حکمرانوں کی بزدلی اوربد حواسیوں پر سخت نالاں وپریشان
اورحالات کے جبر پر مایوسی کاشکارتھے۔ مایوسی کیونکہ کفرہے،تم نے اس ظلم و
جبرکے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنے ضمیر کی قندیل جلا کر ثابت کر دیاتھا کہ
ہم اپنے وطن پرآنچ آتی نہیں دیکھ سکتے۔ تم نے پاکستان کے تابناک مستقبل اور
ایک بہت خوبصورت روشن صبح کی نوید سنا کر جا ں بلب قوم کے نا تواں جسم میں
ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں میں آج بھی اتنی
جرأت نہیں کہ وہ ان کی کسی بدتمیزی کا جواب دے سکیں۔وہ آج بھی بے حسی،بے
بسی اور بے کسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم اس لئے
خاموش ہیں کہ ہم ا مریکاسے امدادوصول کرتے ہیں اورانہیں سے لڑائی مول
لیکرزندہ کیسے رہ سکتے ہیں؟ اس روشن خیال حسین حقانی کوبھی اسی امریکانے
اپنی غلام گردشوں میں پال پوس کراس لائق کیاہے کہ وہ ان کی پلیٹ میں
کھاکرانہی کاگن گاتاپھرتاہے ۔ آخر اس کی تقرری کرنے والے بھی تووہی تھے جن
کو''این آراو''کے تحت اس ملک میں لایاگیاجوآج بھی اس ملک سے لوٹے ہوئے
اربوں ڈالر کی لوٹ کھسوٹ کو بیرونی آقاؤں کی تجو ریوں میں اپنے حق میں رہن
رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے بیرونی آقاؤں کے حمام میں مشّرف مارکہ صابن سے اپنی
کرپشن کی غلاظت کوصاف کرکے ملک قیوم ما رکہ خوشبوؤں کے استعمال کے بعد اپنے
غلیظ اجسام کواجلا کرکے اقتدارکے محل میں براجمان ہوگئے تھے۔ اب پاکستان کے
عوام ان چہروں کوپہچان گئے ہیں جواب ترقی کرتے ہوئے دس سے٧٠پرسنٹ پرپہنچ
گئے ہیں ۔جونہی ان کے چہروں سے نقاب اترنے لگاتویہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی
دہمکیوں پراترآئے ہیں۔
ملک کواس حد تک لیجانے اورمعا شی طورپرکمزور کرنے میں ہما رے انہی
سیاستدانوں اورکچھ ضمیر فروشوں کاہاتھ ہے۔کیاہما ری قوم صرف انہی سیاست
دانوں اورکچھ ضمیرفروشوں کے کشکول کے بدلے اپنی عزت وغیرت کا سودا کر لے؟
ہما ری اپنی کمزوریوں کا مطلب اب یہ ہر گز نہیں کہ اب ہمیں دوسرا کوئی
مجبورکرے اورحکم چلائے کہ یہ کرواوریہ نہ کرو۔دنیا کے دیگر ممالک بھی ایسی
معا شی بدحالی اورکمزوریوں کاشکارہیں،عوام غربت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن
اپنی خود داری،خود مختاری،غیرت اور ضمیر کاسودہ نہیں کرتے جس طرح تم جیسے
روشن خیال دانشوراورتمہارے آقاؤں نے کیا۔
اچھے اور بڑے تعلیمی اداروں میں پڑ ھنے کاخواب ہر طالب علم دیکھتا ہے۔ہر
ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولادتعلیمی مدارج امتیازی حیثیت سے طے
کریں ۔خوب کارہائے انجام دیں اور بڑے بڑے اعزازت حا صل کریں۔ہارورڈ
یونیورسٹی کا اسکالر شپ اور اعزازی سرٹیفکیٹ بھی ایسا ہی بڑا اعزاز تھاجو
صمد خرم کو اپنی انتھک محنت اور والدین کی بے شمار دعاؤں کی بدولت حاصل ہوا
تھا۔ہر طالب علم کی طرح اس نے بھی آگے بڑھنے اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے
بہت سے خواب دیکھے ہوں گے۔ اس دن کے انتظار میں ایک ایک دن ،ایک ایک پل گن
کرگزارہ ہو گا مگر جب منزل خودچل کرقریب آئی،اس کے خوابوں کی تعبیر اور
والدین و اساتذہ کی دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی آئی تو دنیا نے دیکھا،اس نوعمر
غیرت مند طا لب علم کے ایک آبرو مندا نہ فیصلے نے آن واحد میں نہ صر ف اس
کی بلکہ اس کے والدین،اساتذہ اور پوری قوم و ملک کی حیثیت بدل کر رکھ دی
کیونکہ یہ بات قومی وقار،ملکی سا لمیت و غیرت کی تھی جس کے سا منے بڑے سے
بڑا اعزاز،بڑے سے بڑا انعام اور بڑے سے بڑا عہدہ کوئی اہمیت نہیں
رکھتا۔منزل پر پہنچ کراسے ٹھکرا دینا، خوابوں کی تعبیرعطا کرنے کی قدرت حا
صل کرکے ان سے دستبر دار ہو جا نا،کسی بڑے مقصد کے پیش نظر ذاتی نہیں
اجتماعی و ملّی مفاد کو فو قیت دیتے ہوئے اپنی کسی شدید خوا ہش کی تمنّا کی
تکمیل کے وقت ر استہ بدل لینا کوئی معمو لی عمل نہیں۔ بلاشبہ بڑے حوصلہ ،د
ل گر دہ اور ظرف کی بات ہے جس کے لیے سوچ کی پختگی،کردارکی بلندی اورجرأت
اظہارکی ضرورت ہوتی ہے ۔ تم تو ان تمام خوبیوں سے نا بلد ہو بلکہ ان کے
قریب سے بھی تمہارا گذر نہیں ہوا حسین حقانی،تم تو اپنے نام کی بھی منہ
بولتی غلط تصویر ہو۔
دوسروں کی طرح صمدخرم بھی خاموشی سے جا کر اپنا سرٹیفکیٹ اور ایوارڈ لے
لیتا،امریکی سفیر سے ہاتھ ملا کر دو چار تصویریں بنواتااور خوشی خوشی عازم
امریکا ہوجاتا تواس میں اورتم میں کیا فرق رہ جاتا کہ اجتماعی بے حسی
توہماراقومی مزاج بن چکی ہے مگر اپنے طرز عمل سے اس نے ثابت کر دیا کہ وہ
بے حس ہے نہ با قیوں جیسا روشن خیال۔صمدخرم نے اپنے اس جرأت مندانہ طرز
عمل سے پوری قوم کو سرخرو کردیا ۔اس نے اپنی قوم کے جذبات کی لاج رکھ لی
اور محب وطن پاکستانیوں کے احساسات کی ترجما نی کا حق ادا کرکے ہم سب
کاسرفخر سے بلند کردیا۔ صمدخرم بجا طورپرفرزند پاکستان ہے۔صمدخرم !تم نے پا
کستان کی سفارت کاحق اداکردیا ہے، تمہارابہت شکریہ۔ نجانے ہما ری ان سیاہ
خیالات کے حامل روشن خیال دانش وروں سے جان کب چھوٹے گی؟
صمدخرم!شکریہ مجھے شرمند گی کے احساس سے نکالنے کا...شکریہ مجھے
سراٹھاکرچلنے کے قابل بنانے کا...شکریہ قوم کا مان بڑھانے کا.... شکریہ نصف
صدی سے امریکی سحر میں جکڑی قوم کو اس کے اثر سے نکالنے کا.....شکریہ نصف
صدی میں بھٹکنے والی قوم کے یقین و اعتماد کو بحال کرنے کا....شکریہ مادر
وطن کے زخم زخم وجود پر پھایا رکھنے کا۔ جیتے رہو اللہ تبارک تعالیٰ تمہیں
اپنی امان میں رکھے،پوری قوم کی نیک خواہشات اور دلی دعائیں تمہارے ساتھ
ہیں۔
تمہاری یہ جیت ہمیشہ کے لئے تمغہ جر أت و امتیاز بن گئی ہے ۔یہ ایوارڈ اس
ٹھکرائے ایوارڈ سے کہیں زیادہ قدرومنزلت رکھتا ہے جس کی آج قوم کو ضرورت
ہے۔ اگر ضمیر زندہ ہے تو سب کچھ زندہ ہے ۔ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کا
انحصاراسی قسم کے بیدارذہن سے وابستہ ہے جولوگ وطن کی محبت سے عاری ہوتے
ہیں انہیں دنیا ''جنرل یحییٰ،جنرل حمید،جنرل نیازی، پرویزمشرف اورحسین
حقانی کے نام سے یاد کرتی ہے''۔
ان نام نہادحسینوں اورکذب بیانوں کوکون سمجھائے،جب دلوں پرمہراورآنکھوں
پرپٹی چڑھ جا ئے توان سے منہ موڑنابہتر!
حسین حقانی کچھ تو شرم کرو،اس معصوم بچے صمدخرم کا نصیبا دیکھو۔کیوں ز مینی
خداؤں سے ہمیں ڈراتے ہو۔اچھی اور بر ی تقدیرتو ہم ا پنے رب سے لے کر آئے
ہیں۔اپنا راگ اب بند کرو۔تم جیسے نو ٹنکی ہم نے بہت دیکھے ہیں۔ آج ہما رے
قا ئداعظم اورعلامہ اقبال بھی بہت شاداں اور نازاں ہیں شائد صمد خرم جیسوں
کے لئے ہی بابے نے کہا تھا:
جواں وہی ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
سجنوں کچھ بھی تو نہیں رہے گابس نام رہے گا میرے اللہ کا:
وہ لوگ عجب لوگ تھے آغاز سفر سے
آنکھوں میں لیے پھرتے تھے نادیدہ کئی خواب
اس شہر میں،ہر شخص کا احوال ہے یکساں
دیواریقیں گرتی ہوئی،ٹوٹتے اعصاب |