ہیپاٹائٹس کے عالمی دن 28 جولائی
کے موقع پر ایک معلوماتی تحریر
اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ پاکستان کا ہر 10 واں فرد ہیپاٹائٹس کا
مریض ہے ، اس کی کئی ایک وجوہات ہیں یہ کہ ایسا کوئی ادارہ ہی نہیں ہے جو
کسی مرض کے اعداد و شمار جمع کرتا ہو اگر کوئی ادارہ ہو تب بھی یہ بات کہ
پاکستان کا ہر 10 واں فرد ہیپاٹائٹس کا مریض ہے غلط ہے ۔ اس لیے بھی کہ
ہیپاٹائٹس کو خاموش وائر س کہا جاتاہے اس کی علامات ظاہر ہونے سے 10 سے 20
سال تک مریض صحت مند نظر آتا ہے ۔ پاکستان میں اس مرض کے شکار افراد کی
درست تعداد جاننے کے لیے ہر پاکستانی کا ٹیسٹ کیا جانا ضروری ہے جبکہ ایسا
کبھی نہیں ہوا ہمارے ملک میں ہمیں درست آبادی کا علم نہیں ہے ،کسی مرض کے
شکار مریضوں کی تعداد کا کیسے علم ہو سکتا ہے۔ یہ ایک اندازہ ہے کہ اعدادو
شمار کے مطابق پوری دنیا میں پایا جانیوالا ہیپاٹائٹس سی کا وائرس
تقریبا170کروڑ افراد کے جسم میں موجودہ ہے اور 60 لاکھ سے ایک کروڑ تک
پاکستانی لوگ اس میں مبتلا پائے جاسکتے ہیں یہ اچھا خاصا غلط اندازہ ہے ۔ہیپاٹائٹس
کے مریض اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنے بتائے جاتے ہیں۔ڈاکٹر بی اے خرم کے
مطابق پاکستان بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا
مشکل ہے کیونکہ اکثر لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ اس مرض
میں مبتلا ہیں۔وہ عام طور پر مختلف علامات کو مرض سمجھ کر ان کا علاج
کرواتے رہتے ہیں اور کسی مستند معالج کی بجائے غیر مستند ڈاکٹروں یا حکیموں
سے علاج کرواتے رہتے ہیں اور مرض بڑھتا جاتا ہے جیسے جیسے دوا کرتے ہیں ۔
پہلے ہیپاٹائٹس کا عالمی دن 19 مئی کو منایا جاتا تھا پہلا عالمی ہیپا
ٹائٹس دے 2008میں منعقد ہوا۔ 1963میں Dr. Baruch Blumberyنے ہیپاٹائٹس کی
تشخیص کی پھر ان کی ٹیم نے ملکر ہیپاٹائٹس A,B,Cکی تشخیص کی۔ہیپاٹائٹسA,Bکی
ویکسین تیار کر لی ۔ 1976میں Dr. Blumberyکو ہیپاٹائٹس بی کی تشخیص پر نوبل
پرائز بھی دیا گیا۔ ان کے اس شاندار کارنامے کی بدولت ہیپاٹائٹس ڈے کی
تاریخ 19مئی سے تبدیل کرکے 28جولائی جو کہ ڈاکٹر کی تاریخ پیدائش تھی مقرر
کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان جگرکی بیماریوں کے اعتبار سے تیسرے
نمبر پر آتاہے۔جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
حکیم حافظ محمد اقبال کے مطابق پہلے معدہ خراب ہوتا ہے اس کے بعد جگر ان
دونوں سے کوئی ایک خراب ہو تو دوسرے پر اس کا اثر ہوتا ہے ۔اس لیے اگر صحت
کے بنیادی اصولوں پر عمل کیا جائے تو بہت سے امراض سے بچا جا سکتا ۔جن میں
معدہ اور جگر کے امراض بھی شامل ہیں۔ ہیپاٹائیٹس کا مرض سوزش جگر کامرض ہے
جگر پسلیوں کے نیچے ،دائیں جانب 1400 سے 1600گرام کا ایک اہم عضو ہے ۔اس کے
افعال میں وٹامنزوغیرہ ذخیرہ کرنا،خون کی صفائی،کولیسٹرول کو کنٹرول
کرنا،غذاکی کیمیائی مادوں میں تبدیلی،ہاضمے میں مدد دینا،جسم سے فاسد مادوں
کے اخراج وغیرہ میں مدد دینا شامل ہے ۔ ہیپاٹائیٹس یاجگر کی خرابی کی سب سے
اہم وجہ کئی اقسام کے وائرس ہوتے ہیں ان وائرس کی اقسام کے نام A، B،C،
Dاور E( اے بی ، سی ڈی اور ای )وغیرہ ہیں۔
اِس بیماری کی تشخیص خون کے ایک خاص ٹیسٹ کے ذریعے ہی ہوتی ہے ۔جب ایک شخص
کا جگر بہت ہی زیادہ گل جاتا ہے ،خراب ہو جاتا ہے کام چھوڑ دیتا ہے تو اِس
کا آخری علاج یہ ہوتا ہے کہ اْس کا آپریشن کرکے ایک نیا جگر پیوند کر دیا
جائے ۔لیکن ایسے آپریشن کے لئے دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے ،جگر کا عطیہ
ملتا کم ہے ،مہنگا بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ جگر کا عطیہ دینے والے کم اور
ان کی تعداد زیادہ ہے جن کو جگر کے عطیہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس لیے اگر
ہیپاٹائٹس بی کے مرض کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو اِس سے جگر کا کینسر ہو
سکتا ہے ، بہترین حل تو یہ ہے کہ تمام بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد
ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں ۔اِس کے علاوہ وہ بچے جو 18سال
سے کم عمر کے ہوں اور اْنھیں بچپن میں ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کے ٹیکے نہ لگے
ہوں اْنھیں بھی ویکسین دی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ جیسا کہ اوپر لکھا ہے کہ اس بیماری کی تشخیص خون کے ایک خاص
ٹیسٹ کے ذریعے ہوتی ہے تو یہ ٹیسٹ کروا لینا چاہیے خاص کر اگر درج ذیل
علامات ظاہر ہوں تو دیر نہیں کرنی چاہیے ۔
ہیپاٹائٹس اے کی علامات میں بھوک لگنا کم ہو جائے گی، منہ کا ذائقہ تبدیل
ہو جائے گا، جسم میں تھکاوٹ محسوس ہو گی، گھبراہٹ محسوس ہو گی، کمزوری بھی
محسوس ہو گی، کھانے کی جانب رغبت نہیں ہو گی، کھانے کی خوشبو آئے گی تو وہ
بری لگے گی، جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں انہیں سگریٹ کا ذائقہ برا محسوس ہو گا،
آنکھیں پیلی ہونا شروع ہو جائیں گی اور جسم کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو جائے
گا۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کی علامات بہت آہستگی سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن جب
ہیپاٹائٹس بی مستقل مرحلے میں آ جائے گا تو نہایت ہی شدید قسم کا یرقان ہو
گا۔‘‘ بھوک کا ختم ہونا ‘ وزن کم ہونا ، چہرے کارنگ زرد ہونا ، پیٹ میں
پانی بھر جانا ، خون کے قے آنا بے ہوشی ہونا ، سانس سے بوآنا ، نیند میں
خلل ، ہاتھوں پر کپکپی ہونا ، پاؤں اور تمام جسم میں سوجن اسہال، تھکاوٹ کا
احساس جِلد اور آنکھوں میں پیلاہٹ اور پٹھوں، جوڑوں اور معدے میں درد وغیرہ
اس کی علامات ہیں۔کالے یرقان( ہیپاٹائٹس سی) میں پیلا یرقان یا کالا یرقان
دونوں کے اسباب موجود ہوتے ہیں۔کالا یرقان میں بعض اوقات پسینہ تک سیاہ ہو
جاتا ہے ۔
ہیپاٹائٹس کا مرض کیسے پھیلتا ہے اور کیسے نہیں پھیلتایہ جاننا ضروری ہے۔
یپاٹائٹس کی وائرس کا شکار ہونے کی مختلف ذرائع ہیں اکثر لوگوں کو یہ علم
بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیسے مرض میں مبتلا ہوئے ۔چھینکنے ، کھانسنے ، بوسہ
لینے ، روز مرہ زندگی کے کام سے یہ وائرس دوسرے کو منتقل نہیں ہو سکتا اس
مرض کے لاحق ہونے کے عام ذرائع یہ ہیں،آلودہ پانی پینے سے کھانا پکانے یا
کھانے سے پہلے ،بیت الخلا سے فارغ ہونے کے بعد اچھی طرح ہاتھ نہ دھونے سے
۔متاثرہ خون ،سرنج،اوزار،جنسی تعلقات (اس بابت کہا جاتا ہے جو خون کے جاری
ہونے کا سبب بنے ) جیسے ایام ماہواری میں جنسی ملاپ ، متاثرہ شخص کا استرا
، ٹوتھ برش کا استعمال ،وغیرہ
پاکستان میں ہیپاٹائٹس اے اور ای اقسام کے انفیکشن متعدی ہیں جو عموماً
پینے کے گندے پانی یا ناقص نکاسیء آب کے باعث پھیلتا ہے۔جو مزید بڑھ کر بی
اور سی اور دیگر بہت سے امراض کا سبب بنتے ہیں قومی تحقیقاتی ادارے کی
حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پینے کا 82 فیصد پانی انسانی صحت کیلئے
غیر محفوظ ہے ۔
واٹر ریسرچ کونسل کی رپورٹ کی مطابق ملک کے 23 بڑے شہروں میں پینے کے پانی
میں بیکٹیریا، آرسینک، مٹی اور فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے ۔پاکستان میڈیکل
ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی وجہ پینے کا پانی
ہے جس کے باعث سالانہ 11 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے لاعلاج مرض کی وجہ بھی پینے کا آلودہ پانی ہے ۔
ایک رپورٹ اس سے قبل بھی آئی تھی جس میں ملک میں پانی کے معیار پر تحقیق
کرنے والے سب سے بڑے ادارے پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی
جانب سے بوتل کے پانی پر کی گئی ایک تحقیق میں مارکیٹ میں منرل واٹر کے نام
پر فروخت ہونے والے 63 مختلف برانڈز کے نمونے حاصل کئے جن میں سے 52 فیصد
پینے کے لئے غیرمحفوظ پائے گئے ۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس، دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی
آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے ۔اس دن کو منانے کامقصد لوگوں میں اس بیماری کی
آگاہی اجاگر کرنا ہے کہ یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے اور اس سے بچنے کے لیے
کیا کیا تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس سے بچاؤکی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور اگہ یہ
بیماری لاحق ہو جائے تو اس بیماری کے خلاف فوری طور پر علاج شروع کریں۔ دین
پر چلیں اور اپنی شریک حیات تک محدود رہیں۔علاج فوراََ شروع کروائیں خاص کر
اپنی غذا کا خیال کریں تاکہ یہ مرض زیادہ نہ بڑھے اور کینسر یاسروسس سے بچا
جاسکے ورنہ جگر کی منتقلی کروانی پڑتی ہے ۔ |