سیلاب میں گھری پاکستانی قوم
(عابد محمود عزام, karachi)
قوموں کی پہچان دعوؤں اور نعروں
سے نہیں ہوتی، بلکہ فیصلوں سے ہوا کرتی ہے۔ جو قوم اپنا مستقبل اوج ثریا پر
چمکتا دمکتا دیکھنا چاہتی ہے، وہ ہر میدان میں فیصلے بھی اسی طرح بلند
وبالا کیا کرتی ہے۔ سیلاب قدرتی آفت ہے، جس سے چھٹکارہ حاصل کرنا کسی بھی
ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال سیلاب کے نتیجے میں لاکھوں
لوگ متاثر ہوتے ہیں، ہزاروںہلاک اور زخمی ہوجاتے ہیں۔ اربوں ڈالر کا بھاری
مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، لیکن جو ممالک سیلاب کا زور توڑنے اورتباہی
پھیلانے والے پانی پر قابو پا کر اسے کارآمد بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں،
وہی سرخرو ٹھہرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہم چین کی مثال سامنے رکھتے ہیں۔ چین
کی تاریخ خوف ناک سیلابوں سے بھری پڑی ہے۔
شمالی چین ہر سال تباہ کن سیلابوں میں بہہ جاتا تھا، جس سے کروڑوں افراد
متاثر ہوتے تھے اور ہزاروں موت کا شکار ہو جاتے تھے۔ چین میں 1887 میں آنے
والے سیلاب نے 9 لاکھ افراد کی جان لی۔ 1911 میں ایک لاکھ لوگ سیلاب کی نذر
ہوگئے۔ 1931 میں 3 لاکھ 50 ہزار اور 1938 میں 5 لاکھ افراد کو سیلابوں نے
ہلاک کردیا، لیکن پھر چینی قوم نے ایک زندہ قوم بن کر سوچا۔ دانشمندی اور
ہمت سے ان سیلابوں کے سامنے بندھ باندھنے کی ٹھانی۔ چینی حکومت نے 1950 کی
دہائی میں ایک سروے کیا۔ 15 بڑے دریاؤں کے پانیوں کو اسٹور کرنے کے لیے ڈیم
بنانے کا آغاز کردیا۔
1970 تک چین کے شمال میں 1282 ڈیمز اور نہروں کا جال بچھا دیا گیا اور مزید
ڈیمز کی تعمیر کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ چینی حکومت کے فیصلوں نے زحمت کو
رحمت میں تبدیل کردیا۔ چین میں اب بھی بارشیں ہوتی ہیں اور ان کے نتیجے میں
سیلاب بھی آتے ہیں، لیکن ڈیمز لبالب بھر کر ان سیلابوں کی شدت کو کم کردیتے
ہیں۔ اب چین میں سیلابوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان میں کئی سو گنا کمی
آگئی ہے۔ وہ پانی جو کبھی عذاب بن کر نازل ہوتا تھا، اب خوشحالی کا نقیب بن
کر آتا ہے۔ چین نے ہر سال ضایع ہونے والے پانی کو محفوظ کر کے اپنی زمینوں
میں کاشت کاری کی اور سونا اگادیا اور آج اناج میں خود کفیل ہوگیا ہے۔ اس
پانی سے چین نے اور بہت سے فوائد حاصل کیے ہیں۔
ہمارے ملک میں ہر سال زور دار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور کئی کئی
روز تک جاری رہتا ہے۔ یہ بارشیں سیلاب کا روپ دھار کر ملک کے اکثر حصوں کے
لیے تباہی و بربادی کا سامان کرجاتی ہیں۔ ہمارے دریاؤں کے پل ٹوٹ جاتے ہیں۔
متعدد علاقوں کا زمینی رابطہ سیلابوں میں مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہماری
لہلاتی کھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں افراد ہر سال سیلابوں
میں ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں مویشی غرقاب ہو جاتے ہیں۔ گھروں کی
چھتیں مسمار ہو کر رہ جاتی ہیں۔ لوگ عارضی خیموں میں پناہ گزین ہوجاتے ہیں۔
تاحد نگاہ تباہی، بربادی اور پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے حکمران ہر
برس اس موسم میں ایک فوٹو سیشن کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
اخبارات میں خاکی کپڑے اور بڑے بڑے بوٹ پہن کر پانی میں کھڑے ہوکر تصویریں
شایع کرواتے ہیں اور ٹی وی پر چند مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ حاکم سیلاب زدگان
میں آٹا تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔ کپڑوں اور دواو ¿ں کے پیکٹ بانٹ رہے ہوتے
ہیں۔ انتظامیہ کے افراد میڈیا کے سامنے کچھ دیر کے لیے عارضی کیمپ لگاتے
ہیں، وہاں چند مایوس چہروں والے سیلاب متاثرین کی شکلیں دکھاتے ہیں اور
میڈیا و حکمرانوں کے چلے جانے کے بعد عارضی کیمپ اکھاڑ دیے جاتے ہیں۔ اگلے
برس پھر یہی ایکسرسائز دہرائی جاتی ہے۔ ہر سال یہی بے حسی لباس بدل بدل کر
اپنا چہرہ دکھاتی ہے۔ پاکستان کئی سال سے سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں
ہے۔ پاکستان میں 1956، 1976، 1986 اور 1992 میں بڑے سیلاب آئے، جنھوں نے
ملک و قوم کا بے بہا نقصان کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 1950 سے 2013 کے دوران
شدید نوعیت کے 21 سیلابوں کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر 37
بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چھ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ
رقبے پر قیامت ڈھانے والے یہ سیلاب بارہ ہزار افراد کو نگل چکے ہیں، جب کہ
پونے دو لاکھ دیہات زیرآب آنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں زرعی فصلیں اور
مکانات تباہی سے دوچارہوئے۔ سال 2010 کے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا
بدترین سیلاب قرار دیا جاتا ہے۔ جس نے 20 ملین لوگوں کو متاثر کیا تھا اور
ہزاروں افراد کی جانوں کو نگل لیا تھا۔ تباہ شدہ مکانات، تعمیرات کی تعداد
16 لاکھ 8184، مالی نقصان 10 بلین ڈالر، 17ہزار 553 دیہات زیرآب آئے۔ ایک
لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ متاثر ہوا۔ اس سال بھی سیلاب نے ملک میں
تباہی مچائی ہوئی ہے۔ سیلاب سے جنوبی پنجاب، سندھ اور دیگر علاقوں میں
اربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ سیکڑوں دیہات، ہزاروں
مکانات تباہ اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور سیلاب کی تباہیوں کا
سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اگر حکمران چاہیں تو نہ صرف اتنے بڑے نقصانات سے بچاجاسکتا ہے، بلکہ پانی
کے اس قیمتی خزانے کو محفوظ کر کے ملکی ترقی کے لیے گنج پائے گراں مایہ کے
طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر بجلی کی قلت کو پورا کر
سکتے ہیں۔ پانی کو بے آب و گیاہ زمینوں تک لے جا کر سبزے اگا سکتے ہیں۔
بارانی علاقوں میں نہروں کے ذریعے پانی نے جا کر بنجر زمینوں سے لہلاتی
فصلیں پیدا کر سکتے ہیں۔ ندی نالوں کو پختہ کر کے ان کے پشتے بنا کر پانی
سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن ستم دیکھیے! صرف نااہلی و کاہلی کی وجہ سے ہم
قدرت کی ایک انمول نعمت کو اپنے لیے باعث زحمت بنا لیتے ہیں۔ہمارا سکھ چین
چھین لیتی ہے۔ ہمارے لیے باعث آزاد بن کر ہماری زندگی کو تکلیف اور اذیت سے
بھر دیتی ہے۔
پاکستان کے تمام 43 ڈیمز لبالب بھر جاتے ہیں۔ اگر ہم ملک کے طول و عرض میں
چھوٹے بڑے ڈیموں اور نہروں کا جال بچھا دیں تو ہم اس پانی سے زندگی کشید
کرسکتے ہیں۔ہم بارشوں کے پانی کو ضایع ہونے سے بچاسکتے ہیں۔ اس کو استعمال
میں لا کر بجلی بنا سکتے ہیں، زراعت کو چمکاسکتے ہیں۔اگر چھوٹے یا بڑے ڈیمز
ملکی ضروریات کے مطابق بنا دیے جائیں تو گلیشیئرز کے پگھلنے سے پیدا
ہونیوالے تند رو پانی اور بارشوں کے سیلابی ریلے زحمت کے بجائے رحمت کا روپ
دھار سکتے ہیں، لیکن قیام پاکستان کے وقت سے ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس طرف
توجہ ہی نہیں دی۔ ہم نے اس معاملے میں خطرناک حد تک پسپائی اختیار کی ہوئی
ہے۔ اگر ہم ملک کے طول و عرض میں صرف ڈیم بنالیتے، نہریں کھود لیتے، بیراج
تعمیر کرلیتے تو آج ملک کا بیشتر حصہ پانی میں ڈوبا ہوا نہ ہوتا۔ ہم اناج
کو سیلابوں ریلوں میں بہتا نہ دیکھ رہے ہوتے۔ ہم شہروں میں لرزہ خیز تباہی
اور ہمارے دیہات میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی بربادی نہ آتی۔ ہم چین کی
طرح سیلابوں کی تعداد، مقدار اور نقصان کو کئی گنا کم کر سکتے تھے، لیکن
اگر حکمران اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لیں تب ہی یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ |
|