پاک فوج، سیلاب اور فلاح انسانیت

جانے کیا بادلوں کے بیچ سازش ہوئی؟
جن کا گھر مٹی کا تھا انہی کے گھر بارش ہوئی
سیلاب ایک قدرتی آفت ہے اور اس کا اختیار کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ،یہ سب اﷲ وحدہ لاشریک کا نظام ہے کہ وہ کہیں ہرروز دن میں کئی بار بارش برسا دے اور کہیں بارش کا قطرہ تک نہ برسائے۔ان سب کے باوجود اسلام ہمیں حفاظتی اقدامات سے منع نہیں کرتا اور آج کل کے جدیددور میں حکومتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ عوام کی حفاظت کے لئے سیلابی خطرات والے علاقوں میں مون سون سے قبل نہ صرف اقدامات کریں بلکہ عوام میں بھی اپنی حفاظت کا شعور اجاگر کریں۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھے خطرے میں گھرنے کی بجائے آگے بڑھ کر امدادی وحفاظتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔اگر ہم پاکستان کی حد تک بات کریں تو نہایت افسوس کے ساتھ یہ کارکردگی سامنے آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے وقت میں جب ان کے ووٹر کو ان کی ضرورت ہوتی ہے توپوائنٹ سکورنگ کرتے نظر آتیں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتی نظرآتیں ہیں ۔بارشیں ہرسال برستی ہیں ،دریا،ندی نالے ہرسال بپھرتے ہیں ،مکان ہرسال گرتے ہیں ،مکین ہرسال بے گھر ہوتے ہیں،جمع پونجی ہرسال پانی میں بہتی ہے ،کسی کی بیٹی کا جہیز تو کسی کے حج پر جانے کے لئے اکٹھی کی ہوئی رقم ،کسی کے مال مویشی تو کسی کا کھیت کھلیان اور کسی کا سب کچھ سیلاب کی نظر ہوجاتا ہے ۔لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔امداد کے وعدوں واعلانات کے علاوہ کوئی پالیسی ،کوئی حکمت عملی اور کوئی بچاؤکی کوششیں نظر نہیں آتیں ۔بس فضائی جائزے ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔متاثرہ علاقوں میں وزراء کی آمد کے وقت عارضی کیمپ لگائے جاتے ہیں اور ان کے جاتے ہی ان کو لپیٹ دیاجاتاہے ۔

اس سال بھی پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے خیبر پختون خواہ ،جنوبی پنجاب ،چترال،سکردو اور دیگر کئی علاقوں میں سیلاب کی کیفیت ہے جس سے لاکھوں پاکستانی متاثر ہوچکے ہیں اور یہ تعدادبھارتی ریلے کے ساتھ ہی بڑھنے کا خدشہ ہے ۔اس سال اب تک سب سے زیادہ نقصان چترال ،گلگت بلتستان میں ہوا ہے ۔گاؤں ،بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔پاکستان میں ہرطرف سیلاب کی باتیں ہورہی ہیں ۔پاک فوج اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی اپنی پاکستانی عوام کی مشکلات میں ان کے ساتھ کھڑی ہے ۔ویسے روایات ہرکوئی نباہ رہاہے چاہے وہ ہمارے سیاسی لیڈران ہوں یاان کے ماتحت سرکاری ادارے ،مذہبی جماعتیں ہوں یا پھر سیاسی وابستگی رکھنے والی گدیاں ،پاک فوج ہو یاپھر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن والے ۔لیہ میں اپنے د وست عامر جعفر جو کہ ایک عرصہ سے لیہ میں کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں سے بات ہوئی تو وہ بتا رہے تھے کہ ہمارے ضلع لیہ میں 380کے لگ بھگ بستیاں متاثر ہوچکی ہیں ۔ان سے جب میں نے سرکاری اداروں کی کارکردگی کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی ویسی ہی ہے جیسی پہلے تھی ۔اگر کوئی سرکاری افسر مددکرناچاہتا بھی ہے تو اس کے پاس وسائل نہیں یاپھر کاغذی کاروائی وغیرہ جیسے لایعنی معاملات۔انہوں نے مزید بتایاکہ ہمیں پیلے رنگ کی جیکٹیں پہنے ہوئے داڑھیوں والے افراد ہی نظر آتے ہیں جن کی جیکٹوں کے پیچھے FIFواضح الفاظ میں لکھا ہوا نظر آتا ہے ۔مزید تحقیق پر معلوم ہواکہ فلاح انسانیت لیہ سمیت دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھرپور خدمت کا کام کررہی ہے ۔سکردو جیسے مشکل ترین راستے والے علاقے میں ریسکیواور ریلیف کاکام وہ پاک فوج کے ساتھ مل کررہی ہے۔صوبہ سندھ ،پشاور،چترال ،گلگت بلتستان،لیہ ،گوجرانوالہ ،راجن پور،حافظ آباداور دیگر متاثرہ علاقوں میں یہ لوگ دن رات خدمت انسانیت میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں ۔جیسا ان کا نام ہے ویسا ہی ان کا کام ہے ۔ان کے چیئرمین حافظ عبدالروؤف بنفس نفیس خدمت انسانیت میں مصروف عمل ہیں وہ اپنے رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں ۔فلاح انسانیت کے رضاکار دشوار ترین راستوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چترال میں گرم چشمہ اوروادی کیلاش جیسے دوردراز علاقوں میں کندھوں پر امداد ی سامان اٹھا کر پہنچ رہے ہیں۔ اگرصرف لیہ کی بات کروں تو پچھلے سات دن سے یہ لوگ متاثرہ عوام تک پہنچ کر ان کے دکھوں کا مداواکرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ان کے امدادی کیمپ ککڑوالا اور بکھری احمد خان بند پر لگے ہوئے ہیں۔ان کی دوکشتیاں اور ایک ایمبولینس دن رات مصروف خدمت ہیں۔روزانہ ایک وقت میں 500افراد کوپکا پکایاکھانا دیاجاتا ہے ۔میرادوست بتارہا تھاکہ ایک دفعہD.C لیہ اورڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئرآفیسر لیہ نے فلاح انسانیت والوں کاکھانا لوگوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے FIFوالوں سے لے کر تقسیم کیا تھا ۔ یہ لوگ پاک فوج کے شانہ بشانہ پاکستانی عوام کی خدمت میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں ۔دیگر علاقوں میں ان کے رضاکاروں کا یہی حال ہے کہ جیسے یہ لوگ خدمت کے واسطے ہی اﷲ نے پیداکئے ہیں ۔

پاک فوج ہمارا وہ ادارہ ہے جس پر پاکستانی عوام ہر دکھ سکھ میں اعتماد کرتی ہے اور مشکل کی گھڑی میں اپنے ووٹ سے منتخب کردہ حکمرانوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ دیکھتی ہے ۔پاک فوج نے اس سیلابی آفت میں پاکستانی عوام کو ایک مرتبہ پھر اپنائیت کا احساس دلایا ہے۔پاک فوج ایک طرف ضرب عضب جیسے ایک مشکل ترین فرض کو احسن طریقے سے نباہ رہی ہے اور کراچی میں بوری بند،بھتہ خوروں اور دیگر مجرمانہ ذہنیت کے مالک افراد کو نکیل ڈال کرقابو کررہی ہے تودوسری طرف پاکستان میں ہونے والی کسی بھی آفت میں سب سے پہلے پہنچ کر بغیر کسی پروٹوکول کے خدمت انسانیت میں مصروف نظر آتی ہے ۔اقتصادی راہداری ہویا پھر بھارتی دہشت گردی ہرفورم پر پاک فوج کی آواز سب سے مؤثر ثابت ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ عام لوگوں میں رچ بس جاتے ہیں اور اپنے نظریہ پاکستان سے چمٹے رہتے ہیں۔میں دعاگو ہوں کہ پاک فوج ضرب عضب کے ساتھ ساتھ کوئی ضرب ڈیم ہی شروع کردے تاکہ پاکستان کابھلا ہوسکے۔

سیاسی ٹولہ اس سال بھی سیاسی کیچڑ اچھالنے ،امدادی بیانات جاری کرنے اور فوٹو سیشن تک ہی محدود ہے ۔یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس کو حکمران ایسے نصیب ہوتے ہیں جن کو صرف اپنا اقتدار پیارا ہوتا ہے ۔وہ زیادہ تر ایسے منصوبے بناتے ہیں جن کی معیاد ان کے دورحکومت میں مکمل ہوجائے اور وہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی رکھ سکیں ۔بھارت جو کہ ہمارا ازلی دشمن ہے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان ڈیم بنائے ۔عجیب حال ہے کہ 6ماہ پانی کوترسا جائے اور 6ماہ پانی میں عذاب جھیلا جائے ۔اگر ہمارے پاس ڈیم ہوں تو ہم بارش اور سیلاب کے پانی کا بہتر حل نکال سکتے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں کو بچاسکتے ہیں ۔لیکن کیا کریں جی ! جان تو کسی سیاست دان کی یا اسکے کتے کی قیمتی ہوتی ہے عوام کی جان تو کوئی قیمت ہی نہیں رکھتی ۔میں وزیراعظم میاں نوازشریف سے پاکستان کی عوام کی طرف سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر وہ خود کوئی ڈیم بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو یہ کام باقی کاموں کی طرح پاک فوج کو سونپ دیں ۔آپ کابھرم بھی رہ جائے گا اورپاکستان کابھلابھی ہوجائے گا۔

Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 61844 views Master in Islamic Studies... View More