آج سے 74سال پہلے شہر لاہور میں
مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے نام سے عظیم اسلامی تحریک کی بنیاد
رکھی۔برصغیر کے مختلف علاقوں سے75افرادنے اس کی تاسیسی اجلاس میں شرکت
کی۔ان 75افرادمیں سے کھپورتلہ سے تعلق رکھنے والا ایک 27سالہ نوجوان وکیل
بھی شامل تھا۔ پینٹ کوٹ ،ہیٹ اور نکٹائی میں ملبوس ،اس کلین شیونوجوان وکیل
کی رکنیت پرلوگوں نے اعتراض کیا۔یہ اعتراض بظاہر بجا بھی تھا کہ مغربی طرز
زندگی کا حامل شخص کسی اسلامی تحریک کا رکن رکین کیسے بنے؟لیکن نوجوان وکیل
نے اپنی ظاہری شکل و صورت اور معاملات باشرع کرنے کے لیے وقت مانگا۔انھیں
چھے ماہ کا آزمائشی وقت دیا گیا۔پھر اس نوجوان کی زندگی میں جو تبدیلی آئی
وہ کم از کم برصغیر کی سیاسی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔اس نوجوان نے داڑھی
رکھ لی ،وکالت چھوڑ کراپنے آپ کو اقامتِ دین کے جدوجہدکے لیے وقف
کردیا۔واضح رہے کہ یہ کوئی عام نوجوان نہیں تھابلکہ ریاست کھپورتلہ کا پہلا
مسلمان وکیل تھا۔ماں باپ ،اہل خاندان اور علاقے کے عام لوگوں نے سمجھانے کی
بڑی کوشش کی کہ یہ پاگل پن ہے یہ تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔شاندار تعلیمی
کیرئیراور بے شمارمواقع و امکانات تمھارے منتظر ہیں۔ریاست کے راجا کا اصرار
تھا کہ ہائی کورٹ کا جج بن جائیں لیکن یہ فیصلہ واپس لیں ۔ اس نوجوان کا
فیصلہ اٹل تھا ایک دفعہ انھوں نے اپنے آپ کو اﷲ کے سپرد کیا پھر پیچھے مڑ
کر نہ دیکھا۔لوگ حیران تھے کہ کیا ہوا اس بھلے چنگے انسان کو لیکن نوجوان
اس مقام پر پہنچ چکا تھا جہاں عقل لب بام رہ جاتی ہے۔جی ہاں!اس نوجوان
کانام طفیل محمد تھا جو بعد میں جماعت اسلامی پاکستان کا امیر بنا اور جن
کی تقویٰ ،ﷲیت ،درویشی ،سادگی اور فہم و فراست کی ایک دنیا قائل رہی ۔
کچھ عرصہ پہلے ان کی بیٹی سمیہ طفیل نے ان کی تحریروں پر مبنی ایک کتاب راہ
نجات مرتب کی ہے۔ 26جولائی2015ء بروز اتوار10:30بجے اسی پاک باز ہستی کی
یاد میں ایک سیمی نار کا انعقاد ہوا،جس میں راہ نجات کی رونمائی بھی ہوئی۔
صبح کی بارش کی وجہ سے موسم خوش گوار تھا۔آسمان پر ہلکے ہلکے باد ل چھائے
ہوئے تھے۔منصورہ آڈیٹوریم سامعین سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس تقریب میں
میاں طفیل محمد مرحوم کے خاندان کے افراد ،ملک بھر سے مرکزی تربیت گاہ میں
شمولیت کے لیے آنے والے جماعت کے کارکنان بڑی تعد اد میں شریک کی۔ سیمی نار
کی صدارت امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کر رہے تھے جب کہ سٹیج
سیکرٹری کے فرائض ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان فرید احمد پراچہ
انجام دے رہے تھے۔حافظ سیف الرحمن کی تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز
ہوا۔
کلیم صدیقی نے حسب موقع و محل کلام اقبال پیش کیا:
اس کی امیدیں قلیل ،اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب ،اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو،پاک دل وپاک باز
قیم جماعت اسلامی پاکستان محترم لیاقت بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ
میاں طفیل محمد صاحب سچے،کھرے،ٹھیٹ صاف گواور قُوْلُوْا قَوْ لاً
سَدِیْداًکا عملی نمونہ تھے۔
حسن فاروق نے اپنے عظیم والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ والد صاحب
ہمیں نصیحت کیا کرتے تھے:
۱-اپنے 6,5فٹ کے جسم پر اﷲ کا قانون نافذ کر دیں،تمھارے لیے دعوت الی اﷲ کا
کام آسان ہو جائے گا۔
۲-اگر تم دنیا کے پیچھے دوڑو گے تو یہ آگے اور تم اس کے پیچھے رہو گے۔تمھیں
وہی کچھ ملے گا جو تمھاری مقدر میں ہے۔اگر تم آخرت کے لیے کوشاں رہو گے ،حلا
ل طریقے اختیار کر کے توکل علی اﷲ کرو گے تب دنیا تمھارے پیچھے ہو گی اور
تمھارا مقدر تمھیں مل کر رہے گا۔انھوں نے کہا کہ عمر کے آخری حصے میں ان کی
بینائی مکمل طور پر ختم ہو گئی تو میں ان کو نماز با جماعت کے لیے مسجد تک
لے جاتا اور واپس لے آتا،میرے منع کرنے کے باوجود وہ ہر دفعہ اس طرح میرا
شکریہ ادا کرتے جس طرح میں نے بڑا کارنامہ کیا ہو،حالانکہ میں تو اپنا فرض
نبھانے کی کوشش کرتا۔انھوں نے کہا کہ وفات سے ڈیڑھ سال قبل والد صاحب نے
اپنے کمرے میں ہماری موجودگی میں ہماری بہن سمیہ طفیل کو کچھ لوازمہ دیتے
ہوئے کہا کہ اگر ہو سکے تو اس کو کتابی شکل میں مرتب کر دیں۔ہماری بہن نے
چھے سال کی محنت کے بعد ’’راہ نجات ‘‘مرتب کی۔
میاں صاحب کے داماد اظہر بلال نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک
دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ انقلاب کب آئے گا؟میاں صاحب نے جواب دیتے ہوئے
کہا:ہم انقلاب کے مکلف نہیں ہیں۔ہمارا کام اپنی صلاحیتوں کو اﷲ کی راہ میں
صرف کرنا ہے۔تحریک انصاف کے مرکزی رہ نما اور میاں طفیل محمد صاحبؒکے داماد
اعجاز چودھری نے بڑے دل دوز انداز میں کہا کہ مجھے ان کی وفات کے بعد احساس
ہوا کہ میں 25سال تک ایک زندہ ولی سے ملتا رہا۔کارخانہ قدرت میں فرد کی بڑی
اہمیت ہے۔اپنی زندگی میں فرد کی حیثیت سے اپنے فرائض سے اس طرح عہدہ
برآہوتے میں نے کسی اور کو نہیں دیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب کا
تذکرہ ان کی اہلیہ کے تذکرے کے بغیر نا مکمل ہے جنھوں عسرت بھری زندگی شکر
و صبر سے گزاری۔جیل کی مصیبتوں ،تنگ دستی ،مصائب ومشکلات سے بھری زندگی میں
اپنی اولاد کو پالنا با مقصد جدوجہد ہی سے ممکن تھا۔انھوں نے میاں صاحب کے
گھرانے کی تنگ دستی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا میاں احسن فاروق نے مجھے خود
بتایا:’’کہ ہم سکول جایا کرتے تھے کپڑے نہیں ہوتے تھے۔آٹے کے تھیلے ادھیڑ
کر ہمارے لیے کپڑے تیار کیے جاتے تھے‘‘میاں صاحب کے گھرانے کی تنگ دستی کا
یہ تذکرہ کرتے ہوئے اعجاز چودھری اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے خود بھی
آبدیدہ ہوئے اور سٹیج پر بیٹھے مہمانان اور سامعین پر رقت آمیز خاموشی چھا
گئی۔
میاں طفیل محمد ؒکی صاحب زادی پروفیسر سمیہ طفیل نے کہا کہ میں نے والد
صاحب کی خواہش کو وصیت سمجھ کر میاں طفیل محمد کی نظر میں اہل پاکستان کے
لیے راہ نجات مرتب کی۔اس کتاب میں ان ۲۲برسوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی
جو والد صاحب نے جماعت اسلامی پاکستان کی امارت سے فراغت کے بعد ایک عام
کارکن کی حیثیت سے گزارے۔
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے کہا زندگی میں آدمی کیسے نڈر ہو جاتا ہے؟اس سوال
کا جواب سید ابولاعلیٰ مودودی ؒاور میاں طفیل محمد ؒکی جانب سے ملا،کہ جب
دل میں خوف خدا گھر کر جائے تو ماسوائے اﷲ کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔انھوں نے
کہا کہ میاں طفیل محمد ؒصاحب کسی ظالم و جابر کو خاطر میں نہیں لاتے
تھے۔انھوں نے کہا کہ 1954ء میں لگنے والے ایوب مارشل لا کے خلاف میاں طفیل
محمد ؒکی جمہوری جدوجہد قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔معروف دانش ور اور
سنیئر صحافی سجاد میر نے کہا کہ مولانا مودودی ؒکے بعد میاں طفیل محمد ؒکے
امیر جماعت بننے کو میں مشیت ایزدی سمجھتا ہوں۔اس وقت اگر وہ امیرنہ بنتے
تو شاید جماعت ،مجتمع نہ رہ سکتی۔انھوں نے کہا کہ اسلامی تحریک پر اﷲ کا
فضل ہوتا ہے اس لیے مشیت ایزدی نے اسلامی تحریک کو ہر دور میں وہ قیادت دی
جس کی اس دور میں ضرورت تھی۔انھوں نے کہا کہ ملک میں نفاذ شریعت اور خلافت
چاہنے والے سراج الحق کو خلیفہ وقت مان لیں۔چیف ایڈیٹرروز نامہ پاکستان
مجیب الرحمن شامی نے میاں طفیل محمد ؒکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ
اس جیسا متقی اور پرہیز گار شخص آنکھوں نے شاید ہی دیکھا ہو۔انھوں نے کہا
73کے آئین کو بنانے اور پاس کروانے میں سید مودودی ؒاور میاں طفیل محمد ؒکا
بنیادی کردار ہے انھوں نے کہا کہ میاں طفیل محمد ؒوقتی سیاست اور مفادات سے
اوپر سوچتے انھوں نے اپنے دور امارت میں بعض انتہائی غیر مقبول فیصلے کیے
جن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔انھوں نے کہا کہ میاں صاحب سے میری پہلی
ملاقات 1964ء میں ساہیوال میں ہوئی جب میں کالج کے یونین کا صدر تھا۔آخر
وقت تک ملاقات اور استفاد ے کا سلسلہ چلتا رہا۔آج بھی ہمیں ان کی افکار سے
استفادے کی ضرورت ہے۔
معروف ماہر قانون اور سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر نے کہا کہ میاں طفیل
محمد ؒسے میری پہلی ملاقات 1950ء کی دہائی میں ہوئی اس موقع پر نصر اﷲ خان
عزیز بھی ساتھ تھے۔دوسری ملاقات مولانا مودودیؒکی رہائش گاہ پر ہوئی۔جب
جماعت پر پابندی لگی تو میاں صاحب اور چودھری رحمت الہٰی صاحب میرے پاس
آئے۔انھوں نے مجھے جماعت کا وکیل مقر ر کیا۔ہم نے مقدمہ لڑا،اﷲ نے کامیابی
دی اور جماعت سے پابندی ہٹا دی گئی۔انھوں نے کہا کہ میاں صاحب ایک مخلص رضا
کار،صاحب کردار شخص ،وفادار دوست، دیانت دار اور ہر قسم کے الائش سے پاک رہ
نما تھے۔
انھوں نے کہا کہ 1970ء میں پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے دو قوتیں
سرگرم عمل تھیں۔۱-فوج ۲-جماعت اسلامی۔جماعت اسلامی کے لوگ آج بھی قربانیاں
دے رہے ہیں انھیں پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں ایک جعلی اور فراڈ
ٹربیونل کے ذریعے سے پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ جماعت
اسلامی پاکستان اس سلسلے میں ڈپلومیٹک کردار ادا کرے اور عالمی ادارہ انصاف
سے رجوع کرے میں حسینہ واجد کے جعلی ٹربیونل کے خلاف مقدمہ لڑنے کے لیے
تیار ہوں۔
سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان چودھری محمد اسلم سلیمی نے کہا کہ
میاں صاحب ان لصلوٰتی و نُسُکی و محیای و مماتی ﷲِ رب العالمین کی عملی
تفسیر تھے۔وہ سراپا اخلاص اور صبغت اﷲ میں رنگے ہوئے تھے۔جماعت اسلامی کی
تنظیم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے کہا کہ ہم پر بہن سمیہ طفیل
کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے جنھوں نے اپنے عظیم باپ کے افکار پر ایک شان دار
کتا ب مرتب کی۔انھوں نے کہا کہ میاں صاحب اخلاص و وفا کے پیکر اور ریاکاری
سے پاک تھے۔وہ چاہتے تو برصغیر کے بڑے وکیل بن سکتے تھے۔لیکن انھوں نے اپنا
مستقبل اور بچوں کا مستقبل اقامت دین کی جدوجہد پر قربان کیا۔اس موقع پر
امیر جماعت نے کہا کہ رمضان میں روضہ نبی کے پاس وزیر اعظم نواز شریف سے
ملاقات کی اور ان سے تین مطالبات کیے۔
٭ ایک یہ کہ ملک میں جاری سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ سود اﷲ اور
اس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے اس لیے سودی نظام کے ہوتے ہوئے ملک میں خوش حالی
ممکن نہیں۔
٭ دوسرا فحاشی و عریانی کے خلاف بند باندھا جائے۔
٭ تیسرا یہ کہ افغانستان میں پراکسی وار کے خاتمے میں کردار ادا کیا جائے
کیونکہ اس کے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔
انھوں نے حال ہی میں مشیر خارجہ سرتاج سے ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا
کہ ہم نے ان سے بنگلہ دیش میں جاری مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ
کیا ۔اس سیمی نار سے اسداﷲ بھٹو،احسن فاروق،ارشد فارانی،اور یا مقبول جان
نے بھی خطاب کیا۔
|