حکومت وقت کی بے جا ترجیحات
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
ارض و سماں پر صرف اور صرف رب
دوجہاں کی کرسی تا قیامت رہے گی اور حقیقی بادشاہت صرف رب کا خاصہ ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے زمین پر انسان کو اپنا نائب بنایا اور پھر کچھ لوگوں کو آزمائش
کے لیے زمین پر تخت و تاج عطا کردیے۔اور یہ بھی باور کرادیا کہ اس زمین پر
یہ تمام اختیارات بطور امانت استعمال ہونگے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ
بہشت کے اعلیٰ ترین مقام کی تگ ودو کرتاہے یا پھر دوزخ کی اتھاہ گہرائیوں
میں جانے کے ساماں پیدا کرتاہے۔ اپنی رعایا کی جان و مال کی حفاظت کے علاوہ
انکی بنیادی ضروریات زندگی کی دستیابی حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہوا
کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان سے اب تک ہر حاکم اور ہر آمر نے ارض
پاک کو حسب توفیق اور حسب موقع لوٹا۔ قدرتی آفات، طوفان ، سیلاب اور زلزلوں
میں ارکان پارلیمنٹ اور حکمران ٹولہ اپنی سیاست میں مزید چمک پیدا کرنے کی
غرض سے فوٹو سیشن میں مصروف عمل دکھائی دیتا رہا۔
مسلم لیگ نواز گروپ کا یہ ابتداء سے ہی المیہ رہا ہے کہ اس نے کبھی قدرتی
آفات کا سامنا کیا تو کبھی خودساختہ بحرانوں کا۔ سیلاب تو لگتا ہے اس حکومت
کا جزو لازم ہے۔ جب بھی یہ اقتدار میں آئے سیلاب ساتھ لائے۔ تمام تر زمینی
حقائق اور پہلے سے موجود خطرات کے باوجود اس حکومت کو کبھی بھی توفیق نہیں
ہوئی کہ سیلاب سے بروقت نمٹنے کیلئے کوئی قابل ستائش اقدام اٹھاتی۔ سیلاب
آنے کے بعد ایسے حیرت کا اظہار کیا جاتاہے جیسے کوئی انہونی ہوگئی ہے۔ اس
حکومت کے میگا پراجیکٹس میں کبھی بھی نئے ڈیموں کے لیے یا پھر بندوں اور
پشتوں کی مضبوطی کے لیے کوئی بجٹ نہیں رکھا گیا۔سیلاب فیسٹیول میں اس حکومت
کے وزراء اور ارکان اسمبلی فوٹوسیشن کو ہی انجوائے کرتے رہے۔خادم اعلیٰ
سمیت کئی وفاقی اور صوبائی وزراء نے سیلاب سے نمٹنے کیلئے بڑے بڑے بوٹ بنوا
رکھے ہیں ۔مجھے یقین قوی ہے کہ جس دن بے رحم موجوں نے جاتی اُمراء اور ماڈل
ٹاؤن کی راہ دیکھ لی اس دن سے ملک میں سیلاب نہیں آئیں گے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وہ ملک جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہاہو،
جہاں آئے روز بھوک اور افلاس سے تنگ لوگ دریا میں بچوں سمیت کودجاتے ہوں،
جہاں سرچھپانے کو سائباں نہ ہو، جہاں بے روزگار نوجوان احساس محرومی کا
شکار ہو کر خود کشیاں کررہے ہیں، "جہاں بچے برائے فروخت" کے بینرز ہر
چوراہے پر عام ہوں، جہاں انصاف کی قیمت غریب کی ساری زندگی کی جمع پونجی سے
کہیں بڑھ کر ہو، جہاں دو کروڑ بچوں کے ہاتھوں میں قلم کی بجائے اوزار ہوں
اور وہ سکول جانے کی بجائے ورکشاپوں ، ہوٹلوں اور بسوں میں زندگی کی
الجھنوں کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہوں وہاں حکومت وقت میٹروبس ، گرین بس اور
کارپیٹڈ روڈ کے انتہائی غیر ضروری منصوبوں پر قوم کے خون پسینے کی کمائی
ڈبو رہی ہے۔ جہاں ابھی تختی اور قلم کی ضرورت تھی وہاں لیپ ٹاپ تقسیم کردیے
گئے۔ جہاں ابھی اناج کی قیمت کم کرنے کی ضرورت تھی وہاں قوم کے اربوں روپے
سستے تندوروں کی نظر کردیے گئے۔ جہاں ابھی سستے سفر کی ضرورت تھی وہاں گرین
ٹرین کا آغاز کردیاگیا۔ ہم ابھی اکیسویں صدی میں پوری طرح داخل ہی نہیں
ہوئے اور حکمران ہمیں بائیسویں صدی کی طرف لے جارہے ہیں۔ چین جیسے ترقی
یافتہ ملک کے منصوبوں کا پاکستان جیسے ترقی پذیر بلکہ پسماندہ ملک میں
اطلاق غریب کی غربت کے ساتھ ایک مزاق ہے۔
ترقی کا کون دشمن ہے ؟لیکن پہلے موت سے بچنے کی ادویات ہسپتالوں کو فراہم
کی جائیں۔ جان بچانے والی ویکسین ہسپتالوں میں دستیاب نہیں اور ہم
انٹرنیشنل سطح پر اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں ہیں۔ سرکاری سکولوں کی چار
دیواری تک نہیں ہے۔ شام کو بھوکے سوجانے والے طالب علم کی بھوک لیپ ٹاپ
نہیں مٹا سکتا ہاں البتہ وہ اسے بیچ کر دوتین ماہ راشن پور اکرسکتا ہے اور
ایسا ہی ہو رہاہے اورایک تحقیق کے مطابق 50% لیپ ٹاپ نصف قیمت پر بیچ دیے
گئے ہیں اور باقی نصف کے نصف کا استعمال صرف اور صرف فحاش اور عریاں فلمیں
دیکھنے میں ہورہاہے۔ باقی 25% میں سے 20% لیپ ٹاپ انٹرنیٹ پر فیس بک ، وٹس
ایپ اور ٹوئیٹر کے فضول استعمال کی نظر ہوچکے ہیں۔
ابھی رمضان بازاروں کا ایک نیا ڈرامہ رچایا گیا اور اسکی تشہیری مہم پر اس
سے دوگنا خرچ کیاگیااور رمضان بازاروں میں رینٹ اور دیگر کرائے پر حاصل کیے
گئے سامان پر کروڑوں کا خرچ آیا۔ کیا یہ سارا فائدہ رمضان کے مہینے میں
200یا 300 سے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین بجلی کے بلوں میں رعایت کی
صورت میں بھی تو دیا جاسکتا تھا جو ایک براہ راست فائدہ ہوتا۔ آئے روز
منسٹرز اور بیوروکریسی اور ان کے پروٹوکول کے دوروں پر اٹھنے والا خرچ اس
کے علاوہ ہے۔ تیسری دفعہ بر سر اقتدار آنے کے باوجود لگتاہے کہ مسلم لیگ
نواز نے ماضی سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ جناب وزیراعظم کے بیرونی دوروں کی
لمبی فہرست ہے اور انکے چھوٹے بھائی جو کبھی مینار پاکستان کے سائے میں
ٹینٹ لگایا کرتے تھے انہوں نے بجلی کے بحران کو ختم کرنے کی متعدد ڈیڈلائن
دیں جبکہ اب تک دوسال گزرنے کے باوجود 500میگا واٹ بجلی بھی سسٹم میں شامل
نہیں ہوسکی۔ تعلیمی ایمرجینسی نافظ کرنے کے دعوے صرف دعوں کے حد تک محدود
رہ گئے۔
میری سمجھ اور دانست سے یہ سب کچھ بالا تر ہے کہ ان کو غلط راہ پر ڈالنے
والے کون ہیں ۔ان کے نورتن آج بھی وہی ہیں جو 1990 میں تھے۔ اس وقت اپوزیشن
جماعتیں خود یا تو بکھراؤ کا شکارہیں یا پھر پسپائی کا۔ کسی بھی مضبوط اور
مزاحمت پیدا کرنے والی اپوزیشن کی عدم موجودگی میں بھی یہ حکومت غلطیاں در
غلطیاں کرتی جارہی ہے۔ جنتا اور جنتادل کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایازوں کی صف آج محمودوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور درے ہے ۔
عدم استحکام ، بے یقینی ، بے حسی، نظر اندازی ، ناانصافی ، انتشار اور خوف
کے جزبات ہمارے معاشرے کی رگوں میں سرائیت کررہے ہیں۔ اور ایسا معاشرہ جو
صدیق اکبرؓ کے صدق اور عمرفاروقؓ کے عدل سے عاری ہو اور جہاں سخاوت عثمانؓ
اور شجاعت علیؓ کا قطعی فقدان ہو وہ معاشرہ کبھی بھی پنپ نہیں سکتا۔ جہاں
شریعت محمدی اور احکام الٰہی کی پاسداری کا نام تک نہ ہو وہ معاشرہ ایک دن
مٹ جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں حکمران روزقیامت کٹہرے میں ہونگے وہاں
ان کو منتخب کرنے والوں سے بھی لازماََ پوچھ گچھ ہوگی۔ دریائے فرات کے
کنارے بکری کے بچے کے بھوکا رہنے کی ذمہ داری قبول کرنے والے حکمران کے
پیروکاروں کے تو ہم عظیم دعویدار ہیں لیکن عملاََ یہاں ہر روز بے جر م وخطا
ہزاروں لوگ موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔ وطن عزیز میں انتہا پسندی اور شدت
پسندی عروج پر ہے ۔ ملک اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار ہے افواج
پاکستان سرحدوں پر وطن عزیز کے دفاع کے ساتھ ساتھ ضرب عضب میں مشغول ہے اور
ان دنوں متاثرین سیلاب کی ہر ممکن مدد کررہی ہے اللہ تعالیٰ ان کی خصوصی
مدد فرمائے۔ نام نہاد جمہوریت کے دعویدار جزو وقتی وزیر اعظم اور ان کے
جوشیلے بھائی کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ وہ میٹرواور گرین ٹرین سے
نیچے اتر کر نظر دوڑائیں تو انہیں حالات کی پسی بے بس اور بے کس عوام نظر
آئے جنہوں نے انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس منصب تک پہنچایا۔ عوامی
مینڈیٹ کا حقیقی احترام عوامی مسائل کے حل میں ہے۔ ملک کی ایک کثیر آبادی
اس وقت پانی کی زد میں ہے ۔ خدارا ان کا درماں بنیے۔ نہیں تو یاد رکھیے
روزقیامت آپ کا گریباں ہو گا اور ان کا ہاتھ اور ان کے ہاتھ کے ساتھ اس ذات
کا ہاتھ ہوگا جو غفار تو ہے لیکن قہار بھی ہے۔ اور کتنا کھانا ہے اس ملک کو
اور اسکے باسیوں کا اور کتنا لہو پینا ہے ۔ مرے ہوؤں کو اور کتنا مارنا ہے۔
آخر میں میں صرف اتنی التجاء کروں گا کہ خدارا خونی انقلاب کی راہ ہموار مت
کریں جسکا نتیجہ ہم سمیت آپکی بھی تباہی اور بربادی ہوگا۔ |
|