سیلاب کی تباہ کاریاں ……ہماری ذمہ داریاں

میں بات کا آغاز کرنے سے قبل ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں، یہ واقعہ قیام پاکستان سے قبل ہونے والے انتخابات سے متعلق ہے، ہمارے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروز والا کا ایک گاؤں ’’قلعہ ستار شاہ ‘‘ کے سید منظور حسین شاہ بخاری مسلم لیگ کے امیدوار تھے سید منظور حسین شاہ بخاری کا اس وقت شمار بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا اور ان کے مدمقابل ہمارے گاؤں شرقپور شریف کی ہر دلعزیز شخصیت ملک مظفر علی تھے اور وہ یونینیسٹ پارٹی کے امیدوار نامزد ہوئے، انتخابات کے روزسید منظور حسین شاہ بخاری اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ پولنگ اسٹیشنوں کے چکر لگاتے ہوئے گورنمنٹ پائیلٹ سکینڈری سکول شرقپور بھی پہنچے ،وہاں انکا آمنا سامنا اپنے مدمقابل سے ہوا دونوں نے ایک دوسرے سے ’’ جھپی‘‘ڈالی اور ایک دوسرے کا احوال بھی دریافت کیا، ملک مظفر علی مرحوم نے یہ کہتے ہوئے اجازت چاہی کہ شاہ جی بعد میں ملتے ہیں الیکشن ہو جائے مگر سید منظور حسین شاہ نے جواب میں کہا کہ ’’ ملک یار آ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں الیکشن ہوتا رہے گا‘‘…… الیکشن ہوگیا جیت مسلم لیگ کا مقدر بنی ،اور وقت گزرتا گیا،شرقپور شریف کا غریب آدمی اپنے کسی مسلے کے حل کی تلاش میں ’’ قلعہ ستار شاہ‘‘ پہنچ گیا اور سید منظور حسین شاہ بخاری کے ڈیرے پر حاضرہوا …… بخاری صاحب نے ڈیرے پر موجود ہر فرد سے فردا فردا نے کا سبب دریافت کیا تو شرقپور کے غریب آدمی نے اپنی باری پر بتایا کہ وہ شرقپور شریف سے آیا ہے تو شاہ جی نے کہا کہ وہاں ملک مظفر علی صاحب کے پاس چلے جانا تھا یہاں آنے کی زخمت کیوں اٹھائی؟ غریب آدمی نے دل میں سوچا شاہ جی سمھے ہوں گے کہ میں نے ووٹ ملک مظفر علی کو دیا ہوگا اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ ملک صاحب کے پاس جانا تھا ، شاہ صاحب کی بات کے جواب میں اس نے کہا کہ شاہ جی میں نے ووٹ آپ کو دیا تھا ملک مظفر علی کو نہیں…… اپنے ڈیرے پر آئے ہوئے سائل کی زبان سے یہ سن کر شاہ جی نے جو جواب دیا وہ ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک سبق اور نصیحت ہے، شاہ جی نے شرقپور شریف کے غریب آدمی سے کہا ’’بھاڑ میں جائیں ووٹ واپس شرقپور جاکر ملک مظفر علی سے کہنا کہ سید منظور حسین شاہ بخاری کہتا ہے کہ تیری زندگی میں شرقپور سے لوگوں کا میرے پاس آنا میرے لیے مرجانے کا مقام ہے‘‘ یعنی تمہارے ہوتے ہوئے لوگوں کا اپنے مسائل کے حل قلعہ ستار شاہ آنا ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔

اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ سیاست کو سیاست تک اور الیکشن کو الیکشن تک محدود رہنا چاہیے نا کہ اسے ذاتی دشمنی میں تبدیل کرکے ایک دوسرے کی عزتیں پامال کی جائیں،جیساآجکل سیاسی مخالفین کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے، میرا پیارا وطن عزیز آجکل طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بے رحم ریلوں کی زد میں ہے، چترال سے راجن پور تک ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ،مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں، درجنوں انسانی زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں ہیں،جو قیقیتی مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں انکا بھی کوئی حساب کتاب نہیں لیکن ہمارے ارباب اقتدار و اختیار جوڈیشل کمیشن کی انکوائری رپورٹ کو لیکر ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں، کسی کو احساس نہیں کہ سیلاب کے بے رحم ریلوں کی نذر ہونے والے بھی اس ملک کے باسی ہیں اور انکے ووٹر …… حکومت اور اپوزیشن باہم ملکر ان قسمت کے ماروں کے دکھوں کا مداوا کریں سیاست ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔

ملک کی اس صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ ہم ذمہ دار قوم بنیں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے اجتناب برتیں جن سے ہماری بحثیت قوم جنگ ہنسائی کا سامان پیدا ہو……بڑے دکھ اور شرم کی بات ہے کہ سیاسی قائدین کی جانب سے اپنی اپنی جماعتوں کے کارکنوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ وہ متاثرین سیلاب کی ہر ممکن مدد کریں لیکن ابھی تک یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں…… سندھ کی بات کو ایک طرف رکھتے ہیں کہ وہاں تو پیر سائیں ’’نیندر شاہ صاحب‘‘ ہیں ، باقی خیبر پختونخواہ ا کے وزیر اعلی پرویز خٹک اپنے پارٹی قائد عمران خاں اور انکی بیگم صاحب کی خدمت میں لگے رہنے کے باوجود تھوڑی بہت بھاگ دوڑ کر رہے ہیں جبکہ پنجاب کے وزیر اعلی گاؤ ں گاؤں جا رہے ہیں ،اور بیوروکریسی کو ’’نتھ ‘‘ ڈال رکھی ہے ، ان کے وزرا بھی ’’بچہ جمہورا‘‘ پلے کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں-

اطلاعات کے مطابق افسر شاہی حسب عادت وزیر اعظم کو ایکبار پھر ماموں بنانے میں کامیاب رہی، وزیر اعظم سیلاب متاثیرین کی تکالیف کا جائزہ لینے اور ان سے اظہار یکجہتی کرنے ایک مقام پر تشریف لے گئے ،متاثرین سے انہوں نے خطاب بھی فرمایا افسران کو ان کی مدد کرنے میں کسی قسم کی کتاہی نہ برتنے کی ہدایات بھی دیں مگر ان کے پرواز کرتے ہی سب کچھ ویران ہوگیا، وزیر اعظم کے لیے سجایا گیا میلہ اجڑ گیا …… یہ صورتحال بڑی تکلیف دہ ہے،ایسا پچھلے سیلاب میں اور اس سے پچھلے سیلاب میں بھی ہوتا رہا ہے ،لیکن نہ کسی نے نوٹس لیا اور نہ کوئی معطلی کی زد میں آیا جسکا نتیجہ ہے کہ افسر شاہی حکمرانوں کو ’’الو ‘‘بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوہزار دس کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے اسباب معلوم کرنے کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس نے اپنی رپورٹ پیش کی اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے ذمہ داران کا بھی تعین کیا گیا لیکن اس رپورٹ پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ الٹا جن افسران کو ذمہ دار قراردیکر سزا کا مستحق گردانا گیا تھا انہیں ترقیوں سے نوازا ۔

ہماری اسے بد قسمتی کہیں یا کچھ اور کہ قائد اعظم کی موت،قائد ملت لیاقت علی خان کے دن دیہاڑے اور بھرے مجمع عام مین قتل، پاکستان کے دو لخت کیے جانے ، جنرل ضیا ء الحق کی فضا ئی حادثے میں ہلاکت، بے نظیر بھٹو کی شہادت، اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے امریکی آپریشن ، سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے لیے قائم انکوائری کمیشنوں کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں لائی گی اور تو اور ابھی حال ہی میں رونما ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کی حکومت ہمت نہیں کر رہی جس کے باعث عوام میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں جو خطرناک بھی ہیں اور پریشان کن بھی۔

مشکل کی اس گھڑی میں ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن کی جماعتوں کو تدبرکا مطاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، سب کو متحد ہوکر سیلاب متاثرین کی بحالی اور نقصانات کے ازالے کے لیے کام کرنا ہوگا…… جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہمیشہ متنازعہ رہے گی ، اس کمیشن کے سامنے دھاندلی کا کھوج لگانا تھا اور عمران خاں اور دیگر کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودہری پر دھاندلی میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ جوڈیشل کمیشن اپنے سابقہ باس کی ذات مقدس پر کسی قسم کا حرف آنے دیتا، سو اس نے گول مول کرکے اپنے باس کو تحفظ فراہم کیا ہے لہذا رپورٹ کو لیکر اس پر کسی کو جیت کا جشن منانے کی ضرورت ہے اور نہ کسی کو ناکامی کے احساس کے غم میں ڈوبے رہنا چاہیے، ملک وقو م کی فلاح سب جماعتوں کا نعرہ ،منشور ہے، اس لیے انہیں آگے کی جانب سوچنا چاہیے کیونکہ لیڈر وہی ہوتا ہے جس کی نگاہ مستقبل پر ہوتی ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144502 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.