9جون 2015ء کو حکومت پاکستان کے
اکنامک آفئیر ڈویژن نے ایک خط کے ذریعے سے امریکی این جی او سیو دی چلڈرن
کو پاکستان میں کام بند کرنے اور 15دن کے اندر اپنے غیر ملکی ملازمین کو
پاکستان سے نکالنے کا حکم جاری کیا۔اگلے دن وزارت داخلہ کی جانب سے جاری
ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سیو دی چلڈرن پر پابندی لگانے کا حکم خفیہ
اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔12جون 2015ء کو پاکستان کے وفاقی وزیر
داخلہ چودھری نثار علی خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے
بات کرتے ہوئے کہا کہ غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن ایسی سرگرمیوں میں
ملوث ہے جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہیں۔خفیہ اداروں نے متعدد بار رپورٹیں
پیش کی ہیں۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دو ایسی غیرسرکاری
تنظیمیں بھی کام کرتی رہی ہیں جو پاکستان میں نہیں بلکہ افریقی ممالک میں
رجسٹرڈ تھیں اور ان تنظیموں نے بلوچستان اور گلگت بلتستان سے متعلق منفی
پروپیگنڈا اور من گھڑت خبریں دینا شروع کردیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان اس
معاملے کو غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی میں لے کر گیا
جہاں پر عمومی طور پر معاملات اتفاق رائے سے طے پاتے ہیں لیکن ان دو غیر
سرکاری تنظیموں کے معاملے میں ووٹنگ کروائی گئی جس میں 12ارکان نے پاکستان
کے جبکہ تین ممالک نے ان غیر سرکاری تنظیموں کے موقف کی حمایت کی۔یہ تین
ممالک :امریکا،بھارت اور اسرائیل تھے۔
واضح رہے کہ سیو دی چلڈرن نامی اس تنظیم کا معاملہ پاکستان میں مئی 2011ء
میں ایبٹ آباد اپریشن کے بعد اُس وقت زیر بحث آیاجب امریکی خفیہ ادارے سی
آئی اے نے اُسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے مبینہ طور پرمذکورہ تنظیم
کے ذریعے سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی نگرانی میں چلائی جانے والی جعلی ویکسی
نیشن کی مہم کی بات سامنے آئی تھی۔امریکیوں کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کے قتل
کے بعد شکیل آفرید ی کی گرفتاری عمل میں آئی اور اس پورے معاملے کی چھان
بین کے لیے جون 2011ء میں ایبٹ آباد کمیشن بنا جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے
جج جسٹس جاوید اقبال مقرر ہوئے۔
2012ء میں ایک دفعہ پہلے بھی پاکستانی حکام نے سیو دی چلڈرن کے غیر ملکی
اہلکاروں کو دو ہفتوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔تاہم بعد میں یہ
معاملہ رفع دفع ہوگیا۔سیو دی چلڈرن کے خلاف حالیہ حکومتی اقدامات کو ایک
طرف سوشل میڈیا ،اخبارات کی ویب سائٹوں پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق
رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں سراہا ہے،جبکہ دوسری طرف امریکا کے سٹیٹ
ڈیپارٹمنٹ کے سپوکس پرسن جان کیر بائی (John kirby)نے سیو دی چلڈرن پر
حکومت پاکستان کی طرف سے لگائی گئی پابندی پر غم و غصے کا اظہار کیا۔لہٰذا
اگلے دن حکومت پاکستا ن کی جانب سے تا حکم ثانی پابندی کے احکامات واپس
لینے کی خبریں تمام اخبارات کی زینت بنیں۔
سیو دی چلڈرن کیا ہے؟اور اس کے عزائم کیا ہیں؟اور پاکستان میں یہ کیونکر
متنازع بنی ؟آئیے اس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سیو دی چلڈرن ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1932ء میں امریکا
کے علاقے ہرلن کنٹیکی میں رکھی گئی۔ابتدا میں اس تنظیم کا کام اسی مخصوص
علاقے میں بچوں کو کپڑوں ،کتابوں اوردوپہر کے گرم کھانے کی فراہمی تک محدود
رہا۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کا کام امریکا کے مختلف شہروں میں
پھیلتا گیا بالآخر امریکی سرحدوں کو پھلانگ گیا۔اس وقت یہ تنظیم تعلیم ،صحت
اور قدرتی آفات میں ریلیف کی فراہمی کے نام پر دنیا کے120ممالک میں اپنا
وجود رکھتی ہے۔یہ تنظیم بنگلادیش میں 1970ء سے جب کہ پاکستان میں1979ء سے
سرگرم عمل ہے۔اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان میں اب تک 8
لاکھ80ہزار601بچوں کی مدد کی ہے۔
مئی 2011ء میں امریکی میرین کی ایبٹ آباد اپریشن کے بعد یہ تنظیم پاکستان
کے خفیہ اداروں کی نظر میں آگئی اور ایبٹ آباد کمیشن نے اس تنظیم کے حقیقی
عزائم کو منظر عام پر لا کر اس کی فلاحی خدمت کے دعوؤں کا بھانڈا بیچ
چوراہے پھوڑ دیا۔اس کمیشن کی رپورٹ پہلی دفعہ 8جولائی 2013ء کو الجزیرہ کے
ذریعے سے منظر عام پر آئی جس کا ایک باب(باب 12) ڈاکٹر شکیل آفریدی اور سیو
دی چلڈرن کے لیے خاص ہے ۔اس رپورٹ میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کا یہ بیان درج ہے
کہ’’میں سیو دی چلڈرن کے سربراہ اسٹریلوی باشندے ڈاکٹر مائکل میک گریتھ(Dr
Michael McGrath)سے ملا۔اس ملاقات میں منگل باغ کے ساتھ مالی تعاون کا
تذکرہ بھی چھڑا۔انھوں نے مجھے ملاقات کے لیے اسلام آباد آنے کی دعوت دی۔میں
ان کے کہنے پر اسلام آباد گیا جہاں سیو دی چلڈرن کے ایک اور ذمہ
دارکیٹ(kate)سے میری متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔(ص 110)کمیشن کا کہنا ہے کہ
ڈاکٹر شکیل آفریدی نے تسلیم کیا کہ سیو دی چلڈرن کی جانب سے ان کے ذاتی
اکاونٹ میں 1.3ملین روپے جمع کیے گئے۔(ص 112)
رپورٹ میں خیبر پختون خوا حکومت کے نیشنل فیمیلی پلاننگ اور پرائمری ہیلتھ
کئیر کے صوبائی رابطہ کار ڈاکٹر احسان اﷲ ترابی کی یہ شہادت بھی ریکارڈ پر
ہے کہ ’’سیو دی چلڈرن کی شہرت اچھی نہیں ہے کیونکہ یہ امریکا کے لیے کام کر
رہی ہے۔(ص117)
اُ س وقت کے سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائیرکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ تھوماس رائیٹ (Dr
David Thomas Wright) نے شکیل آفریدی کے بیان کی تردیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ
ڈاکٹر آفریدی ان 50ہزار ڈاکٹروں میں سے ایک ہے جن کو سیو دی چلڈرن نے تربیت
دی ۔انھوں نے دو دفعہ مذکورہ تنظیم میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی لیکن
وہ دونوں دفعہ ملازمت کے حصول میں ناکام رہے۔با الفاظ دیگر ڈاکٹر آفریدی کا
سیو دی چلڈرن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
ایک طرف سیو دی چلڈرن کے ذمہ داران شکیل آفریدی سے لا تعلقی کا اظہار کررہے
ہیں دوسری طرف اسی تنظیم کی منظر عام پر آنے والی ای میل ریکارڈ سے معلوم
ہوتا ہے کہ وہ ایبٹ آباد کمیشن میں نفوذ کرنے ،کمیشن کے اراکین کے ساتھ جوڑ
توڑ کرنے اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے
ہیں ۔کمیشن کا ایک رکن لیفٹیننٹ جنرل (ر)ندیم احمد سیو دی چلڈرن کو کمیشن
کی کارروائی فراہم کرتا،روداد بتاتا اور مشورے دیتا رہاہے۔
سیو دی چلڈرن کو بھیجی جانے والی کی ایک ای میل میں جنرل ندیم رقم طراز
ہے:’’ابتدائی رپورٹ ہمارے دوستوں نے تیارکی تھی چیرمین (جسٹس جاوید اقبال)
نے بھی اس کی منظوری دی تھی لیکن کمیشن کا ایک رکن اشرف جہانگیر قاضی اس
رپورٹ کے ساتھ متفق نہیں۔اس نے اختلافی نوٹ لکھا ہے جس میں انھوں نے جسٹس
جاوید اقبال اور جنرل (ر)ندیم کو بھی سیو دی چلڈرن کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے
پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔کمیشن اس اختلافی نوٹ کے ساتھ رپورٹ جاری نہیں
کرسکتا کیونکہ اس طرح کمیشن کے ارکان کی ساکھ مجروح ہوجائے گی لہٰذا اب ہم
اس اختلافی نوٹ کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
سیو دی چلڈرن کے ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا
ہے:’’جسٹس جاوید اقبال اور جنرل(ر)ندیم کو اس کام (اختلافی نوٹ کو غیر مؤثر
کرنے) کے لیے غیر معمولی کام کرنا پڑے گا۔‘‘جنرل (ر)ندیم ایک موقع پر
مذکورہ تنظیم کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتا ہے’’سیو دی چلڈرن کو وزارت داخلہ
اور اکنامک آفئیر ڈویژن کے ساتھ تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔اس کا م میں دو
تین مہینے تو لگ سکتے ہیں لیکن حالات کو اپنے حق میں کرنے یہی طریقہ ہے۔‘‘
ای میل ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ جون2012ء میں مذکورہ این جی او کوکمیشن
رپورٹ کے چار مسودات تک رسائی دی گئی۔حیران کُن بات یہ ہے کہ کمیشن کی
رپورٹ وزیراعظم کو دکھانے سے پہلے سیو دی چلڈرن کو دکھائی گئی۔اس سے بھی
زیادہ حیران کُن بات یہ کہ ہوش رُبا انکشافات پر مبنی مذکورہ بالا ای میل
ریکارڈ سامنے آنے پر سیو دی چلڈرن کے حکام نے کسی تشویش اور تردید کی ضرورت
محسوس نہیں کی بلکہ بڑے اعتماد سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’ایبٹ آباد کمیشن
اور ان کے ارکان بشمول جنرل(ر) ندیم کے ساتھ ہمارا رابطہ اور تعلق قانون کے
دائرے میں تھا۔‘‘
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ،سیو دی چلڈرن کی منظرعام پر آنے والی ای میل
ریکارڈ،امریکی کانگریس کے اراکین کا شکیل آفریدی کو اپنا ہیرو قرار
دینا،محتلف اوقات میں امریکا کا شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے دھونس اور
دھمکیاں،وزیر داخلہ کا حالیہ بیان،جان کیربائی کا اظہار تشویش اور جان کیری
کی طرف سے سیو دی چلڈرن کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی فرمائش ،اور پاکستان
کے حکمرانوں کی روایتی بے بسی ،لاچارگی اور ذلت آمیز محکومی نے ایک دفعہ
پھر ریمنڈ ڈیوس کی یاد تازہ کردی ہے۔فرق یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی تنظیم خفیہ
تھی اور غیر قانونی سمجھی جاتی تھی۔سیو دی چلڈرن کو’’قانون ‘‘ کا تحفظ بھی
حاصل ہے اور شکیل آفریدی ،جنرل ندیم اور جسٹس جاوید اقبال جیسے افراد کار
کی خدمات بھی۔
اس صورت حال میں عام آدمی کے یہ بے ربط سوالات با لکل بے معنی ہوجاتے ہیں
کہ :
بلوچستان ،خیبر پختون خوا اور کراچی میں دہشت گردی کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے؟
کیا پاکستان میں غیر ملکی این جی اوز پر نظر رکھنے کا کوئی نظام نہیں؟
اگر امریکی دباؤ کو دو دن بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا تو پابندی کا تکلف چہ
معنی دارد؟
ہم خود مختاری ،ملکی سا لمیت،آزادی اور قومی غیرت کی بات کس منہ سے کرتے
ہیں؟ |