۹۶ سالہ ریٹائرڈ جرنیل اور نام
ور سیاست دان جنرل عبدالمجیدملک نے آپ بیتی لکھی ہے۔آپ بیتی زندگی کے
تجربات کو نئی نسل کے ساتھ شئیر کرنے کا نام ہے تاکہ وہ اس سے رہنمائی حاصل
کرے اور ان غلطیوں سے اپنے آپ کو بچائے جو مصنف اور ان کے ہم عصروں سے سرزد
ہوئی تھیں ۔آئیے ہم ان کی آپ بیتی کی روشنی میں ان کی زند گی کے اہم واقعات
کا جائزہ لیں۔
چکوال کے ایک دور افتادہ گاؤں ’جُندساؤ‘ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ
کھولنے والے عبدالمجید فوج میں سپاہی کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوئے ۔بعد میں
کمیشن حاصل کی اور ترقی کرتے کرتے جرنیل بنے۔ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصے کے
لیے مراکش میں پاکستان کے سفیر رہے۔بعد ازاں سیاست میں حصہ لیا اور پانچ
دفعہ اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور کئی دفعہ وفاقی وزیر
کے منصب پر فائز رہے۔
یوں تو زیر نظر کتاب ایک فرد کی بھرپور زندگی کی کہانی ہے لیکن دیکھا جائے
تو یہ تقریباً ایک صدی کی تاریخ ہے ۔صدی بھی ایسی جس میں جنگ عظیم اوّل و
دوم،ہندستان کی جدو جہد آزادی اورہجرت جیسے کئی تاریخ ساز واقعات رونما
ہوئے۔علاوہ ازیں اس میں۱۹۵۸ء کے مارشل لا،۱۹۶۵ء،۱۹۷۱ء،۱۹۹۹ء(کارگل)کی پاک
بھارت جنگوں،ضیا ،بھٹوکے ادواراور حکومتوں کے پے درپے تبدیلی کے واقعات بھی
ہیں،ان میں ایسے واقعات بھی ہیں مصنف جن کا حصہ رہے ہیں اور ایسے بھی ہیں
جن کو مصنف نے قریب سے دیکھا۔
۱۹۴۴ء میں وہ سیکنڈلیفٹیننٹ کی حیثیت سے میرٹھ میں تعینات تھے اسی دوران
میں مسلم لیگ کے سینیر رہنما نواب محمد اسماعیل خان کے گھر آنا جانا ہوا،یو
ں انھیں تحریک پاکستان سے دل چسپی پیداہوئی جو بعد میں جنون کی حد تک محبت
میں تبدیل ہوگئی ۔۱۹۴۶ء میں حسین شہید سہروردی اور مہاتما گاندھی کے درمیان
ہندو مسلم فسادات کو روکنے کے لیے مذاکرات کو قریب سے دیکھنے کا موقع
ملا۔مذاکرات دوران میں ان قائدین کی حفاظت کے لیے فیصلہ ہوا کہ سہروردی کی
حفاظت ہندو فوجی دستے کریں جبکہ گاندھی کی حفاظت مسلمان فوجی سرانجام
دیں۔گاندھی کی حفاظت کے لیے تعینات مسلمان فوجیوں کی قیادت نوجوان آفیسر
مجید ملک کے حصے میں آئی۔(ص ۴۶) ۱۳،۱۴ ؍اگست ۱۹۴۷ء کے درمیانی رات مسلم لیگ
کے پرچم کے ساتھ سفید پٹی لگا کر (اپنی دانست کے مطابق) پاکستان کا قومی
پرچم تیار کرکے رات ۱۲ بجے رانچی (انڈیا) کے فضاؤں میں لہراکر پہلی سلامی
دی۔(ص ۴۷،۴۸)۔۱۹۴۸ء میں ایک ہفتے کے لیے قائداعظم کے (عارضی) اے ڈی سی بھی
رہے (ص۵۷)۔۱۹۵۸ء کے پہلے مارشل لا کے پانچ چھے منصوبہ سازوں میں سے ایک
مصنف (تب میجرعبدالمجید) بھی تھے۔اس مارشل لا کی منصوبہ بندی اتنی خفیہ تھی
کہ ملٹری انٹیلی جنس بھی اس سے بے خبر تھی ۔ملک صاحب ہی نے جی ایچ کیو سے
مارشل لا کا ریکارڈ کراچی پہنچایا تھا۔اس وقت جرنیلوں کو اس بغاوتی عمل کی
ناکامی کا کتنا ڈر اور خوف تھا!یہ سب کچھ انتہائی دل چسپ انداز میں بیان
کیا گیا ہے۔
سکندر مرزا سے آدھی رات کو استعفا لینے والوں میں بھی مصنف شامل تھے۔وہ
لکھتے ہیں :’’اس (سکندرمرزا) کی بیوی استعفے کی ڈرافٹ کو دیکھ رہی تھی ۔سکندرمرزا
نے دس بارہ منٹ کے گہرے سکوت کے بعد استعفے پر دستخط کردیے۔اس موقع پر
سکندر مرزا کی بیوی ناہید سکندر نے ایک غیر متوقع دل چسپ جملہ کہا:’’ہائے !میری
بلیوں کا کیا ہوگا۔‘‘(ناہید سکندر نے صدارتی محل میں بہت سی بلیاں پال رکھی
تھیں۔)
مصنف دوران ملازمت اگرچہ مارشل لا کے آلہ کار رہے(فوج کی تنظیمی ساخت کی
وجہ سے شایدکسی فوجی کے لیے اس کے بغیر چارہ بھی نہیں رہتا)۔تاہم اب وہ کسی
بھی حقیقی سیاست دان کی طرح آمریت کے مخالف ہیں۔وہ لکھتے ہیں:’’اس بات سے
قطع نظر کہ ایوب خان نے کچھ اچھے کام بھی کیے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان
میں آمریت کی بنیاد بھی اسی نے رکھی اوراسی بنیا دپریحییٰ،ضیا ،مشرف وغیرہ
نے مارشل لا کی عمارتیں بنائیں(ص۹۷)
ذولفقارعلی بھٹو نے چھے جرنیلوں کو نظر اندار کرکے ضیاء الحق کو پاک فوج کا
سربراہ بنایا تھا۔ان چھے میں مصنف بھی شامل تھے۔جنرل ضیاء الحق کے بطور
آرمی چیف نامزدگی کے ساتھ ہی مصنف (جنرل مجید ملک)اور جنرل اکبر خان نے
برٹش آرمی کی روایت کو برقرا ر رکھتے ہوئے استعفے دیے۔حکمرانوں کانفسیاتی
تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’پاکستان کے حکمران ہمیشہ ٹاپ لیول کے ہر عہدے
کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے ہیں جو ’’بے ضرراورحلیم‘‘ ہو،ہماری
عسکری اور سیاسی تاریخ میں اس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں(ص ۱۸۴)۔
۱۹۸۵ء کے انتخابات میں جنرل صاحب نے پہلی دفعہ این اے ۴۳ جہلم ٹُو سے حصہ
لیا۔فوجی منصوبہ بندی کی صلاحیت اور سیاسی حکمت عملی کے امتزاج سے کامیابی
سے ہم کنار ہوئے ۔پھر اسی کامیابی کو بنیاد بنا کرچاردفعہ(کل پانچ دفعہ)
مسلسل خود قومی اسمبلی کی نشست جیتتے رہے اور تین مرتبہ اپنے نام زد کردہ
پینل کو کامیابی سے ہم کنار کرایا۔پاکستان کی تاریخ میں کسی ریٹائرڈ جرنیل
کا سیاسی میدان میں اتنے لمبے عرصے تک عوامی حمایت حاصل کرنا شاید اپنی
نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک صاحب سیاست میں آئے تو
مکمل طور پر ایک سیاسی کارکن بن کر آئے۔وہ ایک طویل عرصے تک فوجی حکمرانی
کے مقابلے میں سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔کارگل اپریشن کے وقت وہ
شمالی علاقہ جات کے وزیر تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ سانحہ کارگل کی تما م ترذمہ
داری جنرل پرویز مشرف اوران کے تین ساتھی جرنیلوں پر عائد ہوتی ہے(ص ۲۵۲)۔ان
کا کہنا ہے کہ پرویزمشرف نے وزیراعظم نوازشریف، پوری سیاسی قیادت یہاں تک
کہ ۱۲ ڈویژن کے اُس وقت کے کمانڈر سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز
کیانی کو بھی اس اپریشن سے بے خبر رکھا تھا(ص ۲۴۲)۔ملک صاحب نے جہاں پرویز
مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہاں وہ نوازشریف کے مختارِکُل بننے کے
شوق کے بھی ناقد ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غلام اسحاق خا ن کے ساتھ تنازع،فاروق
لغاری ،جسٹس نسیم حسن شاہ،جنرل جہانگیر کرامت اور پرویز مشرف کی برطرفی
نواز شریف کی غلطیاں تھیں۔بالخصوص آرمی سربراہان کی برطرفی کے بارے میں
لکھتے ہیں:’’اگرچہ قانونی لحاظ سے ا ٓرمی چیف کو برخاست کرنے کے اختیار کے
خلاف کوئی جواز پیش نہیں کیاجاسکتا۔تاہم ایک سال کے دورانیے میں دو آرمی
سربراہان کو برخاست کرنے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔اسی طرح پرویز
مشرف کی غیرحاضری میں ان کو عہدے سے برطرف کرنے کے احکامات جاری کرنا بھی
نامناسب طریقہ تھا‘‘ص ۲۵۹)۔
جنرل صاحب کی زندگی عسکری ہو یا سیاسی وہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے
اصولوں کی شاہراہ پر گام زن دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن اُن کی زندگی میں اُس
وقت اچانک ایک حیران کُن اور عجیب غریب موڑ آجاتاہے جب وہ پرویز مشرف کے
اقتدار پر قبضے اور نوازشریف کی جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ ق میں شمولیت
اختیار کرلیتے ہیں۔اس بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:’’میرا مسلم لیگ (ن) کو
چھوڑ کر(ق) میں جانا شاید میری پوری زندگی کاایک ہی متنازع معاملہ ہے جس پر
تنقید کرنے کا جواز موجود ہے۔۔۔۔میں اس کی دفاع کرنے کا ارادہ نہیں
رکھتا‘‘(ص۲۶۴) ۔
پھر بـڑی معصومیت سے اپنی دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نوازشریف نے جلاوطنی
کے وقت راجا ظفرالحق کی بجائے جاوید ہاشمی کو قائم مقام صدر مقرر کرکے مسلم
لیگ کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔(ص۲۶۵) آگے لکھتے ہیں کہ میاں اظہر اور
چودھری شجاعت کی متعددملاقاتوں اور ان کے اصرار پر نہ چاہتے ہوئے بھی مسلم
لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرلی(ص۲۶۵)۔سیاسی میدان میں اپنے ڈگمگاتے قدموں
کی دفاع کرتے ہوئے ان کی تحریر بھی توازن سے محروم دکھائی دیتی ہے۔
اسی طرح وہ اپنی پاک دامنی کی حکایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’میں آئی جے
آئی میں ایک نمایاں اور مرکزی مقام رکھتا تھا۔مختلف کتابوں میں ملک کے بڑے
بڑے نام ور سیاسی افراد کے ناموں ساتھ وہ رقوم درج ہیں جوانھوں نے آئی ایس
آئی کی تشکیل کے سلسلے میں وصول کیں،میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ
اس نے مجھے اس الائش سے محفوظ رکھا۔‘‘(ص۳۲۷)۔ساتھ ہی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے
ہیں کہ میں اس سلسلے میں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے ایک دوست
حاجی گل شیر خان آفریدی ،جو فاٹا سے سینیٹر تھے،ان کو میرے ذریعے سے وزیر
اعظم کی دی ہوئی کچھ رقم ادا کی گئی تھی‘‘(ص۳۲۷)۔بقول شاعر
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
تاہم ایک متوسط خاندان کے چشم و چراغ کی جدوجہد پر مبنی ،طویل ،بھر پور اور
کامیاب زندگی کی یہ داستان وطن عزیز کے نوجوانوں کے لیے کئی حوالوں سے مشعل
راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ |