1947-48ء کی جنگ کشمیر میں
بھارتی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی اپیل کی جس
پر پاکستان اور بھارتی فوج کے درمیان ریاست کشمیر میں جنگ بندی لائین قائم
کی گئی۔اس جنگ بندی کا مقصد مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کے
اقدامات تھے جو بعد میں اتفاق رائے سے ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں سے
رائے شماری کے ذریعے ریاست کے سیاسی مستقبل کے فیصلے پر اتفاق ہوا۔کشمیر
میں جنگ بندی کے بعد بھارت نے اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ
مضبوط بنانے کے اقدامات کرتے ہوئے رائے شماری سے گریز کی راہ اختیار کی۔اس
کے بعد بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے تیار کردہ سندھ طاس معاہدے
کے منصوبے،جس کا مقصد کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانا اور
پاکستان کو فیصلہ کن نقصانات سے دوچار کرنا تھا،کے ذریعے1960ء میں پاکستان
کے آمر حکمران جنرل ایوب نے متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے دریاؤں کی مستقل
تقسیم کے سندھ طاس معاہدے کے ذریعے عالمی برادری کے سامنے بھارتی مقبوضہ
کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کو بالواسطہ مستقل طور پر تسلیم کر لیا۔اس
اقدام سے جنگ بندی لائین کی بنیاد پر ہونے والی ریاست کشمیر کی تقسیم کو
تقویت پہنچائی گئی۔شملہ سمجھوتے میں پاکستان نے مشرقی پاکستان کی شکست کی
صورتحال اور نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدی فوجیوں کی رہائی کے محرکات پر
مبنی سخت دباؤ میں کشمیر کی سیز فائر لائین کو لائین آف کنٹرول کا نام دیتے
ہوئے اس معاملے کو محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کے معاملے میں محدود
کرنے کا اقدام کیا گیا۔سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کو
جنگ بندی لائین( پاکستان اور بھارت کی لائین آف کنٹرول)پر خار دار تاروں کی
باڑ نصب کرنے کی اجازت دی تھی اور اب بھارت اسرائیل کے تعاون سے اس باڑ کو
جدید سسٹم میں بدلتے ہوئے کشمیر کی ظالمانہ جبری تقسیم کو مزید مضبوط بنانے
کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔یوں یہ بات واضح ہے کہ کشمیر میں جنگ بندی لائین
کے قیام کا مقصد مسئلہ کشمیر کو پرامن،منصفانہ طور پر کشمیریوں کی امنگوں
کے مطابق حل کرنا تھا۔اگر پاکستان اور بھارت اور اقوام متحدہ سمیت تمام
عالمی ادارے اور برادری تقریبا سات عشرے گزر جانے کے باجود مسئلہ کشمیر کے
حل میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں تو پھر متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے
آزادی پسند عوام کو آزادی کی جدوجہد کرنے روکنے کا کیا جواز دیا جا سکتا
ہے؟کشمیر ی پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے کسی سمجھوتے کے پابند نہیں
ہیں کہ ایسے تما م سمجھوتے کشمیریوں کے مصائب ختم کرنے اور مسئلہ کشمیر کے
حل میں ناکام چلے آ رہے ہیں۔اس صورتحال میں کشمیر کی سیز فائر لائین (
لائین آف کنٹرول ) کو ایک’’ مقدس گائے‘‘ سمجھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
سندھ طاس معاہدہ جن شرائط پر قبول کیا گیا وہ پاکستان اور کشمیر کاز کے
منافی تھا اور آج سند طاس معاہدے کا پاکستان کے لئے انتہائی نقصاندہ ہونا
ثابت ہو گیا ہے۔اسی معاہدے کے ذریعے آمر جنرل ایوب نے پاکستان کی طرف سے
مقبوضہ کشمیر سے دستبرادی قبول کی۔منگلا اور تربیلا پاکستان کی طرف سے
ہندوستان کے حق میں سندھ طاس معاہدہ قبول کرنے کے عوض '' لالی پاپ'' کے طور
پر عالمی برادری (امریکہ ،برطانیہ) کی طرف سے بنا کر دیا گیا تھا۔پاکستان
کے خلاف دشمن ملکوں کی سازشوں کی پیروی میں آمر حکمران جنرل ایوب سے لے کر
اب تک ہمارے حکمرانوں نے ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر میں مجرمانہ غفلت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے آبی ذخائر تعمیر نہیں کئے جن سے بجلی اور وافر مقدار
میں پانی کے ذریعے پاکستان میں شاندار اقتصادی اور زرعی ترقی ہو سکتی
تھی۔بجلی کی پیداوار اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے ایک بڑے منصوبے کی تعمیر کے
خلاف مہم کے لئے، ایک دشمن ملک کی طرف سے ایک سیاسی جماعت کو بھاری رقوم
دیئے جانے کی اطلاعات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔آج بھی ملک میں وہی عناصر کالا
باغ ڈیم کی تعمیر کے لیئے گمراہ کن جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو پہلے سے
ہی ایسا کرتے رہے تھے۔کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو نہ بننے دینا پاکستان کے
لئے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے کی مذموم کوششوں سے بھی بڑا
اورسنگین ترمنفی نتائج کے حامل نقصانات کا حامل قومی غداری پر مبنی جرم
ہے۔پاکستان کے لئے یہ مسئلہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے لیکن حکمرانوں کے
روئیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ بیرونی طاقتوں کی ہدایات کے پابند
ہوں۔بجلی اور پانی کی قلت کا مسئلہ ملک کے لئے سنگین ترین نتائج کے حامل
خطرات کا موجب ہے۔دہشت گردی کو تو آپریشن کر کے ختم کیا جا سکتا ہے لیکن
ملک میں فوری بنیادوں پر بڑے آبی ذخائر کی تعمیر شروع نہ کی گئی تو یہ
پاکستان اوراس کے عوام کے لئے ناسور ثابت ہو سکتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ اگر پاکستان کے ارباب اختیار ملک میں پانی کے وسیع قدرتی وسائل کو
کنٹرول نہیں کر سکتے ،جس کی وجہ سے ملک کو توانائی اور پانی کی شدید قلت کا
سامنا ہے ،تو پھر پاکستان کو چلانے والے ’’ اعلی دماغوں‘‘ سے اس بات کی
امید کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ بقائے پاکستان کی جنگ میں درست پالیسی اور
موثر حکمت عملی اپنا سکیں گے؟ہر سال سیلاب کشمیر،گلگت بلتستان اور پاکستان
کے تمام صوبوں میں بدترین تباہی پھیلاتا ہوا سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا
ہے ،لیکن حکومت اور انتظامیہ سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے،کنٹرول کرنے میں
عدم دلچسپی لئے نظر آتی ہے،دلچسپی ہوتی ہے تو وہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے
بعد ہونے والے تعمیراتی منصوبوں سے مال بنانے کی طرف ہی نظر آتی ہے۔کیا
حکومت اور ملک کو چلانے والے یہ نہیں جانتے کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے اور
بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبے ہنگامی بنیادوں پر شروع نہ کرتے ہوئے پاکستان
کو بغیر جنگ کے ہی ہتھیار ڈالنے کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے؟ |