رانی جھانسی کی نگری میں ۲۵
اکتوبر ۲۰۱۳ کو وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا ’’مجھے پردھان
منتری نہیں چوکیدار بنائیے‘‘ لیکن جب عوام نے انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی تو
۱۵ اگست ۲۰۱۴ کو انہوں نے اعلان کیا کہ’’ میں پردھان منتری نہیں پردھان
سیوک ہوں‘‘۔ خیر پردھان سیوک نے راجناتھ سنگھ کو قوم کا چوکیدار نامزد کرکے
انہیں وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ دیا ۔ راجناتھ سنگھ نے کرن رجیجو کو اپنا
نائب بنا لیا اس طرح ملک کے تحفظ کیلئے محافظین کی ایک تریمورتی وجود میں
آگئی۔ اب یہ دیکھیں کے کہ گرداسپورمیں جب دہشت گردانہ حملہ ہوا تواس
تریمورتی نے اپنی ذمہ داریوں کو کس خوبی سے ادا کیا؟
صبح ۵ بجے حملہ ہوا اور اس کے ۵ گھنٹے بعد چوکیدار یہ کہہ کر مدھیہ پردیش
کے نیمچ شہر روانہ ہو گئے کہ ’’حالات قابو میں ہیں۔ میں نے وزیراعلیٰ پنجاب
سے بات کرلی ہے اور ضروری احکامات صادر کردئیے ہیں ‘‘ ۔ حالات کس کے قابو
میں ہیں ؟ وزیراعلیٰ سے کیا بات ہوئی ہے ؟ اور کس کو کیا احکامات صادر کئے؟
اس بابت انہوں نے کچھ نہیں بتایامگرپاکستان کے رویہ پر حیرت کا اظہار کرتے
ہوئے فرمایا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ ہم دوستی کا ہاتھ
بڑھاتے ہیں وہ دہشت گرد ی پھیلاتا ہے۔ ہم پہل نہیں کریں گے لیکن کڑہ جواب
دیں گے۔ ان کے نائب کرن نے صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا دہشت گردوں نے کسی کو
یرغمال نہیں بنایا ہے ۔
پردھان سیوک نے چوکیدار کے دہلی سے نکل جانے کے بعد صورتحال کا جائزہ لینے
کیلئے ایک میٹنگ بلوائی ۔ اس نشست میں ان کے منظور نظر ارون جیٹلی جو پنجاب
سے انتخاب لڑ کر ہار چکے ہیں موجود تھے ۔ ان کے علاوہ وزیردفاع منوہر پریکر
اور پارلیمانی امور کے وزیر وینکیا نائیڈو شریک ہوئے۔ یہ کہا گیا کہ اس
نشست کے بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی اخبار نویسوں سے بات چیت کریں گے لیکن
وہ اخباری کانفرنس ہوئی ہی نہیں۔ منوہر پریکر گزشتہ دنوں قسم کھا چکے ہیں
کہ وہ ۶ ماہ تک کچھ نہیں بولیں گے اس لئے کہ ان کی ہر بات کاغلط مطلب نکال
لیا جاتا ہے اس لئے وہحسبِ توقع خاموش رہے ۔ وینکیا نائیڈوبیچارے جو کہتے
ہیں وہ خود ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتا اس لئے انہوں نے بھی پردہ کرلیا ۔
مذکورہ نشست میں راجناتھ تو اس لئے شریک نہیں ہوسکے کہ وہ دہلی سے باہر تھے
لیکن کرن رجیجو دہلی ہی میں موجود تھے لیکن انہیں بلانا ضروری نہیں سمجھا
گیا جو باہمی بداعتمادی کی دلیل ہے۔ اس حملے کے تقریباً ۲۴ گھنٹے بعد
پردھان سیوک نے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں اسے بزدلانہ حملہ قرار دیتے
مذمت کی اور پنجاب پولس کی تعریف و توصیف بیان کی ۔ وزیراداخلہ نے
پارلیمانی بورڈ کی نشست میں اس مہم کی طوالت کا یہ جواز پیش کیا کہکم ازکم
ایک دہشت گرد کو زندہ گرفتار کرنا مقصود تھا تاکہ ان کی حقیقت آشکار ہوسکے۔
اگر وزیرداخلہ کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ
انہیں اس مقصدِ جلیل میں ناکامی ہوئی اس لئے کہ تینوں دہشت گرد مارے گئے اس
طرح سارے راز ان کے سینوں میں دفن ہوگئے۔ اب ان کے بارے میں جو کچھ کہا
جارہا ہے وہ سب قیاس آرائی ہے اور شکوک شبہات کے دائرے میں آتا ہے۔اس
میٹنگ کے دیگر مباحث کو بھی صیغۂ راز میں رکھا گیا۔
چوکیدار نیمچ میں جس وقت بارڈر سیکیورٹی فورس کے لوگوں کو وعظ و نصیحت
کررہے تھےپردھان سیوک مون برت رکھے بیٹھے تھے اور چوکیدار کے پارلیمانی
بیان کا کا انتظارکررہی تھی۔ اس دوران سابق صدر جمہوریہ عبدالکلام کے موت
کی اندوہناک خبر آگئی اور ذرائع ابلاغ کی توجہ گرداسپور سے ہٹ گئی۔
وزیراعظم نے سابق صدر کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی اور
دہلی میں ان کے جسدِ خاکی کا انتظار کرنے لگے ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی
کہ اس کام میں حکومت کو ۱۷ گھنٹے کا وقت کیوں لگا؟ اب پردھان سیوک تمل ناڈو
میں جاکر سابق صدر کی آخری رسومات میں شرکت کی تیاری کررہے ہیں لیکن ابھی
تک سیوکوں، بھکتوں اور چوکیداروں میں سے کسی نے پنجاب جانے کے ارادے کا
اظہار نہیں کیاجبکہ کانگریسی وفد وہاں پہنچ گیا۔
بنگلہ دیش کے اندر تو پردھان جی نے پاکستان کی بڑی دھمکی دی تھی دہشت گردی
کو بالکل بھی برداشت نہیں کرنے عہد کیا تھا ۔ برما میں جاکر فوجی کارروائی
کے بعد بھی بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے لیکن اب جبکہ کچھ کر دکھانے کا موقع
آیا تو سب کی زبان گنگ ہوگئی اور ہاتھ پیر شل ہوگئے ۔ حزب اختلاف تو
درکنار قومی جمہوری محاذ میں شامل اکالی دل اور خود بی جے پی کے رکن
پارلیمان اہلووالیا تک ایوانِ پارلیمان میں بحث و قرارداد کا مطالبہ کرتے
رہے مگر وینکیا نائیڈو اس قومی مسئلے پر سیاست نہ کرنے کی دہائی دینے سے
آگے نہیں جاسکے۔ نہ کوئی بیان، نہ بحث اور نہ قراردادقوم حیرت سے دیکھ ر
ہی کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ بی جے پی کے ایس ایس اہلووالیا ایک زمانے
میں کانگریس کے اندر تھے ۔ انہیں پتہ ایسے موقع پر حکومت کی جانب سےمؤثر
قرارداد آئے تو وہ اتفاق رائے سے پاس ہو جائیگی لیکن بی جے پی والوں کو
کچھ سجھائی ہی نہیں دیا ۔
بی جے پی نےاس مرتبہ جس کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے یہ اس کی پرانی بیماری ہے
۔ سبکدوش کرنل بھارت بھوشن وتس کا بیان اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے ۔ ۱۴ سال
قبل ایوانِ پارلیمان پر حملے کے بعد پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے انہیں وہاں
روانہ کیا گیا تھا ۔ انہوں نے فرمایا کہ ۱۹۹۹ سے لے کر ۲۰۰۶ تک اپنی
پنجاب میں تعیناتی کے دوران ۹ ماہ تک وہ اسی دینا نگر میں مقیم تھے۔
پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے آپریشن پراکرم کے تحت میزائلس کو ائیر کنڈیشن
سے نکال ٹینکس پر لگا دیا گیا تھا ۔ اس وقت پاکستان کی فوج افغانستان کی
سرحد پر مصروف عمل تھی اس کے باوجود ۹ ماہ کے انتظار بسیار کے بعد فوج کو
واپس بلا لیا گیا اور سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا جبکہ نام نہادلوہ
پوروش اڈوانی جی وزیرداخلہ تھے ۔ خیال رہےاسی زمانے میں نیپال سےبھارتی
ہوائی جہاز کا اغواء ہواتھااوراسے چندی گڑھ میں ایندھن کیلئے اترنا پڑا
تھا۔ ایسے میں جہاز کواپنے قبضے میں لینے کا نادر موقع ہاتھ آگیا تھا لیکن
بی جے پی کے قوت فیصلہ کی کمی آڑے آگئی اور وہ تیل لے کر قندھار روانہ ہو
گیا۔ اس طرح اغواء کار اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔
بھارت بھوشن نے بتایا کہ دہشت گرد جموں کشمیر کے ہیرانگر سے۸۵ کلومیٹر کا
فاصلہ طے کرکے اسلحہ سمیت دینا نگر پہنچے جبکہ اس بیچ ۵ چیک پوسٹ آتے ہیں
اس لئے یہ خفیہ ایجنسیوں کی خامی کی جانب اشارہ ہے ۔ دینا نگر پٹھانکوٹ اور
گروداس پور کے درمیان ۳۰ کلومیٹر کے یکساں فاصلے پر واقع ہے اور ان دونوں
مقامات پر فوجی مراکز ہیں۔ اس کے باوجود وہاں پہنچ کر پانچ مقامات پر ریلوے
پٹری پر بم نصب کردینا خاصہ حوصلہ شکن کام ہے۔ وتس کے مطابق اگر یہ کشمیری
ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کشمیری جنگجو اب اپنی ریاست سے باہر بھی ہاتھ
پیر پھیلانے لگے ہیں اور اگر یہ خالصتانی ہیں تو گویا ۲۰ سال قبل اس آسیب
کا پھر ایک بار متحرک ہوجانا ایک بہت بڑے خطرے کی گھنٹی ہے ۔
اس حملے سے ۲ روز قبل ۲۶ جولائی کو دہلی میں کارگل کی فتح کا جشن منایا گیا
۔ وزیراعظم نے بھی اس جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجیوں کو
خراج عقیدت پیش کیا ۔ اتفاق سے کارگل کا معاملہ بھی بی جے پی کے دورِ حکومت
کا ہے۔ ان یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کارگل کی جنگ میں ویرچکر حاصل کرنے
والےسبکدوش ائیر وائس مارشل ادیتیہ وکرم پیٹھیا نے کہا کہ اس دراندازی کی
خبر بھی چرواہوں کی مدد سے ملی جبکہ ان لوگوں نے ہندوستانی چوکیوں پر
پاکستانی جنگجو دیکھے اور اس کے بعد جب پٹرولنگ کی گئی تو پتہ چلا کہ اس
علاقہ میں بڑے پیمانے پرگھس پیٹھ ہوچکی ہے۔ اس کے بعدبری اور ہوائی فوج کی
مدد سے اپنا علاقہ تو واپس لئے گیااس کا جشن بھی منایا گیا ۔ انتخاب میں اس
کا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی گئی مگر اس عظیم کوتاہی سے کوئی سبق نہیں
لیا گیا ورنہ گرداس پور کے دینا نگر کا یہ واقعہ رونما نہیں ہوتا ۔
اس میں شک نہیں کہ سارے سرکاری ادارے اور ذرائع ابلاغ اس حملے کیلئے
پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چند ہفتہ قبل
جموں میں تیس سال قبل آپریش بلیو اسٹار کی برسی منانے والے پوسٹرس منظر
عام پر آگئے تھے اور جب حفاظتی دستوں نے انہیں ہٹانے کی کوشش کی تو اس پر
ہنگامہ بھی ہوا۔ بی جے پی رہنما اور سابق داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ کے
مطابق آئی ایس آئی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ سکھ دہشت گردی کو پھر سے زندہ
کیا جائے ۔ آپریشن بلیو اسٹار کی قیادت کرنے والے سبکدوش لیفٹنٹ جنرل کے
ایس برار نے گرداس پور کے حملے کیلئے آئی ایس آئی کے ساتھ پنجاب کی
ریاستی حکومت کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا ہے ۔ انہوں نے ریاستی حکومت پر
تنقید کرتے ہوئے کہا پنجاب کی حکومت خالصتانی دہشت گردوں کے ساتھ نرمی برت
رہی ہے اور اپنے ووٹ بنک کی خاطر انہیں رہا کررہی ہے جس کے سبب یہ صورتحال
پیدا ہوئی ہے ۔ برار نے حفاظتی دستوں پر قابو پانے میں تاخیر پر تنقید کی
اور دہشت گردوں کو زندہ گرفتار کرنے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ
ایک بہترین موقع گنوادیا گیا ہے ۔ ان کے مطابق اس طرح کے حملوں کی روک تھام
کیلئے خبر رسانی کے نظام کی تدوین نو درکار ہے۔
یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ فی الحال پنجاب میں اکالی دل کی حکومت ہے اور وہ بی
جے پی کی حلیف ہے اس کے باوجود پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے اس
حملے کی تمام تر ذمہ داری مرکزی حکومت پر ڈال دی اور یہ بھول گئے کہ اس میں
ان کی بہوہرسم راٹ اس میں وزیر بنی ہوئی ہیں۔بادل کا کہنا ہے کہ دہشت گردی
کسی ریاست کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے اور مرکزی حکومت اسے روکنے میں ناکام
رہی ہے۔ یہ خفیہ ایجنسیوں کی بڑی ناکامی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قومی
مسئلہ ہونے کے سبب اس کا سدِباب قومی پالیسی کے مطابق ہونا چاہئے۔ اکالی دل
رکن پارلیمان چندو ماجرا نے مرکزی حکومت پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا یہ کہنا
غلط ہے کہ ہمیں اس کی اطلاع دی گئی تھی۔ اکالی دل نے مطالبہ کرتی رہی کہ اس
مسئلہ پر ایوان پارلیمان میں سنجیدگی کے ساتھ بحث ہو نی چاہئےمگر مرکزی
حکومت حملہ جاری ہے کا بہانہ کرکے منہ چراتی رہی۔
اکالی دل نے گوکہ مرکزی حکومت پر طرح طرح کی الزام تراشی کی مگرلیکن حقیقت
یہ ہے کہ وہ خود سنگین الزامات کے گھیرے میں پھنسی ہوئی ہے ۔ یہ حملہ
تقریباً ۱۲ گھنٹے چلا ۔ممبئی میں تاج اور اوبیرائے کے بعد یہ سب سے طویل
ترین حملہ تھا ۔ وہاں پرممبئی کی مشہور زمانہ پولس صرف گھیرا بندی کرکے رات
بھر دہلی سے آنے والی اسپیشل ٹاسک فورس کا انتظار کرتی رہی اس کے برعکس
گرداس پور میں چند گھنٹوں کے اندر فوج اور خصوصی دستہ پہنچ گیا لیکن حکومت
پنجاب نے اسے رکھوالی میں لگا دیا اور کمان اپنے ہاتھ میں رکھی ۔ ٹی وی پر
ساری دنیا نے دیکھا کہ پولس کے پاس بولیٹ پروف جاکیٹ اور لوہے کی ٹوپی تک
نہیں تھی اوروہ غیر پیشہ وارانہ انداز میں وہ روایتی اسلحہ سے مقابلہ کررہے
تھے ۔ سنا ہے خصوصی دستے نے اسرائیل سے تربیت حاصل کی ہے اگر یہی وہ تربیت
ہے تو اس کے بغیر ہی پنجاب پولس بہتر تھی۔ فوج کے مطابق یہ دو ڈھائی گھنٹے
کا کام تھا جس پر ۱۲ گھنٹے صرف کئے گئے۔
دوپہر بارہ بجے جب ایس پی دلبیر سنگھ کو گولی لگی تو ڈھائی بجے اسپیشل ٹاسک
فورس کی خدمات حاصل کی گئیں جس نے ۴ بج کر ۳۵ منٹ پر تینوں دہشت گردوں کی
ہلاکت کا اعلان کردیا اور اس کے بعد پنجاب پولس زندہ باد کے نعرے لگائے گئے
۔ پنجاب کے اکالیوں نے جس طرح مرکزی حفاظتی دستے پر عدم اعتماد کا اظہار
کیا ہے اگر کوئی اور سیاسی جماعت کرتی تو بی جے پی والے آسمان سر پر اٹھا
لیتے لیکن اب کیا کیا جائے کہ ہونٹ اور دانت دونوں ہی اپنے ہیں ۔ اگر جموں
کشمیر کی حکومت میں بی جے پی شامل نہ ہوتی تو یہ کہہ دیا جاتا کہ اگر ہم
ہوتے تو انہیں داخل ہی نہ ہونے دیتے لیکن جموں میں بی جے پی کے اثرات جب سے
بڑھے ہیں پے درپے کئی حملے ہوئےہیں۔ حکومت سازی کےبعدچار ماہ قبل کٹھوا اور
سامبامیں یکے بعد دیگرے اسی طرح کے دوحملے ہوچکے ہیں ۔
یہ زمانہ ذرائع ابلاغ کہا ہے یہاں ۲۴ گھنٹے ٹیلی ویژن والوں کو خبریں نشر
کرنی پڑتی ہیں اور آن لائن اخبار کو ہر آدھے گھنٹے کے اندر اپنی شاہ سرخی
بدلنی پڑتی ہے اس لئے اگر حکومت یہ کہہ کر خاموش بھی ہو جائے کہ وہ حملے کے
خاتمے پر ہی میں بولے گی تب بھی ٹی وی والے کسی نہ کسی کوماہر تجزیہ نگار
کے طور پر کھڑا کردیتے ہیں اور وہ آدھی ادھوری معلومات کی بنیاد پر اوٹ
پٹانگ قیاس آرائیاں کرنے میں لگ جاتاہے ۔ اس کا بہترین مظاہرہ گرد اس پور
حملے کے دوران ہوا۔ دوپہر تک حملہ آوروں کی تعداد ۴ بتائی جاتی رہی اور ان
کے درمیان ایک خاتون دہشت گرد کا قیاس بھی کیا جاتا رہا لیکن اچانک شام میں
پتہ چلا وہ صرف۳تھے اور عورت غائب ہوگئی۔
ابتداء ہی میں یہ اعلان کردیا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق سرحد پار نروول
گاوں سے ہے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ نقشے پر سرحد کی دوسری جانب قریب ترین
گاوں نروول ہے غالباً اسی لئے ہوا میں یہ تیر چھوڑ دیا گیا ۔ یہ بتایا گیا
کہ وہ صبح سویرے داخل ہوئے ، بعد میں جی پی ایس سے پتہ چلا کہ وہ ۲۱ تاریخ
کو داخل ہو گئے تھے اور پھر اسے بند کردیا گیا تھا لیکن اس کے بعد جی پی
ایس کی مدد ان کے سفر کی ساری تفصیل برآمد ہوتی رہی اور بتایا کہ وہ ۱۲
کلومیٹر پیدل آئے تھے۔ اس قدر اسلحہ اور گولہ بارود لے کر ۱۲ کلومیٹر چلنا
یہ تو کوئی جن بھوت ہی کرسکتا ہے۔ یہ بات بتائی گئی کہ وہ امرناتھ یاتریوں
کو مارنے کیلئے کٹھوا جانے والے تھے لیکن اچانک گھبرا کر پولس تھانے کا رخ
کرلیا۔ آج کل تو عام شہری بھی پولس تھانے میں جانے سے گھبراتا ہے کجا کہ
دہشت گرد ازخود وہاں پہنچ جائیں بعد میں پتہ چلا ان کے جی پی ایس میں پولس
تھانے کا محل و وقوع موجود تھا اوروہ قصداً آئے تھے اس کے ساتھ یہ انکشاف
بھی ہو گیا کہ وہ کس کس کو موت کےگھاٹ اتارنا چاہتےتھے ۔ دن بھر خبروں کا
بازار گرم رہا جو ایک دوسرے کی تردید کرتی رہیں ۔
دہشت گردوں کے پاس جو اسلحہ ملا اسکے بارے میں پہلے بتایا گیا وہ چینی
نوعیت کا ہے پھر کہا گیا اس پر بنانے والے ملک کے نشان مٹادئیے گئے ہیں۔ اس
دوران ایک حیرت انگیز انکشاف یہ ہوا کہ پٹری پر لگائے گئےبم کے نزدیک رات
کے اندھیرے میں استعمال کی جانے والی عینک بھی ملی جو صرف امریکی فوجی
استعمال کرتے ہیں اور جنہیں کھلے بازار سے خریدا نہیں جاسکتا۔ بعد میں اس
کی یہ تو جیہہ کئی گئی کہ افغانی مجاہدین انہیں امریکیوں سے لوٹ لیتے ہیں
اس لئے ممکن ہے یہ حملہ آورافغانیوں سے ربط میں رہے ہوں ۔ لیکن کسی نے یہ
نہیں کہا کہ اس حملے کامنفی اثر ہندپاک بات چیت پر پڑے گا جو امریکہ کے
مفاد میں ہے۔
گرداس پور حملے کے دوران جو بدانتظامی اور ربط و ضبط کی کجی سامنے آئی اس
کی پردہ پوشی ڈاکٹر عبدالکلام کے انتقال اور یعقوب میمن کی پھانسی سےکرنے
کی بھرپور کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے
سنگھ کا وہ بیان صد فیصد درست معلوم ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ
وزیراعظم نریندر مودی سب سے ناکام وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں ۔ان کے پہلے سال
میں پاکستان نے ۵۸ اور چین نے ۳۸ مرتبہ سرحد کو پامال کیا۔ غالباً ان کا ۵۶
انچ کا سینہ پچک چکا ہے۔ گرداس پور کا حملہ ، اروناچل پردیش میں گھس پیٹھ،
کشمیرمیں پاکستانی اور آئی ایس آئی کے پرچم کا لہرانا اور للت گیٹ و
ویاپم جیسے معاملات پر وہ پراسرا خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں بس ریڈیو پر
من کی بات کردیتے ہیں لیکن اس طرح کی چوکیداری آخرکتنے دن چلے گی جس میں
سیندھ شمال کے اندرگرداس پور میں لگتی ہے تو چوکیدارجنوب میں رامیشورم کی
جانب بھاگتاہے ۔ مودی جی کو چاہئے وہ راجندرکرشن کا یہ نغمہ یاد رکھیں ؎
خبردار ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰خبردار
یہ دنیا (کرسی)نہیں جاگیر کسی کی
راجہ ہو یا رنک یہاں پر سب ہیں چوکیدار
کچھ تو آکر چلے گئے کچھ جانے کو تیار
|