تبدیلی کے منتظر عوام۔۔۔

’’اب نہیں تو کب۔ہم نہیں تو کون‘‘ 2013 کے عام انتخابات میں عوام نے موجودہ نظام سے تنگ آکر اس پُرکشش نئے نعرے سے اُمیدے وابسطہ کرکے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب اُمیدواروں کو ریکارڈ ووٹ کے زریعے اختیارات منتقل کر کے نمائندگی کا موقع فراہم کیا اس نعرے کا ظاہری مقصد اگر ایک طرف لوگوں کو سستے انصاف کی فراہمی تھی تو دوسری طرف بنیادی حقوق بھی ان کے دہلیز پر مہیا کرانا تھا البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ انتخابی مہم چلاتے وقت تبدیلی کے جنون بھرے وعدوں اور دعوؤں کو الیکشن میں ملکی سطح پر وہ فوقیت نہیں دی گئی جو کہ عام طور توقع کی جارہی تھی اس میں دیگر صوبوں کے عوام کے کیا تحفظات تھے یہ ایک الگ پہلو ہے لیکن صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام نے اُس وقت ماضی قریب میں گزرے ہوئے بدامنی کا ذمہ دار عوامی نیشنل پارٹی کو قرار دے کر یہ ان کے طرف سے ایک خودساختہ مسلہ قرار دے دیا اور انہیں وقتی طور پر مسترد کرکے حکومت کی بھاگ دوڑ پاکستان تحریک انصاف کے سپرد کر کے راتوں رات اس صوبے کو ماڈل صوبہ بنانے کے اُمیدے وابسطہ کرنے لگے جبکہ اُمیدوں کے سہارے زندگی گزارنے کایہ سلسلہ تاحال جاری ہے حالانکہ اگر تھوڑی دیر کیلئے ماضی میں جانک کر بدامنی اور اُس وقت کے درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیا جائیں تو اس کے نچوڑ سے سامنے آنے والے حقائق کو قبول کرنے سے انکار سیاسی جانبداری پر مبنی ہوگا۔ اگر پچھلے دورحکومت میں بدامنی جیسے ماحول کی فراہمی میں حکومت وقت ملوث ہوتا تو پھر سادی سی بات ہے کہ اس پارٹی کو بدلے میں کچھ ثمرات ضرور ملتے لیکن اس بدامنی ہی کے وجہ سے ان کے سینکڑوں اہم اراکین کو چُن چُن کر مارنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ حضرات ان ملک دشمن عناصر سے ڈیل کرنے کی بجائے ان کے ’’پختون مٹاؤ‘‘ جیسے منصوبے میں رُکاوٹ بنے ہوئے تھیں اس کے علاوہ اگر دیگر مسائل کے حوالے سے بات کی جائیں تو اس پر میرا ذاتی مؤقف یہ ہے کہ ان مسائل کو اگر اس وقت بدامنی جیسے ماحول میں حل نہیں کرائے جا سکتے تھے تو آج کے اس پُرامن اور پُرسکون ماحول میں وہ مسائل کیوں حل نہیں کرائیں جاتیں جس میں سب سے بڑا مسلہ لوڈشیڈنگ کا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین نوعیت کا شکل اختیار کرتا جا رہا ہے حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ مسلہ تقریباً سارے پاکستان میں گزربسر کرنے والوں کو درپیش ہے لیکن انتہائی افسوس کن امر یہ اس لئے ہے کہ جہاں جہاں بھی پختون آبادی کی اکثریت ہے وہاں پر چوبیس گھنٹوں میں آٹھارہ سے لے کر بائیس گھنٹے تک غیر اعلانیہ اور ناروا لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے اور اس امتیازی سلوک کو دیکھ کر آج پورے صوبہ خیبرپختونخوا کے کونے کونے میں احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ صوبائی خودمختاری حاصل کرنے کے بعد ہمیں بہت سارے اختیارات باقاعدہ طور پر منتقل ہو چکے ہیں جس میں انرجی جیسے مسلے سے نجات پانے کیلئے ہم اپنے صوبے میں ڈیم بنانے کے لئے کسی کی مداخلت برداشت کئے بغیر عملی اقدامات اُٹھا سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مسلہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے توقعات وابسطہ کئے جاتے ہیں ان میں اکثریت اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اس کے برعکس دُنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں اپنے ذاتی مفادات کے بجائے ان معاملات اور درپیش مسائل میں دلچسپی لیا جاتا ہے جو اجتماعی نوعیت کے ہوں کیونکہ اس سے پورہ معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے خصوصاً مرکزی سطح پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہوریت پسند سیاسی قائدین اس ملک کی بھاگ دوڑ باری باری سنبھالنے کی غرض سے مملکت خداداد پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر یا فیکٹری کی طرح نسل درنسل آگے منتقل کرنے پر عمل پیرا ہے۔بحرحال آج کل اس صوبے کا ہر باشعور انسان اس سوچ میں مبتلا ہے کہ ہمارے صوبے میں ایسی کونسی نمایاں تبدیلی آئی ہے جس کے بنیاد پر ہم پچھلے کئی مہینوں سے پنجاب جیسے ترقی کی راہ پر تیزی کے ساتھ گامزن صوبے کو ترقی کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے مثالیں دے دے کر تھکتے نہیں۔ ہم آج لوڈشیڈنگ، کم اوولٹیج، بے روزگاری، مہنگائی جیسے مسائل کے شکار ہیں اس کے علاوہ اگر طبی سہولتوں کا جائزہ لیا جائے تو شہروں میں علاج معالجہ کی مناسب سہولتوں کی کمی ہے اگر چہ ہر شہر میں سرکاری ہسپتال کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ معالج بھی موجود ہے لیکن بے روزگاری اور مہنگائی کے اس دور میں عام لوگوں کیلئے علاج کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں عملہ کے غیر ہمدردانہ رویہ اور ادویات کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے اور ظاہر سی بات ہے جب لوگوں کی صحت ہی اچھی نہ ہوگی تو وہ کوئی کام پوری لگن کے ساتھ کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔؟؟؟

تھوڑے دیر کیلئے اُمیدوں کا سہارا لے کر مسائل کے حل کے حوالے سے بات کرتے ہیں کیونکہ میرے نظر میں مسائل سامنے لانے کے ساتھ ساتھ اس کے فوری حل کیلئے کچھ مثبت تجاویز بھی پیش کرنے سے دل کا بوجھ بہت حد تک ہلکا ہو جاتا ہے۔ میں آج اس ٹوٹے پھوٹے تحریر کی توسط سے صوبائی لیڈرشپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ مذید غیر ضروری دعوؤں اور احتجاجوں کے زریعے اپنے قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے ایسے اقدامات کیلئے منصوبہ بندی کرلیں جس کے زریعے آپ مرکزی حکومت سے اس صوبے کے ضبط شدہ حقوق حاصل کرسکے اور ویسے بھی یہ احتجاج اور دھرنے عوام کا کام ہے آپ لوگوں کو اپنے اختیارات سے فائدہ لینے کے گُر سیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا اندازہ بھی شاید آپ لوگوں کو اچھی طرح سے لگ گیا ہے ورنہ آرمی پبلک سکول کے واقعے پر اظہار تعزیت کے بعد آپ پھر سے سڑکوں پر نکل چکے ہوتے اب چونکہ آپ دھرنے کے زریعے صوبے کے عوام کیلئے کچھ ثمرات حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اس صورت میں وقت اور حالات کا تقاضہ بنتا ہے کہ اس صوبے کے حقوق کے حصول کیلئے مرکز کے خلاف ٹھوس اور قابل قبول مواد اکھٹا کرکے باقاعدہ عدالتی جنگ کا آغاز کیا جائیں جس میں میرے ناقص رائے کے مطابق نویں فیصد کامیابی آپ اور تبدیلی کے منتظر عوام کی راہ دیکھ رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
Haider Ali
About the Author: Haider Ali Read More Articles by Haider Ali: 4 Articles with 2498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.