اس بات کا گلہ کیا جا رہا تھا کہ مسلم کانفرنس کے سرپرست
اعلی سردار محمد عبدالقیوم خان کی وفات پر وزیر اعظم محمد نواز شریف نہیں
آئے اور نہ ہی ان کی طرف سے تعذیت کا اظہار کیا گیا۔لیکن چند دن قبل وزیر
اعظم نواز شریف دوسری کوشش میں غازی آباد جانے میں کامیاب رہے۔پہلے وزیر
اعظم نواز شریف کے ہیلی کاپٹر نے مری سے اڑان بھری لیکن علاقے میں گہرے
بادلوں کی وہ سے ہیلی لینڈنگ نہ کر سکا اور اسے واپس مری آ نا پڑا۔وزیر
اعظم پاکستان کی آمد کی اطلاع پر آزاد کشمیرکے وزیر اعظم،چیف سیکرٹری ،آئی
جی پولیس اور دوسرے اعلی حکام غازی آباد میں انتظار ہی کرتے رہ گئے۔اگلے
روز وزیر اعظم نواز شریف نے مری میں اپنی کابینہ کے وزیر شاہد خاقان عباسی
کی والدہ کی وفات پر تعذیت کی اور اس کے بعد وہ ہیلی کاپٹر پر غازی آباد
پہنچ گئے۔وزیر اعظم نواز شریف کی آمد کی اطلاع پر مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر
کے صدر راجہ فاروق حیدر خان،سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر،سینئر نائب صدر
طارق فاروق چودھری اور چند دیگر رہنما بھی غازی آباد پہنچے اور انہوں نے
وزیر اعظم پاکستان کا ہیلی پیڈ پہ استقبال کیا۔وزیر اعظم نواز شریف نے
سردار عتیق احمد خان سے تعذیت کی ،سردار محمد عبدالقیوم خان کی قبر پر
پھولوں کی چادر چڑہائی اور فاتحہ خوانی کی۔سردار عتیق احمد خان کی اس
درخواست پر کہ انہیں ایک تعذیتی تقریب میں شرکت کے لئے اسلام آباد جانا
ہے،وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں اپنے ہیلی کاپٹر پر بٹھا لیا۔سردار عتیق
احمد کا وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سوار ہونا تھا کہ اس
حوالے سے قیاس آرائیاں،افواہیں پھیلنے لگیں اور مختلف تبصرے ہونے لگے۔خاص
طور پر سوشل میڈیا’فیس بک‘ پہ افوہوں،قیاس آرائیاں ،تبصرے اور تنقیدی جملے
گردش کرنے لگے۔بعض سیاسی ’’تجزئیہ نگاروں ‘‘ نے توہیلی کاپٹر میں وزیر اعظم
نواز شریف اور سردار عتیق کے تقریبا چالیس منٹ کے اکٹھے سفر سے آزاد کشمیر
کی سیاست کے فرضی’ تانے بانے‘ بھی بُن لئے۔یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ
وزیر اعظم نواز شریف نے سردار عتیق سے ہیلی کاپٹر کے سفر میں مسلم لیگ (ن)
آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس کے درمیان ’’ سیٹ ٹو سیٹ‘‘ ایڈ جسمنٹ کی
منظوری دے دی ہے۔مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے سینئر نائب صدر طارق فاروق
چودھری نے ’فیس بک ‘ پہ وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے
سردار عتیق کی درخواست پر کہ انہیں ایک تعذیتی تقریب میں شر کت کے لئے
اسلام آباد پہنچنا ہے ،اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سوار کرایا تھا۔اسی روز
’فیس بک ‘ پہ مسلم لیگ (ن) ّآزاد کشمیر کی طرف سے اس واقعہ کے بارے میں ایک
وضاحتی بیان یہ بتاتے ہوئے شائع ہوا کہ مختلف افواہوں کی وجہ سے صورتحال
واضح کرنے کے لئے یہ بیان جاری کیا گیا ہے اور یہی بیان اگلے روز اخبارات
میں بھی شائع ہوا۔مختلف حلقوں کی طرف سے مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے ترجمان
کی طرف سے جاری اس ردعمل پر حیرت کا اظہار کیا اور اسے غیر ضروری تشویش اور
بلا جوازردعمل سے تعبیر کیا گیا۔
آزاد کشمیر کے بعض سیاست کاروں کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر کے سنیئر ترین
رہنما سردار محمد عبدالقیوم خان کی وفات پر تعذیت کے لئے وزیر اعظم نواز
شریف کا غازی آباد جانا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعذیت کے لئے
متوقع آمد سے مسلم کانفرنس کو ایسا سیاسی فائدہ حاصل ہو گا جس سے آئندہ
الیکشن میں مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے ساتھ کسی نہ کسی سطح کا اتحاد قائم
ہونے کا وہ بڑا مقصد حاصل ہو جائے گا جس سے آئندہ الیکشن میں مسلم کانفرنس
کا پارلیمانی پارٹی بننا ممکن ہو سکے گا۔ لیکن ایسا تجزئیہ کرنے والے ان
حقائق اور مقاصد کو فراموش کر رہے ہیں ،جس بنیاد پر آزاد کشمیر میں مسلم
لیگ (ن) کے قیام پر اتفاق کیا گیا اور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) میاں محمد
نواز شریف کو اس پر رضامند کیا گیا۔وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ آزاد کشمیر
کے آئندہ سال کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور مسلم کانفرنس کے درمیان
کسی بھی سطح کا تعاون اس لحاظ سے بھی بے معنی ہے کہ اس صورت آزاد کشمیر میں
مسلم لیگ (ن) کے قیام کے’’ عہد‘‘ اور مقصد کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار
ہونا پڑ سکتا ہے۔اور یہ بھی بھلایا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن)
کا قیام ’’ حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ‘‘ میں عمل میں لانے کا’’ عہد‘‘
کیا گیا تھا۔یوں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم کانفرنس کے درمیان
انتخابی اتحاد یا تعاون ایک ایسا مفروضہ ہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیرنے تو اب تک تقریبا پانچ سال کا اپنا
مشکل،دشوار اور کٹھن وقت گزار لیا ہے،مسلم کانفرنس بھی اپنے ترکش کے تمام
تیر چلا چکی ہے،لہذا آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم کانفرنس کا
اتحاد یا انتخابی تعاون کسی صورت ہوتا نظر نہیں آتا۔ہاں مسلم لیگ(ن) آزاد
کشمیر کے تمام رہنما یہ پیشکش کرتے آئے ہیں کہ مسلم کانفرنس کو مسلم لیگ(ن)
آزاد کشمیر میں ضم کر دیا جائے۔کہا جاتا ہے کہ اس ظالم سیاست میں کبھی بھی
کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا ،کسی بھی امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا،اس
امکان کے تناظر میں اگر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم کانفرنس کے
درمیان انتخابی تعاون کے احکامات صادر ہوئے تو اس کا سب سے بڑا سیاسی نقصان
مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کو ہو گا۔تاہم اس طرح کی صورتحال کا امکان یوں بھی
ممکن نظر نہیں آتا کہ وزیر اعظم نواز شریف آزاد کشمیر کی سیاست اور مسلم
کانفرنس کے انداز سیاست کا اچھا بھلا تجربہ رکھتے ہیں اور اب وہ ایسے
اقدامات کے تجربات کرتے نظر نہیں آتے جو تجربات ان کے لئے تلخ یادوں کے
حامل ہیں۔
آزاد کشمیر کے آئندہ سال کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے
امکانات نمایاں ہیں اور اسی تناظر میں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) میں
شامل ہونے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔تاہم چند امور ایسے ہیں
جن پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو خود توجہ دینا ہو گی۔خدشہ ہے کہ اگر مسلم
لیگ(ن) آزاد کشمیر کے اہم امور کو نظر انداز کیا گیا تو اس سے مسلم لیگ (ن)
الیکشن تو جیت جائے گی لیکن اس سے دوسرے سیاسی نقصانات کے علاوہ مکمل
کامیابی کی سطح میں بھی کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر
کو ان غلطیوں سے بچنا ہو گا جس طرح کی غلطیوں نے مسلم کانفرنس کو خراب سے
خراب تر کیا، کہ مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے فیصلوں،اقدامات ،سرگرمیوں ،اجلاسوں
اور ملاقاتوں کا دائرہ کار پارلیمانی پارٹی تک ہی محدود رہتا نظر آ تا
ہے۔مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیرکو جماعتی امو رکے حوالے سے سیاسی جماعت کے
مروجہ طریقہ کار کے دائرے میں لاتے ہوئے مضبوط بنانے پر توجہ دینا اور
آزمودہ کار جماعتی رہنماؤں ،کارکنوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے اہم
امور ایک چیلنج کے طور پر درپیش ہیں۔یہی وقت ہے کہ جب مسلم لیگ(ن)آزاد
کشمیر اپنے اہم امور کو جماعتی سطح پر مخاطب کرے۔
آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کی نئی صف بندی کی جا رہی ہے اور
پیپلز پارٹی کے حکومتی عہدیدار عوام کو ’’اچھا حکومتی نظم و نسق ‘‘ قائم
کرنے اور آزاد کشمیر میں’’ شاندار‘‘ تعمیر و ترقی کی نوید سنا رہے ہیں لیکن
کیا آزاد کشمیر کے عوام اتنے ہی بھولے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت چار
سالہ بدترین دور حکومت کے بعد باقی مانندہ ایک سال میں پیپلز پارٹی کے
کردار میں انقلابی تبدیلی کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار ہو جائیں گے؟پیپلز
پارٹی کی حکومت کی طرف سے ابھی تک چیف لیکشن کمشنر کا تقرر نہ کیا جانا
،پیپلز پارٹی حکومت کی نیت اور ارادوں کو بے نقاب کرتا ہے۔مختصر یہ کہ
آئندہ سال کے اسمبلی الیکشن کے تناظر میں آزاد کشمیر کی سیاست میں تبدیلی
کا عمل جا ری ہے کہ آزادکشمیر میں عمران خان کی تحریک انصاف بھی قائم ہو
چکی ہے۔نظر یہی آتا ہے کہ تحریک انصاف آزاد کشمیر اپنی موجود ہ محدود
پوزیشن کے تناظر میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹکٹ یافتہ
امیدواروں کے اعلان کے بعد ہی اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرے گی کہ شاید
اس طرح ان پارٹیوں کے ٹکٹ حاصل نہ کر سکنے والے افراد کی ’’پی ٹی آئی ‘‘
میں شمولیت کی آس بندھی رہے۔قسمت کا حال بتانے والی کئی روحانی شخصیات کی
طرف سے ہر سوالی کی مراد پوری کرنے کا دعوی کرتے ہوئے عموما یہی کہتے جاتا
ہے کہ ’’ وہ تمنا ہی کیا جو پوری نہ ہو‘‘،لہذا ،سیاسی اور روحانی کرامات کی
حامل شخصیات بھی اس امید سے ہوں گی کہ ان کی امیدیں بر آئیں گی، امید پر تو
دنیا قائم ہے،تو پھر خواہشات کی تکمیل کی امید پر آزاد کشمیر کی حکومت کیوں
قائم نہیں ہو سکتی؟ |