آتشکے فانوس خیال میں تخلیقی ضیا

شعری کا ئنات میں تحیرات ،طلسمات ،ارتعاشات ،تمو جات ……تفرا دات ،امیتا زات اور نئے امکا نات کے سورج روشن کرنا آسان کام نہیں ……یہ خصوصیات بڑے تپسیا اور بر سہا برس کے مسلسل ریا ـض ،ژرف بینی ،اضطراب ،التہاب ،تحرک ،تجسس ،مشا ہدے اور تجر بے کے بعد ہی کسی فنکار کی تخلیق میں اپنی آب و تاب کے ساتھ نما یاں ہو تی ہیں ……ایسا فنکار دور ہی سے اپنی آواز ،اپنی ادا ،اپنے اسٹائل ،اپنے طرز بیان ،اپنے انداز ،اپنی قدو قامت اور اپنے رنگ و آہنگ سے پہچا ن لیا جا تا ہے ……شا عر کو بڑا بننے کے لئے بقول پرو فیسر گو پی چند نا رنگ :’’امتیا زات پیدا کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ،شا عر کو شا عر بننے کے لئے اسکی اپنی آواز ضروری ہے ‘‘۔

اس تنا ظر میں جب خواجہ حیدر علی آتش ؔکی شا عری پر نظر ٹھہر تی ہے ……تو ذہن میں چراغاں کی سی کیفیت کر وٹیں لینے لگتی ہے ……کہ انہوں نے اپنے شعری ابعاد میں تحیر خیز خیال کی کتنی کہکشائیں آباد کی ہیں اور احسا س و ادراک کی کتنی دنیا ئیں بسا ئی ہیں ۔

آتش ؔ لکھنؤ کے نما ئندہ شا عر ہیں ،مصحفی کی شا گر دی میں انہوں نے اپنے فن کے جو ہر چمکائے ،فنی سلیقہ مندی اور شعری بانکپن کا عر فان حا صل کیا اور بہت جلد اس مقام پرپہو نچ گئے کہ مصحفی کو یہ پیشن گو ئی دینی پڑی کہ :’’اگر عمر نے وفا کی تو یہ شخص یکتائے زما نہ ہوگا ‘‘آتش ؔ نے اپنی زندگی میں اسے ثا بت بھی کر دیا ،صوفیا نہ خاندان میں پرورش پائی ،مگر خاندانی فضا سے درو کا رشتہ رہا ،صفت قلندرانہ اور آہنگ مر دانہ نے مزاج میں شان بے نیا زی پیدا کر دی تھی ،وہ سپا ہیانہ ،رندانہ اور آزادانہ وضع کے ما لک تھے ،نہ کسی کے خوشا مدی بنے اور نہ ہی امراء کی جھوٹی شان میں قصیدے لکھے ۔اپنی فقیری میں شا ہا نہ لطف اٹھا یا ،گو شہ نشینی میں مست ہوکر خلوت گاہ خیال کو فکرو فن کی ضیا بخشی ؂
نہیں رکھتے ہیں امیری کی ہوس مرد فقیر
شیر کی کھال بھی ہے قاقم و سنجا ب مجھے

آتش ؔکی شعری شخصیت جس دور میں پر وان چڑھی وہ ایک عبوری دور تھا ،دہلی کے سینے پر قیامت ٹوٹ رہی تھی ،اسکے وجود پر درد کا کفن لپٹ چکا تھا ،شکست و ریخت اور مد وزجر سے وہ دوچار ہو رہی تھی ،ہر طر ف ما یوسی ،اداسی ،نا امیدی،پسپائی ،انتشار اور اضمحلال کی کیفیت نے دہلی کے ادباء ،شعراء اور علماء کو ہیجان زدہ کر دیا تھا ،جس سے وہاں کی شا عری غم انگیز ی کا عنوان بن چکی تھی ۔وہیں لکھنؤ اپنی ’’کو چہ عشرت‘‘میں مست ،رقص و سرور کی ’’محفل ‘‘میں مگن ،لذت پرستی ،بد مستی ،حسن و عشق کی عشوہ طرازی ،معشوق کی سرا پا نگا ری ،شراب و شاہد ،خم و کا کل ،جام و مینا اور صرا حی و پیما نہ کی رنگین فضا میں لہرا رہا تھا ۔دونوں ادبی دبستان مختلف سمتوں میں اڑان بھر رہے تھے ،جسکا مایوس کن نتیجہ یہ ہواکہ ہما ری شاعری ایک طر ف یاسیت اور دوسری طرف عیش وعشرت کے دو متضاد نظریات کا شکار ہو گئی ،اسے اقدار انسانی کی تر جمانی سے کو ئی سرو کار نہ رہا ،رجائیت کی جگہ قنو طیت اور اثباتی زاویے کی جگہ منفی رویے نے لے لی ……ان حا لات میں آتش ؔ نے شا عری کو وقار و اعتبار بخشا ،متبذل ،پر اگندہ اور فر سودہ مضامین کی جگہ متحر ک ،صحت مند اور رجا ئیت سے لبریز شا عری کر کے اپنی انفرا دیت قا ئم کی اور انسا نی زندگی کو اثبا تی نقطہ ٔ نظر عطا کیا ،بقول خلیل الر حمن اعظمی :’’اردو غزل کی تا ریخ میں آتش ؔ پہلا شاعر ہے جسکے یہاں ہم زندگی کے با رے میں ایک اثبا تی نقطہ ٔ نظر پا تے ہیں اور بجائے یاس و نا امیدی ،لذت و ہوس یا سکون و جمود کے نبر د آزمائی ،صحت مند نشاط وسر شا ری اور زندگی سے بھر پور امید اور رجائی انداز نظر ملتا ہے ‘‘(مقد مہ کلا م آتش ؔ صفحہ۷۳)

آتش ؔ کی شاعری میں جدت و ندرت ،طر فگی ،ہم آہنگی ،معنوی تہہ داری ،کلام کی سا دگی ،محا وروں کی شگفتگی ،زبان کی نزاکت ،لطا فت ،ادائیں ،الفاظ کی شیرینی ،بندش کی صفائی ،تر کیب کی چستی ،لفظی توا زن ،عرو ـضی نزاکت ،ردیف و قوا فی کی گرج ،فصا حت ،نفا ست ،سلا ست ،شو خی ،رنگینی ،رعنا ئی ،با نکپن ،تشبیہات کی لطا فت آمیزی ،نگا ہ کی تا زگی ،شا عرا نہ تلمیح ،تخیل کی شا دابی ،فکری اعماق ،ارتقائے خیال ،مــضمون آفرینی ،مر صع سا زی ،احساس کی خوشبو ،وجدان کا جمال ،حسین دھڑکن ،خو بصورت لے ،آوا ز کا زیرو بم ،ایک ہما ہمی ،ایک للکار ،معر کہ آرائی، جاں سپاری ،آن ،بان اور شان ،گر ما گر می ،تڑپ ،کڑک ،لہک ،چہک اور چنگا ریاں ،تغزل کا جا دو ،نیا مزاج ،نیا آہنگ ،نئی فضا اور نئی سجا وٹ جیسے عنا صر بدر جہ ٔ اتم مو جود ہیں ۔انکی شا عری کی سا حری میں کبھی نشہ ہے ،کبھی خمار ،کبھی نشتر ہے ،کبھی تلوار ،کبھی شعلہ ہے ،کبھی شبنم،کبھی سا حل ہے ،کبھی سمندر ……رنگوں ،خو شبو ؤں کی جنت بھی ہے ،اخلا قیات ،عر فان حیات اور تصوف کی چا شنی بھی ،مسائل کا ئنات کا رمز و فسو ں بھی ہے اور انسا نی نفسیات کے گہرے مشا ہدے بھی ،دردو غم کا نو حہ بھی ہے اور نشا ط و سرور کی سرشا ری بھی ،کیف ومستی بھی ہے اور بے با کیٔ اظہار بھی ۔

شعری کا ئنات میں راہ اجتہا د کی جستجو نے انفرا دی مقام عطا کیا ،انکا شخصی زاویہ ٔ نگاہ بہت روشن ہے ،انہو ں نے جدید و قدیم اشعار کا چر بہ نہیں اڑا یا ،مو ضو عات گو کہ وہی ہیں ،جو سماج ،معا شرے اور المیے کسی بھی شاعرکو عطا کر تے ہیں ،تا ریخ ،فلسفہ ،حکمت ،تصوف ،اخلا قیات اور تہذیبی عرو ج و زوال ……ان مو ضو عات کی اشترا کیت کے با وجود ہر اچھا شاعر اپنے انفرا دی جوہر کو تخلیقی عمل کی توا نائی سے تا بندہ کرتا ہے ،آتش ؔ نے بھی اپنے احساس کی تا زگی اور تخلیقی عمل کی توا نا ئی سے اشعار کی تہوں میں ندرت خیال کی جو لہریں مو جزن کی ہیں اور نئی کیفیت کی جو دنیا آباد کی ہے ،وہ انکی انفرادیت کی معتبر شنا خت ہے ،خصوصا غزل میں یہ انفرا دکسی بھی غزل گو شاعر کے لئے خا صا مشکل امر ہے ،کیو نکہ یہاں عمو میت ہو تی ہے ،ہم مضمون اور ہم معنی اشعار کی بہتات ہو تی ہے ۔خلیل الر حمن لکھتے ہیں :’’غزل کی شا عری میں یو ں بھی عمو میت ہو تی ہے اور انسا نی دکھ درد ،نشا ط و مسرت ،حسرت و آرزو اور ہجر و وصال کے مضامین سا رے شعرا ء میں ایک اشتراک پیدا کر دیتے ہیں ،اب اگر ایک شاعر کہی ہو ئی بات کو دو با رہ اسی طرح سے کہتا ہے تو سوال یہ پیدا ہو تا ہیکہ ’’شعرگفتن چہ ضرور ‘‘کہی ہو ئی بات کو دو بارہ کہنے یا مشترک انسانی احساس کو تا زگی بخشنے کے لئے شا عرکی شخصیت کا تخلیقی ہو نا ضروری ہے ‘‘(ایضا ۷۱)۔یہ تخلیقی شخصیت آتش ؔ کے شعری سرا پا کا حصہ تھی ور نہ بت شکن نقا د پرو فیسر کلیم الدین احمد کو آتش ؔ اور نا سخؔ کے ما بین فرق تراتب کے لئے یہ نہ کہنا پڑتا کہ :’’آتش ؔ شاعر تھے اور نا سخ شا عری کے لئے تخلیق نہیں کئے گئے تھے‘‘(ایضا صفحہ ۳۹)۔
آتش ؔ بھی شا عری کے لئے اس تخلیقی احساس سے لبریز تھے اسی لئے تو انہو ں نے کہا ؂
کھینچ دیتا ہے شبیہ شعر کا خا کہ خیال
فکر رنگیں کا م اس پر کر تی ہے پر واز کا
بندش الفا ظ ،جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شا عری بھی کا م ہے آتش ؔ مرصع سازکا

آتش ؔ کی پو ری شا عری اسی فکر رنگیں اور مرصع سا زی کا اعلی نمو نہ ہے ،انہوں نے فکر رنگین و سنگین کی لا لہ کا ری سے جو فضا تشکیل کی ہے ،وہ صحت مند خارجیت کی عکا س ہے ،جو غم کے بجائے نشاط ،شکست کے بجائے حو صلہ بخش اور یاس انگیزی کے بجائے دنیا کی رنگا رنگ بزم آرائیوں سے معمور ہے ،انہیں زندگی کے متنوع مشاہدات کو تخلیقی پیکر میں نئی روح کے سا تھ پیش کر نا آتا تھا ،اسی لئے انہوں نے اپنے شعری گلشن میں جو پھول کھلا ئے ہیں انکی زیبائی ہمیں اپنی جا نب متو جہ کر نے میں کا میاب ہے ۔تلخی ،طنز ،یاس و حسرت ،تشکیک اور بغا وت جیسے عنا صر کے بجائے آتش ؔ کی شاعری بہجت و سرور اور نشا ط و انبساط کا پیغام اپنے اندر رکھتی ہے ،اپنے لب و لہجہ اور طرز اداکو شگفتگی ،تا زگی ،نئے مو سم ،نئی آب و ہو ااور شا دا بی و سرشا ری کی کیفیت سے ہم آہنگ کیا ہے ،انکی تخلیق کی تا بندگی ،رخشندگی اور پا ئندگی آج بھی قا ری کی دلی تقلیب کر تی ہے ۔آئیے انکی شعری تجلیاں ملا حظہ کر تے ہیں ؂
کا ٹ کر پر مطمئن صیاد بے پر واہ نہ ہو
روح بلبل کی ارادہ رکھتی ہے پر وازکا
کم نہیں خو رشید سے دا غ جنوں میں روشنی
صبح ہو جائے جو چاک اپنا گریباں کیجئے
خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی
گریباں پھا ڑتا ہے تنگ جب دیوا نہ آتا ہے
کسی نے مول نہ پو چھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹو ٹا پیا لہ کیا کر تا

مذکو رہ اشعار میں زندگی کی شکستگی ،افسر دگی اور ایک خلش کی تر جما نی ملتی ہے مگر اسکے ابعا د میں نبر د آزما ئی کے چراغ روشن کر کے شاعرنے مقا بلۂ غم کا حو صلہ بھی عطا کردیا ہے ۔

آتش ؔ کی تخلیق میں شجا عت ،شہا مت ،دلیری ،بہادری ،عالی حو صلگی اورجواں مر دی انکی شخصیت کا استعارہ بن گئی ہے ،چو نکہ آتش ؔ سپا ہیا نہ صلا حیت کے مالک تھے اور تیغ زنی میں بھی انہیں مہا رت حا صل تھی ،اسلئے انکے ہاں تیر و نشتر ،شمشیر و سناں اور خنجر و تلوار کے تلا زمے فنی خو بیوں کے ساتھ مستعمل ہو ئے ہیں اور اپنے قا ری کو ایک نئی کیفیت سے آشنا کر اتے ہیں ؂
نہ کھایا میں نے کڑے پن سے زخم تیغ کرم
میں اپنے جو ہر ذاتی سے غرق آہن تھا
دختر زر کے لئے ہو تا ہے اک دن کشت و خون
محتسب پر کھینچتے ہیں آج کل تلوار مست
جو ہر شناس جمع ہیں آتش ہے معر کہ
شمشیر ہے وہی کہ جو عر یاں ہے ان دنوں
تیری تلوار کی برش کا ہے شہرہ قاتل
ہم بھی دیکھیں تم ہمیں کر تے ہو کیو نکر ٹکڑے

غزل کی یہ للکار ،یہ تڑپ ،جذبات کی یہ شدت ،احساسات کی یہ گر می اور تشبیہات پامال میں تغزل کا یہ جا دوشا ید کہیں اور ملے!!

آتش ؔ کے عشقیہ لہجے میں صحت مند نر گیسیت و جسما نیت کی حسین تعبیریں ملتی ہیں،جما لیا تی اوروجدانی احساس کا لمس ملتا ہے ،استعا را تی سلسلے ارتقائی صو رت اختیار کر تے ہیں ،لذت بخش اور خواب آور خوشبوپھو ٹتی ہے ،ایسا شوخ ،رنگین اور حسین فضا ابھر کر سا منے آتی ہے کہ قا ری سرو ر و کیف اور نشا ط و مستی سے سر شار ہو جا تا ہے ،بقول آل احمد سرور :’’آتش ؔ کے یہاں حسن کی مصوری میں احساس کا رنگ آتا ہے ،یہی احساس واردات عشق کو کیف و سر مستی کی دنیابنا دیتا ہے ،میرؔ کے یہاں عشق ایک آزار ہے مگر آتش ؔ کے یہاں یہ ایک شراب ہے ،ایک خوشبو ہے ،ایک چا ندنی ہے ،ایک رقص ووجد کی شیٔ ہے ،یہ عشق ما ورائی نہیں ہے اسمیں جسم کی آنچ ہے ،اعضاء کا نقش جمیل و زخم کی مہک ،جذبے کی گر می اور ذوق وشوق کی لذت ہے ،آتش ؔ اردو کے پہلے عا شق سر شار ہیں ‘‘(ایضاصفحہ۱۳تا ۱۴)۔انہوں نے عشقیہ شاعری کو رسمی ،ڈرامائی،با زاری اور ہو س نا کی کی فضا سے نکال کر خلوص و محبت ،لطیف ترین انسا نی جذبے اور جما لیاتی رس سے لبریز کر دیا ہے ،جہاں عاشق و معشوق ایک دوسرے کی عصمت و حیا اور پاکدا منی و پا کبا زی کے محا فظ بن کر سا منے آتے ہیں ۔انہیں عیاشی ،او باشی اور رئیسی کی اجا زت نہیں ہو تی ،بلکہ فنا ئیت ،فدائیت اور قربا نی کے جذبہ ٔو حو صلہ کا حسین پیغام ملتا ہے ۔آتش ؔ نے اپنی عشقیہ شاعری میں لفظیاتی آہنگ سے بھی الگ جزیرے کی جستجو کی ہے ،خوش اسلوب ،خوش اخلاق ،خوش مزاج ،خوش جمال ،خوش اختلاط اور رخ روشن جیسے الفا ظ انکے محبوب کے کر دارکا روشن استعارہ ہے ؂
جو رو جفا ہزار کر ہم خفا نہ ہو نگے
خوش رو سے ،خوش جمال سے ،خوش اختلاط سے
چشم نا محرم کو برق حسن کر دیتی ہے بند
دامن عصمت ترا آلو دگی سے پاک تھا
قید نقاب ،قید حیات و حجاب شرم
یو سف ہمارا رکھتا ہے زنداں نئے نئے

محبوب کے سراپا کی مصوری سے بھی آتش ؔ اپنی شاعری کو نئے آفاق سے روشناس کر اتے ہیں ،انہوں نے جما لیا تی حس سے جسم محبوب کے نا زک ،لطیف اور انتہا ئی باریک خطوط تک رسائی حا صل کی ہے او ر لمحہ بہ لمحہ جمال یار کے ارتقاء میں روح کی لطا فت سے زیادہ چا شنی پا ئی ہے ؂
ہر گھڑی ہر دم ترقی ہے جمال یار کو
روح سے بہتر لطافت میں بدن ہو جا ئیگا
جب بھی دیکھئے کچھ اور ہی عالم ہے تمہارا
ہر بار عجب رنگ ہے ہر بار عجب روپ
پری شیشے میں اتری کہئے یا قالب میں روح
عجب انداز سے آغوش میں وہ نا زنیں آیا
آئینہ میں منھ جو دیکھے وہ غیرت یو سف
ادھر یہ اور ادھر وہ عکس انگلیاں کاٹے

آخری شعر میں تلمیح کے سہارے حسن محبوب پر تخیل کی با زیگری کیا خوب ہے !!

یہ سچ ہے کہ آتش ؔ کی شا عری میں ہمیں عر یا نیت کا احساس بھی بڑی شدومد کے ساتھ ہو تا ہے ،مگر درحقیقت وہ نشاط کی آخری منزل ہے ،جہاں آتش ؔ پر وجد کی سی کیفیت طاری ہے ،بے تا بی ہے ،بے قراری ہے اور وصل محبوب سے رات رنگین ……پھر سنگین ہو گئی ہے۔

آتش ؔ کی متصوفانہ شاعری میں جہاں عر فان الہی ،عرفان نفس ،مظاہر الہیہ،تجلیات ربانی ،فنا فی اﷲ ،تزکیہ ٔ قلوب،تطہیر با طن اور عشق حقیقی میں تو ازن و تنا سب اور اعتدال کے چراغ روشن ہیں وہیں اخلا قیات ،عظمت انسا نی اور پاسدا ریٔ اقدار کے فکری زاویے بھی منور ہیں ؂
خورشید سے زیادہ ہو ئی اسمیں روشنی
جو ذرہ تری راہ میں برباد ہوگیا
کا م ہے اﷲ سے عالم سے مطلب کچھ نہیں
مشتری یو سف کے ہیں خواہاں نہیں بازارکے
پو چھا ہے عا رفوں سے جو ہم نے مکان یار
آنکھوں کو بند کر کے ہے دل کا پتہ دیا
اخلا قیات اور تو قیرانسانی سے لبریز لہجہ سنئے ؂
دل کی کدو رتیں اگر انساں سے دورہوں
سار ے نفاق گبر و مسلماں سے دورہوں
مقسوم کا جو ہے سو وہ پہونچے گاآپ سے
پھیلا ئیے نہ ہاتھ نہ دامن پساریئے
سمجھئے آتش ؔ نہ کوئی آدم خاکی کو حقیر
نہیں اسرار سے یہ خاک کا پتلا خالی

یقینا آتش ؔ کی شاعری ،انکا لہجہ ،انکے افکار و خیا لات اور جذبات و احساسات کی زیریں لہریں انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی اور نئی معنویت کا سورج ہمیشہ انکی افق شا عری سے طلوع ہو تا رہے گا ۔

Abdul Wahab
About the Author: Abdul Wahab Read More Articles by Abdul Wahab: 6 Articles with 9670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.