اسلام وہ دین حنیف ہے جو انسان کو صراط مستقیم عطا کرتا
ہے۔ساتھ ہی ان بے شمار سوالات کے جواب فراہم کرتا ہے جو اس کے ذہن میں پیدا
ہوتے ہیں۔اسی طرح کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ زندگی دائمی ،ابدی اور لافانی
ہے یا یہ زندگی وقتی ،مختصر اور فانی ہے؟یہ وہ اہم سوال جو نہ صرف ذاتی
زندگی میں انجام دیے جانے والے اعمال سے تعلق رکھتا ہے بلکہ فرد و اجتماعیت
کے ریاست اور دنیاسے متعلق نظریہ کو بھی واضح کرتا ہے۔زندگی کو مختصر
سمجھنے والے عموماً ہر عمل ورد عمل اور اس کے نتیجہ کو بہت جلد دیکھنے کے
عادی ،جلد باز اور صبر و تحمل سے عاری ہوتے ہیں۔برخلاف اس کے دائمی زندگی
پر یقین رکھنے والے متحمل مزاج اور صابر و شاکر سمجھے جاتے ہیں۔حقیقت میں
یہ زندگی دائمی ہے۔یہ زندگی جو ہمیں میسر آئی ہے وہ لافانی ہے۔اور موت جو
ایک سچائی ہے وہ حد درجہ مختصر مدت پر منحصر ہے۔زندگی اور موت کا معاملہ
ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص دن بھر اپنے کاموں کو انجام دینے کے بعد رات میں
آرام کی غرض سے سو جائے اور پھر صبح بیدار ہو۔زندگی اور موت کے درمیان کا
فاصلہ بھی بس اتنا ہی ہے۔یہ فاصلہ طے ہوتے ہی لافانی زندگی پھر سے شروع ہو
جاتی ہے۔لہذا جو لوگ اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے
اور کیا بھی جانا چاہے کہ لافانی زندگی کے عقیدہ پر آپ کا یقین کس قدر پختہ
ہے ؟پھر یہ پختہ یقین عمل سے ثابت کیا جائے نہ کہ قول سے۔کیونکہ قول و عمل
کا تضاد ہی رسوائی کا سبب بنتا ہے۔
اسلام یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ آج اگر کوئی واحد مذہب دنیا میں باقی ہے جو
فرد،خاندان،معاشرہ اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر تعمیر و ترقی کا ذریعہ
بن سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا عمل
اس بات کی شہادت نہیں دیتا بلکہ اسلامی نظام اور اس کی خوبیوں کو واضح کرنے
کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔جب سے گلوبلائیزیشن نے مختلف ثقافتوں،تمدنوں اور
معاشروں کو ایک کیا ہے۔معاشی اعتبار سے کمزورترین و ترقی پذیر ملکوں نے
مغربی افکار و نظریات اوردیگر باطل طریقہ ہائے زندگی کواختیار کرنے میں کچھ
زیادہ ہی دلچسپی دکھائی ہے۔نتیجتاً فرو و معاشرہ گرچہ بیرونی اعتبار سے کچھ
خوشحال نظر آئے اس کے باوجود بیرون میں بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔آج پوری
دنیا میں ایک نظریاتی خلا پایا جاتا ہے۔اوراسلام متبادل نظام پیش کرنے کی
صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے باوجود محسوس یوں ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص نظریہ ٔ
حیات کی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔صرف مادی ترقی اور خوشحالی اس کے پیش نظر
ہے اور ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہذا یہ بات واضح کرنے کی ضرورت
ہے کہ ہر انسان کے لیے اپنا نظریہ ٔ حیات طے کرنا ضروری ہے۔اُسی سے پوری
زندگی کا رخ متعین ہوتا ہے۔اسلام صحیح نظریہ ٔ حیات پیش کرتا ہے۔وہ انسان
کی مادی ضروریات کی تکمیل کی راہ بھی دکھاتا ہے اور اس کو اطمینان قلب بھی
فراہم کرتا ہے۔اس نے عبادت کا جو نظام دیا ہے وہ اس نظریۂ حیات کو تقویت
پہنچاتا ہے۔خاندان سماج کا بنیادی شعبہ ہے اورآج اس کا ڈھانچہ بکھرتا
چلاجارہا ہے۔اس کے باوجوداسلام خادان کی تعمیر کے لیے ٹھوس اور مضبوط
بنیادیں فراہم کرتا ہے۔اُس نے جو اخلاقی تعلیمات دی ہیں وہ انسان کو پاکیزہ
سیرت و کردار عطا کرتی اور انسانی تعلقات کو بہتر بناتی ہیں۔اس کا معاشی
نظام انتہائی اعتدال پر مبنی ہے۔وہ امیر اور غریب کی کشمکش سے سوسائٹی کو
نجات دلاتا ہے۔ہر ایک بنیادی ضروریات کی تکمیل کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور
جائز ذرائع سے معاشی جدوجہد کی اجازت دیتا ہے۔اس نے سیاست کا جو نظام دیا
ہے وہ انسان پرانسان کے اقتدار کو ختم کرتا ہے اور فرد کو اﷲ کا بندہ اور
اس کے احکام کا پابند بناتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم جس نظام کا حصہ ہیں وہ سیکولر اور نیشن اسٹیٹ کے نام سے
جانا جاتا ہے۔نیشن اسٹیٹ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں شہریت کی بنیاد صرف اس
خطہ زمین کا باشندہ ہونا ہے۔چنانچہ کسی شخص کا مذہب اس کی شہریت کے سلسلے
میں بحث نہیں ہوتا اور ہر شہری کو بلالحاظ مذہب انتظام ملکی میں شرکت کا حق
حاصل ہوتا ہے۔اسی سے اس کے یہ معنی بھی نکلتے ہیں کہ جس طرح ہر شہری کو
ملکی انتظام میں شرکت کا حق حاصل ہے، خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو، اسی طرح
خواہ اس کا نظریہ(ideology)کچھ بھی ہو، اسے ملکی انتظام میں شرکت کا حق
حاصل ہوگا۔نیشن اسٹیٹ کا خود کا کوئی نظریہ نہیں ہوگا،کیونکہ اگر اس کا
اپنا کوئی نظریہ ہوا تو وہ مخالف نظریات رکھنے والے شہریوں کو انتظام ملکی
میں شرکت کے مساوی حقوق نہیں دے سکتی۔اصولاً تو نیشن اسٹیٹ کا کوئی اپنا
نظریہ نہیں ہوتا،بلکہ وہ سادہ جمہوری نیشن اسٹیٹ ہوتی ہے۔لیکن عملاً تاریخی
اسباب کی بنا پر ہوتا یہ ہے کہ ہر ریاست اپنا ایک نظریاتی رنگ رکھتی
ہے،خواہ وہ تسلیم کرے یا نہ کرے۔اور یہ نظریاتی رنگ اس ریاست کے دستور،
نظام تعلیم،سرکاری میڈیا، پالیسیوں، تقریبات اور نعروں ،غرض ہر چیز میں
جھلکتا ہے۔مخصوص نظریاتی رنگ میں رنگنے کے لیے ریاست کی پوری مشنری کوشش
کرتی ہے۔اور جو باشندے اس نظریاتی رنگ سے اتفاق نہیں رکھتے وہ اصولاً تو
سارے شہری حقوق رکھتے ہیں،لیکن عملاً زمین ان کے لیے تنگ ہوتی چلی جاتی
ہے۔ایسا صرف کسی تعصب کی بنا پر نہیں ہوتا،بلکہ نظریاتی رنگ کی موجودگی کا
فطری نتیجہ یہ ہے کہ ریاست ان نظریات کو مٹانے کی کوشش کرے جو اس کے اپنے
پسندیدہ نظریے سے مختلف ہوں۔
واقعہ یہ بھی ہے کہ اس وقت ملک متعدد سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ان حالات میں
ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ملک کی تعمیر و
ترقی میں حصہ لیں۔مسائل جن سے ملک دوچار ہے ان کو دور کرنے کے لیے اپنی
صلاحیتوں کو صرف کریں۔ساتھ ہی اسلام جس نظام عدل و انصاف کی بات کرتا ہے اس
کے قیام میں سعی و جہد کریں۔ہم جانتے ہیں کہ فی الوقت فقر و فاقہ،لوٹ کھسوٹ،
ملاوٹ اور چور بازاری، ذخیرہ اندوزی و گران فروشی،بدعنوانی و رشوت ستانی،
نظم و نسق کی ابتری، تشدد و لاقانونیت کی بڑھتی ہوئی لہر، غنڈہ گردی و غنڈہ
پروری، غیر ضروری بند و ہڑتال کی وبا،قومی دولت اور املاک کی وسیع پیمانہ
پر بربادی، باہمی نفرت و بے اعتمادی، نفسانیت و اباحیت، فحاشی و بے حیائی،
اخلاقی انارکی،کام چوری اور غیر ذمہ دارانہ روش،کلیت پسندانہ و آمرانہ
رجحانات، بنیادی حقوق کی پامالی، ظلم و ناانصافی، عصبیت و عدم رواداری ،اور
ان سب سے زیادہ یہ کہ جارحانہ قوم پرستی وغیر جمہوری سرگرمیوں نے مسائل میں
مزید شدت و سنگینی بڑھا دی ہے۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر گوشے میں
بگاڑ اور فساد رونما ہو چکا ہے۔وہیں دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ سب
ہمارے اپنے ہی کرتوتوں کا کڑوا کسیلا پھل اور اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی
ہے۔جسے اﷲ تعالیٰ کچھ اس طرح بیان کیا ہے:"خشکی و تری میں فساد برپا ہو گیا
ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض
اعمال کا ۔شاید کہ وہ باز آجائیں"۔ |