ہمارا ملک ہندوستان اس وقت بہت تیزی سے تبدیلی کے
دور سے گزر رہا ہے ۔ تبدیلی ہونی چاہئے، یہ ضروری ہے۔اگر تبدیلی نہ آئے تو
زندگی جامد ہو کر رہ جائیگی ۔ لیکن تبدیلی ایسی ہونی چاہئے، جو ملک اور
عوام الناس کے مفاد میں ہو ،اور جس سے مسرت، انبساط،اطمینان اور سکون کی
فضا قائم ہو ۔ لیکن ملک میں موجودہ حکومت کی جانے والی تبدیلی کی کوششوں
لوگوں کو دیکھ کر ایسا لگا تھا کہ حکومت سازی کے لئے بھاجپا نے اپنے
انتخابی منشور اور انتخابی تقاریر میں ملک کے عوام سے جو وعدے اور دعٰوے
کئے تھے۔ انھیں پورا کرنے کے لئے یہ ساری جد و جہد ہو رہی ہے ۔لوگوں کا
خیال یہ بھی تھا کہ اس حکومت کو اس بات کا بھی ضروراحساس ہوگا کہ ووٹ کے
میزان پر اوسطََ 31 فی صد عوام نے اس پارٹی کو حمایت میں اور 69 فی صد عوام
نے مخالفت میں ووٹ دیا ہے ۔ پھر بھی آئین کی رو سے مرکز کی یہ حکومت اور اس
کی سربراہی سوا سو کروڑ عوام کے لئے ہے ۔ اس لئے حکومت وقت کو مٹھی بھر
لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے ہر طبقہ کے مفاد اور ان کی بنیادی
ضروریات کو ترجیح دینا آئینی, جمہوری اور اخلاقی پابندی و فریضہ ہے ۔
میں اس بات سے متفق ہوں کہ کا نگریس یا دیگر مخلوط حکومتوں نے ماضی میں ملک
کے بہت سارے بنیادی مسائل سے چشم پوشی کی ہے ۔ غربت، بے روزگاری، تعلیم ،
فرقہ واریت اور کرپشن جیسے مسئلے کو جس جنگی سطح اور ترجیحی بنیاد پر حل
کرنے کی ضرورت تھی ، اس پر بہت سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی ، نتیجہ اس کا
یہ ہے کہ آج بھی ایسے مسئلے برقرار ہیں ۔ جس کی وجہ کر ہمارا ملک کئی محاذ
پر بدحال اور بدنام ہے ۔ توقع تھی کہ موجودہ حکومت ان مسائل پر خصوصی توجہ
دے کر اپنا امیج، یوپی اے اور کانگریسی حکومت سے بہت بہتر بنانے کی سعی کرے
گی ۔ ابھی حال ہی میں ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے ڈیجیٹل انڈیا اسکیم کا
افتتا ح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اب ملک میں بدلاؤ آکر رہے گا ۔ بس بدلاؤ
کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جو اس بدلاؤ کو نہیں سمجھے گا ، دور کھڑا نظر آئے
گا ‘‘
نریندر مودی کی اس معنی خیز بات کو ان کی پارٹی،وزارت اور تجارت والوں نے
قبل سے ہی بخوبی سمجھ رکھا تھا جن پر پوری طرح متحرک اور فعال نظر آئے ۔
مرکز میں بھاجپا کی حکومت قائم ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر گیا اور وہ عوام
کے بنیادی مسائل پر غور و فکر کرنے اور ان کے سدّباب کے لئے لائحہ عمل تیار
کرنے کی بجائے دوسرے غیر ضروری امور میں الجھ کراور اپنے سرپرست آر ایس ایس
کے ایجنڈوں اور وزیر اعظم کے اشاروں کو عملی جامہ پہنانے میں منہمک ہیں ۔
جس کی بنا ٔ پر دن بدن یہ حکومت عوامی مقبولیت اور اپنی ساکھ کھوتی جا رہی
ہے ۔
حکومت سازی کے ابتدائی دنوں میں ملک کی ہمہ جہت ترقی اور مثبت تبدیلی کے
لئے مرکزی حکومت کا بڑا خوبصورت اور قابل تعریف نعرہ سامنے آیا تھا ’’ سب
کا ساتھ ․․․․سب کا وکاس ‘‘ ۔ جس نے بھی یہ نعرہ سنا ، اسے اچھا لگا
اورمتاثر ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے توقعات وابستہ کی کہ اب یہ حکومت
واقعی اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی جانب اپنے قدم بڑھا رہی ہے ۔
لیکن افسوس کہ حکومت ’’سب کا وکاس‘‘ میں غریبوں ، مزدوروں ، بے روزگاروں
اور دیگر حاشیہ پر پڑے لوگوں کو چھوڑ کر اڈانی اور امبانی وغیرہ جیسے صنعت
کاروں کے ’’وکاس‘‘ میں مشغول ہو گئی ۔ ان صنعت کاروں کے لئے ملک کا خزانہ
کھول دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں کے سامنے دولت کے ڈھیر لگ گئے
اور اُدھر کسان خودکشی کرنے لگے ، بے روزگار نوجوانوں مایوس اور نامراد ہو
کر غلط راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو نے لگے ، دیہی علاقوں میں بھوک سے
مرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ورون گاندھی کے مطابق ملک کے 25.5 فی صد
لوگوں کو غذا تک نصیب نہیں ہے ۔ یونیسیف کی رپورٹ کی رپورٹ کے بموجب صرف
گجرات میں 42 فی صد بچے ناقص غذائیت کے شکار ہیں ۔ پینے کا صاف پانی لوگوں
کو میّسرنہیں ہے۔ لوگ کئی کئی میل دور جا کر بڑی مشکلوں سے پانی حاصل کر
اپنی زندگی کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ۔ بعض علاقوں میں تو تلاش
و جستجو کے بعد بھی صاف پانی نہیں ملتا ہے ، جس کی وجہ کر لوگ آلودہ پانی
پینے پر مجبور ہیں اور بیمار پڑتے ہیں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو آزادی حاصل
کئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بھارت کے لوگ روٹی اور
پانی کے لئے ترس رہے ہیں ، کپڑا اور مکان تو ایسے لوگوں کے لئے سپنا ہی ہے
۔ اقوام متحدہ کے ملینیم ڈیولپمنٹ گول کی حالیہ اوسلو میں جاری رپورٹ کے
مطابق بھارت میں آج بھی کروڑوں لوگ کھلے آسمان کے نیچے رفع حاجت کے لئے
مجبور ہیں ۔گھر سے باہر نکل کر رفع حاجت کے لئے جانے والی جوان لڑکیا ں
ایسے وقتوں میں چھیڑ چھاڑ ، زنا ، اغوأ اور تشدّد کی شکار ہو رہی ہیں، اور
تنگ آ کر ایسی لڑکیاں خود کشی بھی کر رہی ہیں ۔ اقوام متحدہ کی اسی رپورٹ
میں بھارت میں بڑھتی بے روزگاری پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔
اس سال کے جشن یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمارے وزیراعظم نے تاریخی لال قلعہ
سے اپنی ’سحر انگیز‘ تقریر میں ملک کے کروڑوں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اور
صدر امریکہ براک اوبامہ کی موجودگی میں یہ یقین دلایا تھا کہ فرقہ پرستی کے
عفریت کو دس سال تک قید میں رکھا جائیگا ۔ لیکن افسوس کہ فرقہ پرستی کے
عفریت کو قید میں رکھنے کی بجائے اس کی افزائش نسل پر زیادہ توجہ دی جانے
لگی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ عفریت حوصلہ پا کر آئے دن آگ اگل رہے ہیں ۔
جس سے ملک کے اندرصدیوں پرانی باہمی یگانگت ، اتحاد و اتفاق ،یکجہتی، اخوت،
بھائی چارہ، ایثار و محبت، گنگا جمنی تہذیب و اقدار پامال ہو رہی ہیں ۔یعنی
ہماری شاندار روایات اور ہندوستانی تہذیب کو شعوری طور پر خاکستر کیا جا
رہا ہے ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم صدیوں سے ایک مشترکہ تہذیب کے
عمل بردار رہے ہیں ، جس کی قدر بیرون مما لک میں بھی ہے ۔ آ ج بھی ہمارے
بچے ملک کے بیشتر اسکولوں ، کالجوں میں آپسی میل و محبت کے ساتھ مل جل کر
پڑھائی کرتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں ، ایک دوسرے کی دانتوں کاٹی روٹیاں
کھاتے ہیں۔ ملک کے مختلف محلّوں ، ٹولوں ، کالونیوں،اپارٹمنٹس اور دفاتر
میں ہر مذہب اور ذات کے لوگ شیر و شکر ہو کر رہ ر ہے ہیں ،آپس کے دکھ سکھ
میں کام آتے ہیں ، ایک دوسرے کے پرب وتہوار کو مل جل کر مناتے ہیں ۔ ملک
میں نہ جانے کتنے ایسے ہندو ہیں ، جو رمضان المبارک کا احترام کرتے ہیں ،
اور روزہ بھی رکھتے ہیں ۔ تازہ مثال ابھی ڈمراؤں کی پرنیکا کماری اور بہار
کے ایک سابق وزیر مُنیشور سنگھ کی بیٹی پریتی سنگھ وغیرہ کی ہے، جنھوں نے
اپنی بعض مسلم دوستوں کے ساتھ پورے روزے پوری عقیدت و احترام کے ساتھ رکھے
۔ اسی طرح ایسے بہت سارے مسلمان بھی ہیں جو چھَٹ کا اپواس زمانے سے کرتے
چلے آ رہے ہیں ۔ ہولی ، دیوالی ، عید، بقرعیدجیسے پرب وتہوار کو بلا تفریق
مذہب وملّت جس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل جل لوگ مناتے ہیں ، ایسی مثالیں
صدیوں سے چلی آ رہی ہیں،جو قابل تعریف اور قابل تقلید ہیں ۔ بعض خاص حالات
میں آپسی میل ، محبت میں لوگ اتنے قریب آ جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے جیون
ساتھی بھی بن جاتے ہیں ۔ سید شہنواز حسین ، مختار عباس نقوی، ایم جے اکبر ،
سشیل مودی ، شاہ رخ خان، عامر خان، سیف علی خان وغیرہ غیر مسلموں سے شادی
کر کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ تو چند سیاسی اور فلمی مشاہیر
کے نام ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ ایسے لاکھوں لوگ ہیں ، جنھوں نے اپنی شاندار
اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے دوسرے مذاہب کے لڑکے اور لڑکیوں کو ترجیح
دیتے ہوئے ان سے شادیاں کی ہیں اور کر رہے ہیں ۔ ایسی محبت، دوستی اور
یکجہتی کو توڑنے اور ختم کرنے کی جو منظم کوششیں بعض فرقہ پرستوں کی جانب
سے جو ہو رہی ہیں۔ وہ بہر حال ملک کی سیاسی ، سماجی اور معاشرتی نظام اور
استحکام کے مضر ثابت ہونگی ۔کچھ گرجا گھروں کو توڑ کر ، چند مساجد کو ناپاک
کر ، کچھ شہروں اور دیہی علاقوں میں فرقہ واریت کا زہر گھول کر چند معصوم
اور بے بس مظلوموں کو قتل کر ، مسلم مکت بھارت کا نعرہ دے کر ، سرکاری وکیل
کو سرکاری افسران کے ذریعہ ڈرا دھمکا کر، مسلمانوں کی آبادی پر روک لگانے
کا نعرہ دے کرذمّہ دار عہدوں پر بیٹھے گری راج سنگھ ، ساکچھی مہاراج، یوگی
ادیتیہ ناتھ،سادھوی پراچی اور مختار عباس نقوی وغیرہ جیسے لوگ اپنے غیر
اخلاقی، غیر مہذب، غیر ذمّہ دارانہ، غیر جمہوری اور غیر آئینی بیانات سے
کون سا قوم پرستی اور ملک دوستی کا یہ مٹھی بھر لوگ ثبوت دے رہے ہیں ؟
افسوس کہ ان کے ایسے ناپسندیدہ بیانات پر قد غن لگانے کی سنجیدہ کوششیں بھی
نہیں ہو رہی ہیں ۔ایسے نا پسندیدہ بیانات اور عمل سے بیرون ممالک میں ہمارے
ملک کی سیکولرزم اور جمہوریت کی پامالی کی کس طرح کی شبیہ بن رہی ہے ، اس
کا انھیں اندازہ بھی نہیں ہے ۔ امریکی کمیشن برائے بین الا قوامی مذہبی
آزادی نے اپنی 16 ویں رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی کو
خطرات در پیش ہیں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدّد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
جوش و جذبات اور اپنی بے وقوفی میں ایسے لوگ ملک کو بہت زیادہ نہ صرف بدنام
کر رہے ہیں بلکہ بہت نقصان بھی پہنچا رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو یہ قطئی نہیں
بھولنا چاہئے کہ ظلم بہر حال ظلم ہوتا ہے ۔ جس کے دردوکرب اور کراہ کی
بازگشت دور بہت دور تک سنائی دیتی ہے ۔ 2002 کے گجرات میں ہوئے قتل و غارت
گری کے خون کو لاکھ کوششوں کے باوجود اب تک نہیں دھویا جا سکا ہے ۔ اس کا
ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ خلاف ورزیٔ حقوق انسانی نے 2002 کے
گجرات فساد کے ضمن میں ناناوتی کمیشن کی رپورٹ ، جسے ابھی تک عوامی نہیں
کیا گیا ہے ، اسے ابھی حال میں حاصل کر اس کے خصوصی رپورٹر کرسٹوف ہییز نے
عدالتی کاروائی ، فرضی انکاؤنٹر وغیرہ پر کئی سوال کھڑے کئے ہیں ۔
منافرت اور فرقہ وارانہ فساد جس میں گزشتہ پانچ ماہ میں چوبیس فی صد کا
اضافہ ہوا ہے اور اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 65 فی صد بڑھ گئی ہے ۔
انسا نی قتل و غارت گری کے اس محاذ پر حکومت کی ناکامی کے بعد رفتار پکڑ نے
والی بد عنوانیوں سے اس ملک کی معیشت جس طرح تباہ و برباد ہو رہی ہے ۔ ان
پر بھی قد غن لگانے کا وعدہ ’’ نہ کھائینگے اور نہ کھانے دینگے‘‘ کا بھی
وفا نہیں ہو سکا ، بلکہ اس میں مزید شدّت آ گئی اوراس وقت پورے ملک میں طرح
طرح کے اسکیم (scam) کی بازگشت ہے ۔ جن میں َ مدھیہ پردیش کے ویاپم اسکیم
میں 1200 کروڑ ، راج للت فنڈ اسکیم میں73 کروڑ ، چھتیس گڑھ پی ڈی ایس چاول
اسکیم میں 150 کروڑ، گجرات میٹرو ریل اسکیم میں 100 کروڑ،مہاراشٹر چکی
اسکیم میں 206 کروڑ ، ہریانہ پنشن اسکیم میں 80 کروڑ ، ایل ای ڈی بلب اسکیم
میں 25000 کروڑ کے کرپشن کے شور میں ملک ڈوبا ہوا ہے ۔ اس حکومت کا یہ صرف
ایک سال کا ’کارنامہ‘ ہے۔ جس طرح دھیرے دھیرے بدعنوانیوں کی پرتیں کھل رہی
ہیں ، لگتا ہے ، انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بھاجپا اپنی پچھلی حکومت کا
ریکارڈ بہت پہلے ہی توڑ چکی ہے۔ جس میں بھاجپا کے قومی صدر بنگارو لکشمن ،
جارج فرنانڈس کی ایک نور نظر خاتون، کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ یدورپا اور
جگن ریڈی وغیرہ نے رشوت کی مثالیں قائم کی تھیں ۔ اُس دور کے ان تمام اسکیم
(scam) کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو موجودہ اسکیم کو دیکھتے ہوئے ہمارے
وزیر اعظم کے بیرون ملک میں دئے گئے ایک بیان کی یاد آتی ہے کہ بھارت کے
لوگ پہلے ملک میں ہو رہے پئے در پئے scam کی وجہ کر خود کو ہندوستانی
کہلانے میں ذلّت محسوس کرتے تھے، لیکن اب scam کوskill بدل دیا گیا ہے ، جس
سے اب ہر ہندوستانی ، اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس کر رہا ہے ۔ اس
حکومت نے جس طرح مختصر وقت میں scam میںskill یعنی مہارت اور ہنرمندی کا
مظاہرہ کیا ہے ، وہ کیا واقعی ہم ہندوستانیوں کے لئے قابل فخر ہے؟
اب جہاں تک ملک کے تعلیمی نظام کا تعلق ہے ، اس میں جس طرح ایک ناخواندہ
خاتون کو وزیر تعلیم بنا کر،آئے دن جس طرح تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کی جا
رہی ہیں ، وہ لوگوں کو انگشت بدنداں کئے ہوئے ہے۔ اس پر تفصیلی روشنی ڈالنے
کی ضرورت ہے، جو پھر کبھی ۔ ہاں اس حکومت کی اتنی ساری سرعت کے ساتھ
تبدیلیوں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں کچھ عرصہ پہلے ٹیلی ویژن پر چلنے والے
ایک اشہار کی یاد آ رہی ہے ۔ جس میں ایک بلب کی تیز روشنی کی چکا چوندھ کو
دیکھ کر مزاحیہ اداکار اسرانی کہتا ہے ’سارے گھر کا بدل ڈالونگا ‘۔ لیکن آج
ٹیلی ویژن کے کسی بھی چینل کے منظر نامہ پر نہ وہ بلب ہے اور بلب بدل بدلنے
والا ۔ |