رمضان کے وسط سے ذاتی مصروفیات کی وجہ سے دوستوں میں
اٹھنابیٹھنا نہ ہونے کے برابرتھا۔ اچانک بڑے بھائی کا فون آیا کہ یار بچے
گوجرانوالہ ’’چڑے ‘‘ کھانے جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں تم بھی چلو۔ مسلسل
بارش نے عام لوگوں کی طرح مجھے بھی دوڑیں لگوا رکھی تھیں لیکن میں نے فوری
فیصلہ کرتے ہوئے سوچاکہ چلو اتوار ہے اور چھٹی بھی ہے ٹینشن ریلیز کریں اور
انجوائے کرآتے ہیں۔تین بجے کے قریب گھر سے نکلے اور تقریباً ساڑھے چار بجے
کامونکی حاجی ریاض کے ’’ وائز کالج ‘‘ پہنچے ۔ وہاں پر موجود امانت بٹ ،
نعیم اور عبدالرشید نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں اپنے آفس میں براجمان
کرایا۔ خاطر تواضع ابھی جاری تھی کہ میری نظر سامنے دیوار پر لگی ایل سی ڈی
پرپڑی۔ جہاں پر الطاف حسین کی تقریر پر شورو شرابا جاری تھی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ دو اگست کو الطاف حسین نے امریکا کے شہر ڈیلاس میں ایم
کیو ایم کے سالانہ کنونشن سے ٹیلی فون پر خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں
کچھ یوں کہا کہ پاکستان کے لیے سب سے بڑاخطرہ دہشت گردی ہے۔ وزارت داخلہ نے
جن تنظیموں پرپابندی لگائی وہ آج بھی سرگرم ہیں۔ انھوں نے مہاجر صوبہ بنا
نے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بھارت خود بزدل اور ڈرپوک ملک ہے۔اگر ان میں
ذرا سی بھی غیر ت ہوتی تو پاکستان کی سرزمین پر مہاجروں کا خون نہیں ہونے
دیتے۔ الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کہ امریکی اخباروں کو خط لکھیں
اور پاکستان کی اصل صورتحال سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان اقوام
متحدہ ،وائٹ ہاؤس اور نیٹو کے سامنے احتجاج کریں اور کراچی میں فوج بھیجنے
کا مطالبہ کریں۔الطاف حسین نے مزید کہاکہ ان پر منی لانڈرنگ کا الزام غلط
ہے۔انھوں نے کہاکہ ان کی تقریرپرپابندی لگادی گئی تو آڈیوکیسٹ کے ذریعے ان
کی تقریرساتھیوں تک پہنچائی جائے اور اگر وہ مارے جائیں تو کارکنان تحریک
جاری رکھیں اور ماؤں،بیٹیوں اوربہنوں کوعزت کی زندگی دلائیں۔
جہاں ٹی وی پر الطاف حسین کی تقریر پر بحث و مباحثہ ہورہا تھا ادھر دوسری
طرف جہاں ہم اپنی باتوں میں محو تھے ادھرہماری موضوع بھی یکسر تبدیل ہوکر
ادھر ہوگیا۔ ہر شخص اپنی اپنی ذہانت کے مطابق اپنا اپنا تبصرہ کررہا تھا۔
ان تبصروں میں مجھے اپنے ایک دوست کی بات بہت پسند آئی جو انہوں نے الطاف
بھائی کے بارے میں کہی۔ بقول اس دوست کے الطاف بھائی جب تقریر کرتا ہے تو
وہ ’’ٹن‘‘ ہوتا ہے اور وہ نشے میں بہت زیادہ حد سے گزر جاتا ہے اوراس کو
نہیں پتا کہ وہ کیا بول رہا ہے مگر جب اس کا وہ نشہ اترتا ہے تو پھر فوراً
ہاتھ جوڑ کرقوم سے اور اداروں سے معافی مانگ لیتا ہے۔
میرے اور دوسرے تجزیہ نگاروں کے مطابق الطاف حسین کی تقریر کوئی پہلی دفعہ
نہیں ہوئی۔ ہر بار الطاف حسین بازاری نہیں بلکہ ملک دشمنوں کی طرح زبان
استعمال کرتے ہیں اورجب ان کی تقریر پر تنقید ہوتی ہے تو پھر خود ہی وہ
اپنے آپ کو ملک کا سب سے بڑاخیرخواہ بھی ثابت کردیتے ہیں۔ 2014 کے سے
پاکستان کے حالات بہت زیادہ تبدیل ہوگئے ہیں۔ خاص کر جب سے دھرنا پروگرام
ختم ہوا ہے اس کے بعد سے ملکی حالات میں کافی بہتری آئی ہے۔ پاکستان آرمی
چیف ضرب عضب شروع کرکے دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کا قلعہ قمع کردیا ہے۔
کراچی جہاں ذرا ذرا سی بات پر ہنگامے اور ہڑتال ہوجاتی تھی اب رینجر نے
آرمی چیف کی مدد سے کافی کنٹرول کرلیا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین کو
پاکستان کا امن منظور نہیں۔ وہ برطانیہ میں بیٹھ کر سمجھ رہے ہیں کہ اب بھی
وہی وقت ہے جب الطاف حسین کے منہ سے الفاظ نکلتے اور کراچی کا امن تباہ و
برباد کرکے رکھ دیا جاتا تھا۔ لیکن ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ سو سال بعد
کوڑی کی بھی سنی جاتی ہے۔ اور اب تو ہماری فوج جس نے پاکستان کو امن کا
گہوارہ بنانے کا علم بلند کررکھا ہے اس کے سامنے انڈیا سمیت جو بھی غداروطن
سامنے آئے گااس کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا جائے گا۔
الطاف حسین کی تقریر کی طرح ایک بار کسی اور نے بھی بھارتی ٹینکوں پر بیٹھ
کر پاکستان آنے کا خواب دیکھا تھامگر اس کی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ ہم
پاکستانی عوام آپس میں جتنا مرضی لڑ مڑلیں مگر غدار وطن اور بھارت کے لیے
ہم سب ایک بند مٹھی کی طرح ہیں۔ ہمارے سیاستدان آپس میں جتنی مرضی ایک
دوسرے کی ٹانگیں کھینچ لیں مگر جو سیاستدان ہمارے ازلی دشمن کی جھولی میں
بیٹھ کر ہمیں دھمکیاں دے گاوہ پھر پاکستان تو کیا پاکستان کی سرحد پر اپنی
میت بھی نہیں لا سکتا۔
آج ہمارے حکمرانوں سمیت تمام سیاستدان الطاف حسین کی اس تقریر پر تنقید
کررہے ہیں۔ کوئی غدار بول رہا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ انڈیا کی زبان
بول رہاہے۔ہمیں معلوم ہے کہ ہر بار کی طرح چند سیاستدان میڈیا پر آکر الطاف
پر تنقید کرکے پھر سو جائیں گے۔ ہمارے سیاستدانوں میں ملی یگانگت نہیں۔سوال
یہ ہے کہ ایک شخص ہمارے معززترین ادارے کو برا بھلا کہتا ہے ، کبھی انڈیا
کو مداخلت کرنے کا پیغام دیتا ہے تو کبھی نیٹو کو بلاتا ہے۔ کیا ایسے شخص
کو ہم پاکستانی شہری کا درجہ دے سکتے ہیں؟کیا اس کو پاکستان میں سیاست کرنے
کا حق دیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ ہمارے ملک میں حکمرانی کرسکتا ہے؟ہرگز نہیں
پاکستانی عوام حکومت پاکستان اور بالخصوص آرمی چیف سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس
قسم کی بے ہودہ تقریر نشر کرنے پر تمام چینلز پر پابندی لگائی جائے
اورالطاف حسین کی کسی بھی سرگرمی کا میڈیا پر تذکرہ نہ کیا جائے۔ الطاف کے
خلاف جتنے حالیہ مقدمات پاکستان کے تھانوں میں درج ہوچکے ہیں ان سب کو یکجا
کرکے عدالت عظمیٰ اس کو پاکستان لانے کا حکم صادر کرے۔حکومت برطانوی حکومت
سے دوٹوک الفاظ میں بات کرے اور اس کوبتائے کہ وہ اپنے ملک کے باشندے کو
پاکستان میں مداخلت سے باز رکھے۔
مجھے اپنے میڈیا کے دوستوں سے بھی عرض کرنا ہے کہ خدارا اسلام اور ملک دشمن
عناصرکو بالکل کوریج نے دیں اگر خبر نشر بھی ہو جائے تو اﷲ کا واسطہ ان پر
مباحثہ نہ کروائیں ۔حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کا بائیکاٹ
کریں۔کسی بھی بکاؤ اور غدار پر بات کر کے اپنا وقت ضائع نہ کریں ۔ |