عزت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شرمناک امریکی اسکرینیگ نظام اور غیرت ملّی کے تقاضے

وہ ایک بہت ہی ظالم و جابر اور سفاک قبائلی سردار تھا، اُس کے سپاہی انتہائی دلیر اور بہادر تھے، ایک مرتبہ اُس نے سلطنت مغلیہ کے مرکز دہلی پر حملہ کیا، جس میں اُس کے ہاتھ بہت سا مال غنیمت آیا اور کئی مغل شہزادے اور شہزادیاں بھی قید ہوئیں، مال غنیمت اور مغل شہزادے، شہزادیوں کے ہاتھ آنے کی خوشی میں اُس نے ایک محفل طرب کا انتظام کیا اور قیدی مغل شہزادیوں کو اِس محفل میں رقص کرنے کا حکم دیا، جان بچانے کیلئے خوف زدہ شہزادیوں نے جب اُس کے سامنے ناچنا شروع کیا تو اُس نے اپنا خنجر نیام سے نکال کر سامنے رکھدیا اور خود اِس طرح آنکھیں بند کرلیں جیسے اُسے نیند آگئی ہے اور وہ سو رہا ہو، محفل طرب چلتی رہی اور مغل شہزادیاں رقص کرتی رہیں، جب کافی دیر گزر گئی تو اس نے آنکھیں کھولیں اور مغل شہزادیوں سے مخاطب ہو کر بولا، میں سویا نہیں تھا بلکہ میں نے جان بوجھ کر اسلئے آنکھیں بند کی تھیں کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ مغلیہ خاندان میں کتنی غیرت و حمیت باقی رہ گئی ہے؟ اگر تم میں ذرا سی بھی غیرت ہوتی تو ناچتے ہوئے سامنے پڑا ہوا میرا خنجر اٹھاتی اور مجھ پر حملہ کر دیتی، مگر افسوس کہ تم نے یہ دیکھ کر بھی کہ میں تمہاری طرف سے بے خبر آنکھیں بند کئے سو رہا ہوں، اسی طرح ناچتی رہیں، اِس صورتحال کو دیکھ کر میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے کیونکہ جو لوگ اپنی غیرت و حمیت کو چھوڑ دیتے ہیں وقت انہیں اِسی طرح ذلیل و رسوا کرتا ہے اور اُن کے ساتھ یہی سب کچھ ہوتا ہے، اِس کے بعد اُس نے کہا ”حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے“قبائلی سردارغلام قادر روہیلہ کا یہ فقرہ اُس کے ساتھ آج بھی تاریخ میں زندہ اور ہمارے موجودہ حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

قارئین محترم دنیا میں زندہ رہنے کے دو ہی طریقے ہیں، ایک عزت و قار اور قومی غیرت و حمیت کے ساتھ سر اٹھا کر زندہ رہا جائے، دوسرے اپنی غیرت و حمیت کا سودا کر کے ذلت و رسوائی کا راستہ اختیار کیا جائے، جو لوگ دنیاوی مفادات کی خاطر اپنی غیرت و حمیت اور قومی مفادات کا سودا کر لیتے ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ذلت و رسوائی اُن کا مقدر ٹہرتی ہے لیکن جن کی غیرت و حمیت زندہ ہوتی ہے وقت اُن کی قسمت میں عزت و وقار اور سرخروئی لکھتا ہے، ہمارے نزدیک فاٹا سے تعلق رکھنے والا نو رکنی پارلیمانی وفد اِس لحاظ سے قابل عزت اور لائق احترام ہے کہ اُس نے شرمناک امریکی اسکینگ نظام کو مسترد کر کے جس طرح قومی غیرت کا ثبوت دیا ہے وہ لائق تحسین ہے، اِس وفد نے سینیٹر عباس آفریدی کی قیادت میں امریکہ کے جان ایف کینڈی ایئر پورٹ پر اسکینگ کرانے سے انکار اور احتجاجاً دورہ منسوخ کر کے جس حمیت کا اظہار کیا، اُس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ آج بھی ہماری قوی غیرت و حمیت زندہ ہے، آج اُن کے اِس عمل نے جہاں ایک طرف امریکہ کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے باوقار شہری ہیں، وہیں دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کو بھی یہ باور کرا دیا ہے کہ قومی غیرت و حمیت سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں، آج فاٹا کے پارلیمانی اراکین نے اپنے عمل سے نہ صرف قومی غیرت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے بلکہ اُن کا یہ طرز عمل تمام حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے بھی مشعل راہ ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ آئندہ ہمارے دیگر اراکین پارلیمنٹ، وزراء اور حکمران طبقہ اِس شرمناک امریکی اسکینگ نظام کو مسترد کر کے قومی غیرت کا ثبوت دیں گے۔

خدا کرے کہ کاش ایسا ہی ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی بہت ہی کم امید ہے کیونکہ آج بھی ہمارے ملک میں ایک ایسا بااثر طبقہ موجود ہے جو اس قسم کی غیرت کا مظاہرہ کرنے والوں کو بے وقوف، جاہل اور قدامت پسند خیال کرتا ہے، اُن پر تنقید کرتا ہے اور طنز کے نشتر برساتا ہے، درحقیقت یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے امریکہ کو اپنا اَن داتا بنا رکھا ہے، یہ لوگ قوم کو یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم نے امریکہ کے سامنے قومی غیرت ملّی واسلامی کا مظاہرہ کیا تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی، امریکہ ہمیں تورا بورا بنا دے گا، وہ ہماری امداد بند کردے گا،ہ م بھوکے مرجائیں گے، لیکن اگر اُن سے یہ سوال کیا جائے کہ خود سپردگی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کس قدر کیا جائے اور کس حد تک امریکی کاسہ لیسی میں اُس کے آگے جھکا اور بچھا جائے تو اس سوال کا اُن کے پاس نہیں ہوتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اُن کے نزدیک اِس کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔

ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ وہ ملک ہے جہاں باڈی اسکریننگ کے نئے سلسلہ کے آغاز سے پہلے بھی پاکستان سے جانے والے انتہائی معزز افراد کے کپڑے اور جوتے تک اتروا لیے جاتے تھے مگر اُن کی پیشانی پر بل تک نہ آتا تھا، امریکی ایئر پورٹ پر توہین اور ذلت کی اِس سے بڑی شرمناک مثال اور کیا ہوگی کہ جنرل پرویز کے ترجمان اور حاضر سروس میجر جنرل راشد قریشی تک کے جوتے اور کپڑے اتروا لیے گئے لیکن مجال ہے جو کسی نے امریکی طریقہ کار پر ناراضگی اور احتجاج کیا ہو، اسی طرح پاکستان کے نامور قانون داں شریف الدین پیرزادہ کی تو ٹوپی تک اتروا کر دیکھا گیا کہ اس کے نیچے کچھ ہے تو نہیں، یہ تو اُس وقت کی بات ہے جب امریکی ائیر پورٹس پر اِس قسم کی اسکرینیگ مشینیں نہیں لگائی گئیں تھیں جن میں انسان مکمل طور پر برہنہ نظر آئے، لیکن اب تو امریکی ہوائی اڈوں پر ایسی اسکریننگ مشینیں لگا دی گئی ہیں جن میں انسان برہنہ نظر آتا ہے،اس عمل میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے، بدقسمتی سے جہاں ہمیں ماضی میں اِس قسم کی شرمناک مثالیں ملتی ہیں وہیں آج ہمیں غیرت و حمیت کی ایسی بھی نادر الوجود مثالیں دستیاب ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جن کا طرز عمل ”عزت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں“ کا عملی مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے، ایسی ہی ایک مثال گزشتہ دنوں دو پاکستانی نژاد مسلمان خواتین نے قائم کی، جنہوں نے پاکستان آنے کے لیے امریکی ہوائی اڈے پر اسکریننگ کرانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ انہوں نے ٹکٹ ضائع ہونے کی پروا کیے بغیر واپس جانا مناسب سمجھا اور بتا دیا کہ دنیا میں عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔

چنانچہ اس تناظر میں قابل مبارکباد ہیں فاٹا کے وہ ارکان پارلیمنٹ اور وہ خواتین جنہوں نے ثابت کردیا کہ آج بھی پاکستانیوں کی غیرت ملی زندہ ہے، ہم اُس خوددار پارلیمانی وفد اور اُن خواتین کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جنہوں نے امریکی سکیورٹی نظام پر لعنت ڈالتے ہوئے پاکستان واپس آکر اُن لوگوں کیلئے خودداری اور غیر ت مندی کی نادر مثال قائم کی ہے جنہوں نے امریکی صدر کے ایک ٹیلی فون کال پر ساری آن، بان، شان، اپنی شناخت، ساکھ، قومی وقار اور غیرت ملی کو امریکی قدموں میں نچھاور کردیا تھا، یہ زندہ مثال ہے اُن لوگوں کیلئے جو رچرڈ ہالبروک اور جیمز جون جیسے امریکی کلرکوں کے استقبال کیلئے سرخ قالین بچھاتے ہیں، انہیں جھک جھک کر سلام کرتے ہیں، اُن کے جوتے اٹھاتے ہیں، جی حضوری کرتے ہیں اور غلاموں کی طرح اُن کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں، ان جیسے لوگوں کیلئے فاٹا کے پارلیمانی وفد کا یہ عمل نہ صرف قومی غیرت و حمیت کا عملی ثبوت ہے بلکہ ارباب اقتدار سمیت تمام سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ اور اس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارے وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور ارباب اقتدار اِس شرمناک امریکی اسکینگ نظام کو مسترد کر کے قومی غیرت کا ثبوت دیں گے، لہٰذا ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی وفد کے ساتھ اِس شرمناک امریکی طرز عمل پر امریکہ سے سخت احتجاج کرے اور اُس پر یہ بات واضح کردے کہ اگر اُس نے پاکستان کو تلاشی کے اِس شرمناک اور تضحیک آمیز نظام سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا تو پھر پاکستان بھی امریکی شہریوں کے ساتھ پاکستانی ائیرپورٹس پر ایسا ہی طریقہ اختیار کرے گا۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314177 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More