روس سے تعلقات ۔۔۔ پگھلتی برف
(Syed Shahid Abbas, Rawalpindi)
اکتوبر 2012میں جب روس کے
صدر ولادی میر پیوٹن نے پاکستان کا دورہ منسوخ کیا تو پاکستان مخالف قوتوں
نے خوشی کے شادیانے بجائے ۔ اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ پاکستان اور روس کے
تعلقات ایک مرتبہ پھر 70ء کی دہائی جیسے ہو جائیں گے ۔ حالانکہ پرویز مشرف
2003 میں ماسکو کا دورہ کر چکے تھے۔ جب کہ روسی وزیر اعظم 2007 میں پاکستان
آ چکے تھے۔ اس کے باوجود یہ پراپیگینڈہ شروع کر دیا گیا کہ پاکستان اور روس
کے تعلقات میں سرد مہری آ گئی ہے۔ لیکن ان تمام خدشات کا خاتمہ جنرل راحیل
شریف کے دورہء روس سے ہو گیا ہے۔ جون 2015 میں جب جنرل راحیل شریف نے روس
کا دورہ کیا تو اس دورے کو نہ صرف علاقائی طور پر اہمیت ملی بلکہ عالمی سطح
پر بھی لوگوں کی نظریں اس دورے پر رہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ
عالمی دنیا کا خیال ہے کہ سانحہ پشاور اور ملکی سیاسی ہنگامے کے باعث فوج
اس وقت داخلی و خارجی دونوں جگہوں پر پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے کے
لیے کوشاں ہے۔ اس میں ہرگز دو رائے نہیں ہیں کہ فوج سیاسی نظام کا متبادل
نہیں ہے بلکہ فوج سیاسی نظام کو تقویت دینے کے لیے ہی اس وقت اپنا کردار
ادا کر رہی ہے۔ آرمی چیف کے بیرونی دوروں کا سب سے بنیادی مقصد پاکستان پر
لگی دہشت گردی کی چھاپ اتارنا ہے اور اس میں یقینا انہیں کامیابی بھی مل
رہی ہے۔ ایسا کر کے فوجی قیادت سول حکومت کی مدد بھی کر رہی ہے جو کسی بھی
طرح سے انہونی نہیں ہے۔
ماضی میں روسی صدر کے دورے کی منسوخی سے پھیلنے والے سیادہ بادل آرمی چیف
کے دورے سے کسی قدر چھٹ گئے ہیں۔ پوٹن کے دورے کی منسوخی کے بعد مختلف سطح
پر وفود کا تبادلہ جاری رہا ۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان اور روس
دونوں افغان جنگ کی تلخ یادیں بھلا کر آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔ اور روس کو
بھی شاید یہ احساس ہے کہ اگر خطے میں اپنا مضبوط اثر قائم کرنا ہے تو خطے
کے ممالک سے اچھے تعلقات نا گزیر ہیں۔
محترم لیاقت علی خان کا روس کے بجائے امریکہ کا دورہ ہو یا 65 ء کی جنگ میں
روس کی بھارت کی کھل کر حمایت ، 71ء میں حمایت کا وزن انڈیا کی طرف رکھنا
ہو یا افغان جنگ میں پاکستان کا کردار یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان
اور روس کے درمیان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ کچھ عرصہ 50ء کی دہائی
میں اور کچھ عرصہ 70ء کی دہائی میں تعلقات میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی
اسی دوران پاکستان سٹیل ملز کا منصوبہ بھی سوویت یونین کی مدد سے تکمیل تک
پہنچا لیکن مستقل بنیادوں پر تعلقات استوار نہ ہو سکے۔
جنرل راحیل شریف کے دورہء امریکہ کے وقت سے ہی یہ بات بخوبی دیکھی جا سکتی
ہے کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش
میں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں جتنا نقصان پاکستان کا ہوا ہے اتنا
شاید ہی کسی ملک کا ہوا ہو اور اب صحیح معنوں میں دنیا کو یہ بھی باور
کروایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیاں پوری دنیا
کے امن کے لیے دی گئیں۔ روس کے دورے سے جہاں آرمی چیف نے دونوں ممالک کے
تعلقات پر جمی برف کو ختم کیا ہے وہیں ایک عرصے سے جمود کا شکار فوجی تعاون
کی راہیں بھی کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستان اس وقت ایک ایسے دور سے گزر
رہا ہے جس میں اس کا کردار پوری دنیا میں ایک ذمہ دار ایٹمی قوت کے طور پر
دیکھا جا رہا ہے ۔نہ صرف ترقی کی نئی راہوں کی طرف توجہ دی جا رہی ہے بلکہ
نئے دوست بھی تلاش کیے جا رہے ہیں۔پاکستان اور روس کے تعلقات کی سرد مہری
ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے۔ دونوں ممالک کو یہ احساس ہورہا ہے کہ ماضی کے
مسائل مستقبل کے تعلقات میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اور بہتر تعلقات دونوں
ممالک کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
پاکستان روس متوازن تعلقات میں نہ صرف فائدہ پاکستان کا ہے بلکہ افغانستان
سے امریکہ کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال روس کے لیے بھی یقینا
نہایت اہم ہو گی ۔ اور افغان جنگ کے دور سے ہی شاید روس کو بھی یہ احساس
ضرور ہے کہ پاکستان کے بغیر اس خطے میں اپنا اثر قائم کرنا یقینا ایک مشکل
کام ہو گا۔ اسی لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس کے
علاوہ وسط ایشائی ریاستوں کے وسائل کو بہتر طریقے سے اپنے مقاصد کے لیے
استعمال کرنا، مستقبل کی پاکستان ایران گیس پائپ لائن، ایران پر سے نرمی
ہوتی پابندیاں، اور مغربی طاقتوں سے تعلقات جیسے اہم معاملات میں اپنا مثبت
کردار ادا کرنے کے لیے روس کو بہرحال پاکستان کی حمایت لازمی درکار ہو گی ۔
امریکہ کے غیر اعلانیہ اتحادی ہونے اور جھکاؤ رکھنے کی وجہ سے روس کے
تعلقات پاکستان سے کشیدہ رہے۔ لیکن برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔ اس برف کا
پگھلنا پاکستان اور روس دونوں کے مفاد میں تو ہے ہی ساتھ ان دونوں ممالک کے
بہتر تعلقات خطے کے امن کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں کیوں کہ بھارت اور
ایران کے ساتھ روس کے بہتر تعلقات پہلے سے قائم ہیں جب کہ چین اور پاکستان
دوست تصور کیے جائے ہیں لہذا پاکستان اور روس کے بہتر تعلقات خطے میں ترقی
کی نئی راہیں کھول دیں گے۔تعلقات کی نئی وسعتیں آنے والے دور کے لیے نہایت
اہم ہیں ۔
یہ"زُبانِ اہلِ زمیں"ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے اس ایڈریس پر
مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ |
|