تبدیلی کے لیے قیادت کی تبدیلی بھی ضروری ہے

رمضان المبارک کی ستائسویں اور ۱۴۔۱۵ اگست کی درمیانی شب تھی جب ٓل انڈیا ریڈیو سے ایک جملہ مسلمانان ہند کی سماعتوں سے ٹکرایا ۔ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ اس ایک جملے نے جہاں مسلمانان ہند میں جذبے اور محبت کی روح پھونک دی وہیں خطہ ارض پر ایک الگ ریاست اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ نمدار ہوئی ایک ایسی ریاست جس کے حصول کے لیے مسلمانان ہند کے باسیوں نے قتل و غارت گری اور فرقہ ورانہ فسادات کے آگ وخون کے سمندر پار کیے۔۱۴اگست ۱۹۴۷ء کی رات شرمندہ تعبیر ہونے والے اس خواب کی خاطر مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔قید وبند کی صعوبتیں جھیلی تب کہیں جا کر وطن پاکستان ایک روشن ستارے کی ماند خطہ ارض پر نمدار ہوا ۔

اعلان آزادی وطن کے بعد جہاں ایک طرف مسلمان آزادی کی خوشی میں جھوم رہے تھے وہیں تو دوسری طرف اپنے قیام کے بعد سے ہی پاکستان کو بیشمار مسائل کا بھی سامنا تھا ایک طرف توہندوستان سے لٹے ُپٹے قافلے ظلم و بربریت کی داستانیں لے کر پاکستان پہنچ رہے تھے۔لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کااس نوائیذہ مملکت میں ہجرت کر کہ آنا اس حد تک پاکستان کے لیے بڑا چیلنج تھا تو دوسری طرف پاکستان کو انتظامی اور سیاسی امور کا بھی سامنا تھاایک وقت ایسا بھی تھا کہ عالمی دنیا خاص کر کہ بھارت میں یہ چہمچوئیاں کی جانے لگی کہ خدا نخواستہ ان حالات میں پاکستان کا وجود خطرے میں یے لیکن اہل پاکستان نے اپنے جذبہ ایثار و محبت سے اس خطرے کو خطرہ نہ بننے دیا۔اور نہ صرف یہ کہ ہر چیلنج کا ڈٹ کا مقابلہ کیا بلکہ ایثار و محبت کی ایسی مثال قائم لی کہ وہ لوگ جو ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ تصور کر رہے تھے ۔ اُن کی تمام پیشنگوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔اور آج پاکستان نہ صرف صنعت و تجارت، تعلیم ، صحت ،قومی وسائل کے ہر میدان میں ترقی کے منازل طے کرتا جا رہا ہے بلکہ برس کی عمر میں پاکستان دنیاکے سانے ایک ایٹمی طاقت بن کے اُبھرا ۔

اس کے باوجود آج اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر طرف مایوسی اور نااُمیدی نظر آتی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ مایوسی کے یہ ڈھیرے اُس وقت سے بھی گہرے ہیں،حالانکہ پاکستان میں بسنے والے آج بھی وہی قوم ہے جس نے آج سے ۶۸ سال پہلے حالات کابہت ہی جواں مردی اور خوش اسلوبی سے مقابلہ کیا تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج کا پاکستانی اتنا مایوس اور نا اُمید نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آج ہماری پوری قوم ایک ذہنی اور جذباتی کشمکش کا شکارہے۔ اگر میں اپنی دانست کے مطابق اس کا جواب تلاشنے کی کوشش کروں تو مجھے لگتا ہے کی اس ناامیدی کے پیچھے ہمارے حکمرانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اور اس تمام تر حالات کا سبب ہماری قیادت کا بحران ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے ک تمام سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیں اور جیالہ ازم کو ختم کرتے ہوئے عوام دوست اور پڑھے لکھے طبقے کو عوامی نمائندگی کا موقع دیں۔شاید اس طرح روز بروز بڑھنے والے مایوسی کے ان بادلوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔
Ghazala Bashir
About the Author: Ghazala Bashir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.