الطاف حسین!کراچی کی روشنیاں پھر سے لوٹ رہی ہیں
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
فلسفہ کی کلاس جاری تھی پروفیسر
صاحب نے ایک خالی جار لیا اور اس میں گولف کی بالز ڈال دیں جار بھر گیا اور
طلبا سے پوچھا کہ بتائیں جار خالی ہے کہ بھرا ہوا ہے تمام طلبا نے کہا کہ
جار بھرا ہوا ہے اس کے بعد پروفیسر نے کچھ سنگریزے لئے اوور ان کو جار میں
ڈالا وہ بھی جار میں سموگئے پروفیسر صاحب نے پھر پوچھا کو بتائیں جار کی
کیفیت کیا ہے پوری کلاس نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ جار بھرا ہوا ہے اب
پروفیسر صاحب نے ریت لی اور اسے جار میں انڈیلنا شروع کیا ریت بھی جار میں
سما گئی پھر سوال دہرایا گیا پوری کلاس نے یک زبان ہوکر کہا کہ جار بالکل
بھر چکا ہے اب مزید کوئی گنجائش باقی نہیں رہی پروفیسر صاحب نے شہد کی بوتل
لی اور اسے جارمیں انڈیلا تو جار کے بھرے ہونے کے باوجود شہد نے اپنی جگہ
بنالی کلاس دم بخود تھی کہ ہر مرتبہ جار بھر گیا لیکن اس میں کوئی نہ کوئی
گنجائش باقی رہی کلاس نے اس ساری پریکٹس کے پیچھے چھپے مقصد کو جاننا چاہا
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ جار زندگی کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ گولف کی بالز
سنگریزے ریت اور شہدانسان کے اعمال و افعال ہیں اس کے عمل کردہ افعال سے
زندگی کا جام بھرتاجاتا ہے جب انسان کو غلط عمل سرانجام دیتا ہے تو اس کے
سدھارنے کی مزید گنجائش رہتی ہے لیکن جب وہ کوئی ایسا عمل کرتا ہے جو کہ
ریت پر دلالت کرتا ہے یعنی جار کو ریت سے بھر دیا جائے تو پھر اس کے سدھار
کی کوئی گنجائش نہیں رہتی صرف اور صرف لہجے اور افعال کی مٹھاس ہی اس میں
جگہ بناسکتی ہے دلائل اور تاویلیں بے معنی ہوجاتی ہیں
الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کی ملک و قوم سے محبت شکوک و شہبات
کی تہہ میں دب چکی ہے مزید پختگی الطاف حسین نے گذشتہ روز افواج پاکستان کے
خلاف شرانگیز اور منافرت پر مبنی تقریر کرکے کردی ہے یعنی کہ انہوں نے اپنے
جار کو ریت سے بھر دیا ہے اب مزید کچھ کہنے سننے کی کوئی گنجائش باقی نہیں
رہی۔تاویل دلیل بحث مباحثہ کو طاق میں رکھتے ہوئے الطاف حسین پر ملک سے
غداری اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونیکی بنا
پر مقدمہ درج کیا جاناچاہئے اور اس بھی پہلے تاج برطانیہ کو بھی سمجھایا
جائے کہ غدار وطن شخص کو سیاسی پناہ کے زمرے خارج کیا جائے۔دہشت گردی کے
حوالے سے عالمی قانون ریڈ وارنٹ کو استعمال کرکے الطاف حسین کو گرفتار
کیاجائے ۔حکومت برطانیہ کو باضابطہ قانونی ریفرنس پیش کیا جائے جو کہ
باقاعدہ شکایت کی شکل میں ہو جیسے ایک ملک دوسرے ملک سے کرتا ہے ۔علاوہ
ازیں اس کی تقریر و تحریر پر بھی پیمرا قوانین کے تحت پابندی عائد کی جائے
۔ویسے الطاف حسین نے کا وطیرہ ہے کہ پل میں ماشہ پل میں تولہ۔ سوتے میں
کروٹ لی بیان داغ دیا دوسری کروٹ لی معافی مانگ آنکھ کھلی استعفی دے دیا
اور سونے سے قبل ہی واپس لے لیا پلک جھپکی ہرزہ سرائی پلک جھپکی معافی ۔ویسے
تو اس قماش کے شخص کو مخبوط الحواس قرار دے کر اسے پاگلوں کی فہرست میں
شامل کرلیا جائے اور اسے قابل رحم سمجھتے ہوئے اسکے حال پر چھوڑ دیاجائے
لیکن ایم کیو ایم اور اسکے کرتا دھرتاؤں سے ضرورپوچھا جائے کہ آیا کہ وہ
بھی اسکے حامی ہیں کیا وہ بھی را کی مداخلت کے خواہاں ہیں کیا وہ بھی انڈیا
کو غیرت دلوانا چاہتے ہیں ان کے نیٹو افواج کی آمد کے حوالے سے کیا خیالات
ہیں اگر وہ بھی اس بدروش پرقائم ہیں اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں تو
انہیں آڑے ہاتھوں لیا جائے کیونکہ ان کے پاپوں کا گھڑا گندگی سے بھر چکا ہے
ماضی کی تاریخ کو اٹھا کردیکھ لیں 1985 سے پہلے کراچی جو کہ روشنیوں کا شہر
تھا غریب کی ماں تھی بیروزگار وں کیلئے جنت تھا کمانے والوں کیلئے دبئی تھا
ان کی شرانگیزیوں کی بنا پر تاریکی میں ڈوب چکا ہے غریب کیلئے روزگار کے
ذرائع مفقود کردیئے گئے ہیں سرمایہ کار سرمایہ کاری سے اجتناب برتتے ہیں ان
تمام حالات کا ذمہ دار الطاف حسین اور اسی قماش اور ذہن نے لوگوں کا کراچی
کا یہ حال کیا ہے۔ آغوش کراچی تار تار ہوچکی ہے اسے مشکلات اور مسائل سے
دوچار کردیاے ان کے وسائل کوچاٹ لیاہے یہ حقیقت ہر شخص پر آشکار ہوچکی ہے
کہ کس طرح کراچی ایسے پرامن شہر میں بدامنی شرپسندی لاقانونیت دہشت گردی کا
بیج بویا گیا سیاسی غنڈہ گردی لسانی تعصب جماعتی تشدد کا گڑھ بنادیا گیامگر
اب کراچی پھر سے بدل رہا ہے جس کا سہرا عوام پاکستان کے دلوں کی دھڑکن اور
امنگوں کے ترجمان چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور انکی ٹیم کو جاتا
ہے جنہوں نے آپریش ضرب عضب آپریشن کلین اپ کے ذریعے ملک دشمن قوتوں اور
عناصر کو نتھ ڈالدی ہے ان کاناطقہ بند کردیا ہے کراچی میں پھر سے روشنیاں
لوٹ آئیں ہیں اس کی رونقیں پھر سے امن سے بھرپور کروٹیں بدل رہی ہیں شہر کے
باسی پھر سے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر پھڑپھڑانے کیلئے پرتول رہے ہیں
آزاد ملک کے آزادی شہری کی حیثیت سے کھلی اور پرسکون فضا میں سانس لینا
چاہتے ہیں بارود اور خون کی بو سے ان کے نتھنے چھٹکارا چاہتے ہیں ۔بہرحال
ان سب کے باوجودحکومت وقت کو الطاف حسین کی شرانگیزگفتگو کا سختی اور
سنجیدگی سے نوٹس لیناچاہئے کیونکہ الطاف حسین یہ بیان کھلم کھلا اور واضح
طورپر ملک دشمنی اور بھارت نوازی پر تائید کرتا ہے افواج پاکستان اور جنرل
راحیل شریف کے اقدامات پر پوری قوم صدقے واری ہے اس کے سرفخر سے بلند ہیں
اور وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہر پاکستانی کے دل جنرل راحیل شریف کی دھڑکن
کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
|
|