رسوائے زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی
''را''کاایم کیوایم سے ربط و ضبط اوررقوم کی فراہمی کا معاملہ ابھی زیربحث
تھاکہ ''را'' کے ایک سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت نے حال ہی میں شائع شدہ
اپنی مذکورہ تصنیف ’’کشمیر:واجپائی دور‘‘نامی کتاب میں برصغیر کے احوال
پربعض سنسنی خیزانکشافات سامنے لائے ہیں۔میں دوہفتے قبل بھی مذکورہ کتاب کے
مصنف کی اس ہرزہ سرائی کاجواب دے چکاہوں لیکن مقبوضہ کشمیرمیں میرے قارئین
کی ایک کثیرتعدادروزانہ مختلف سوالات اٹھارہے ہیں جس کا جواب دیناضروری
ہوگیاہے۔مذکورہ تصنیف میں ریاست جموں وکشمیرکے بعض سیاستدانوں کانام لیکر
اپنی مذموم کاروائیوں کوبے نقاب کیاگیا ہے اور زیادہ بہترتویہی ہوتاکہ جن
کانام لیکرالزامات لگائے گئے ہیں وہ اس کا خاطر خواہ جواب دیں ۔اگرچہ پچھلے
سال بھارت کے ایک سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ (جواب مرکزی وزیرہیں)
نے بھی ایسے ہی انکشاف کیے تھے کہ فوج اورخفیہ ایجنسیاں کشمیرمیں بھارت
نوازسیاستدانوں کوسیاسی سرگرمیوں کیلئے رقوم فراہم کرتی ہیںمگردلت کے ان
انکشافات نے آزادی پسند سیاسی اورعسکری قیادت پررقوم کی فراہمی اورمراعات
کے الزامات نے کشمیرمیں ایک طرح سے پوری قیادت کوملوث قراردے دیاہے جو
کشمیرمیں جاری جدوجہد آزادی پربڑے مہلک اثرات مرتب کرنے کی ایک سازش ہے۔
پچھلے ٢٥سال کے واقعات سے کشمیری ویسے ہی اپنے بعض رہنماؤں کے حوالے سے
مخمصے اورشکوک وشبہات کاشکارہیںاوراب اس کتاب میں انکشافات نے قیادت کوایک
طرح سے کٹہرے میں کھڑاکرنے کی کوشش کی ہے۔دلت کے بقول حریت کانفرنس کے سخت
گیردھڑے کے سربراہ جناب سید علی گیلانی کوچھوڑ کردیگرکشمیری رہنماؤں
شبیراحمدشاہ، پروفیسر عبدالغنی بھٹ،مرحوم عبدالغنی لون،میرواعظ عمر فاروق ،عسکری
کمانڈرفردوس سید المعروف بابربدروغیرہ کے ساتھ میرے (دلت)براہِ راست روابط
رہے ہیں۔ اپنی کتاب کے آغازہی میں دلت نے پروفیسربھٹ،فردوس سید اورسجادغنی
لون کے تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے ان کے کردارکوتسلیم کیاہے۔حزب المجاہدین
کے سربراہ صلاح الدین کے علاہ کئی عسکری کمانڈروں پربھی انگلی اٹھائی گئی
ہے۔نیزوزیراعلیٰ مفتی محمدسعید،ڈاکٹرفاروق عبداللہ اورعمرعبداللہ کی بھی
خوب خبرلی ہے۔
گوکہ دورانِ جنگ دشمن کے ساتھ رابطہ رکھناکوئی جرم نہیں ہے مگرکشمیری
لیڈران شایددنیاکی ایک منفرد موومنٹ کے قائدہوں گے جواسی سے پیسہ اور
مراعات کے خواہاں ہیں جس کے خلاف دن رات ایک کیے تحریک بھی چلاتے ہوں۔کتاب
کے مطابق کشمیرکے نیلسن منڈیلا شبیرشاہ کے سرپر١٩٩٥ء میں وزارتِ اعلیٰ
کاسہراسجنے والاتھااور٢٠٠٢ء میں یہی سہراعبدالغنی لون کے سپردکیاجانے
والاتھامگر ١٩٩٩ء میں شبیرشاہ عین موقع پرپیچھے ہٹ گئے اور٢٠٠٢ء میں لون
صاحب قتل ہوگئے۔ دلت نے اشاروں وکنایوں میں یہ انکشاف بھی کیاہے کہ لون
صاحب کی ہلاکت اوراس کے فوری بعدحزب المجاہدین کے کمانڈر عبدالمجیدکی ہلاکت
سے بھارتی خفیہ ایجنسیاں اس قدر بوکھلا گئیں تھیں کہ’’ادلے کے بدلے‘‘کے
''اصول'' کے تحت یہ فیصلہ ہواتھاکہ ان ہلاکتوں کابدلہ سیدعلی گیلانی کوقتل
کرکے لے لیاجائے جس کیلئے خفیہ ایجنسیوں نے مکمل تیاری بھی کرلی تھی
مگرمضمرات کاجائزہ لینے کے بعد سیاسی قیادت نے اس کی اجازت نہیں دی۔دلت نے
لکھاہے کہ'' گیلانی کی زندگی بھارت کے اعتدال اورجمہوریت پسندرویے کی مرہون
منت ہے مگر دوسری طرف افسوس بھی ہے کہ اس کے دورمیں گیلانی ہی واحدلیڈرہیں
جن سے وہ ملاقات نہیں کرسکے''۔
اسی کتاب میں دلت یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ سابق صدرپرویزمشرف بھی اپنی
زندگی کیلئے ''را''کے مرہونِ منت ہیں۔پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی
کو''را''کی طرف سے ٢٠٠٤ء میں بروقت خفیہ اطلاع کی فراہمی سے ہی جیش محمدکی
طرف سے مشرف کوہلاک کرنے کی سازش کوناکام بنایااوراس سازش میں ملوث جیش
محمدکے اراکین کوشناخت کرنے اورگرفتاری میں ''را''نے مدد دی۔ان میں سے
دوافرادکو پشاور آرمی اسکول پردہشتگردوں کے حملے کے بعدحال ہی میں پھانسی
دی گئی۔٢٠٠٣ء اور٢٠٠٤ء میں کشمیرمیں نسبتاًبہتر حالات کاکریڈٹ بھی دلت اپنے
جانشین سی ڈی سہائے اورآئی ایس آئی کے اس وقت کے جنرل احسان الحق کے درمیان
خفیہ ملاقات کودیتے ہیں،جس سے اس وقت کے نائب وزیر اعظم کے ایل ایڈوانی
اورمیرواعظ فاروق کی سربراہی حریت کے اعتدال پسنددھڑے کے درمیان دودورکی
بات چیت ممکن ہوسکی۔
امورِکشمیرکے سلسلے میں پچھلے ٣٠سال سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں دلت حرفِ
آخرسمجھے جاتے ہیں۔١٩٨٩ء میں ان کی پوسٹنگ کشمیر میں بھارت کی ایک دوسری
رسوائے زمانہ خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیوریو(آئی بی) کے یونٹ سربراہ کے
طورپرہوئی ۔اس وقت کشمیرمیں عسکری تحریک کے دورکاآغاز ہوا،ایک سال بعد
گورنرجگ موہن سے اختلاف کی بناء پرانہیں واپس دہلی بلالیا گیاجہاں وہ اگلے
دس سال تک آئی بی کشمیر سیل کے سربراہ رہے۔١٩٩٩ء میں وزیراعظم اٹل
بہارباجپائی نے انہیں''را''کے بیرونی ونگ کاسربراہ مقررکیا۔ بھارت میں آئی
بی ملکی انٹیلی جنس(خفیہ معلومات واطلاعات)کے حصول کی انچارج ہے اوراس
کاسیٹ اپ بھی خاصاوسیع ہے جبکہ ''را''کادائرہ بیرونی ملکوں سے خفیہ اطلاعات
فراہم کرنا ہوتا ہے۔ بالخصوص اس کاسیدھاہدف پاکستان اوردیگرہمسایہ ممالک
ہیں۔
بھارتی وزیراعظم ہرروزصبح سویرے ان دوانٹیلی جنس سربراہوں سے الگ الگ
بریفنگ لیکراپنا دن کاکام کاج شروع کرتاہے یعنی اپنی میز پربیٹھنے یا کوئی
میٹنگ اٹینڈکرنے سے قبل بھارتی وزیراعظم کواس دن کے ملکی اور غیرملکی حالات
اوران کی نہج کاادارک ہوتاہے۔ اگر وزیراعظم دورۂ پرہے تو دونوں خفیہ
ایجنسیوں کے نمائندہ بھی ان کے ہمرکاب ہوتے ہیں اوروہ انہیں پل پل کی خفیہ
اطلاعات پہنچاتے رہتے ہیں۔ ڈیڑھ دوسال تک ''را''کاسربراہ رہنے کے
بعدواجپائی نے دلت کوپرائم منسٹرآفس میں آفیسرآن اسپیشل ڈیوٹی مقررکیا جبکہ
وہ ٢٠٠٤ء تک امورِ کشمیرکے بھی انچارج رہے۔اگرچہ کشمیری سیاست دانوں نے دلت
کے انکشافات کوان کی صفوں میں انتشار پیداکرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اسے
بے بنیاد پروپیگنڈا قراردے چکے ہیں۔
دلت نے اپنی تصنیف میں یہ بھی لکھاہے کہ دسمبر١٩٩٩ء میں ماہِ رمضان المبارک
میں افطارکرتے ہوئے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ غصے کے عالم میں ان پربرس رہے
تھے ،غیظ وغضب کی وجہ یہ تھی کہ بھارتی حکومت نے قندھار میں اغواء شدہ
فلائٹ میں یرغمال بھارتی شہریوں کے عوض تین جنگجو کمانڈروں کو چھوڑنے
کافیصلہ کیاتھا۔ظاہرہے اسے فاروق عبداللہ نے جنگجوؤں کے سامنے ہتھیارڈالنے
کے مترادف سمجھا۔ بہرحال بقول دلت ، فاروق عبداللہ برہمی کی حالت میں
مستعفی ہونے کی دہمکی کے ساتھ گورنر ہاؤس پہنچے جہاں گورنر سیکسینہ نے شراب
کے دوچارجام پلاکران کاغصہ ٹھنڈاکیااور دہلی کافیصلہ برقرار رہاجبکہ صرف
چندگھنٹے پہلے فاروق روزے سے تھے ۔سوال یہ ہے کہ کیادلت کا مسئلہ
کشمیرلیڈروں کوایک دوسرے کی نظروں میں گرانااورانہیں عوام کی نظروں میں
مشکوک بناناہے تاکہ اپنا سب کچھ لٹانے کے باوجودکشمیری قوم کی قوت مزاحمت
ختم کی جائے ،نیزہر کشمیری تمام سطح کے لیڈروں کے کردارپرشک کرے۔
یہ وقت کشمیری لیڈرشپ کے ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنے کاہے۔اس بات میں شک وشبہ
یابحث مباحثہ کی گنجائش نہیں کہ حریت نوازخیموں میں بھارتی ایجنسیاں نقب
لگانے میں ہمیشہ مصروف رہتی ہیں ۔ بنابریں آپس میں اتحاداور اپنے کازسے
اخلاص اس وقت ہماری ناگزیرضرورت ہے،بقول رکن اسمبلی رشیدانجینئریہ بھی
سمجھناہوگاکہ کہ آسمان سے نہ اب فرشتے آئیں گے جو کشمیرکازکی قیادت
سنبھالیں گے اورنہ ہی کوئی خاصانِ خدامیں سے کوئی بندہ سرینگرکے سول
سیکرٹریٹ میں بیٹھ کرعدل فاروقی کی یادتازہ کرے گا۔جوبھی قیادت ہے اوروہ
جیسی بھی ہے اس کوجوابدہ بناناہوگا اور تعمیری تنقیدکے ذریعے سے راہِ راست
پرلاناہوگا۔
قیادت ہمیشہ قوم کاآئینہ ہوتی ہے جیسی قوم ویسی قیادت،اگرکشمیری قوم بدل
جائے اور اپنے قول وفعل کے تضادکودورکرلے تو لازماً سیاسی قیادت بھی
خودکوبدلنے پرمجبورہو گی۔ یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ حالات کو اس مقام تک
لیجانے میں رسوائے زمانہ خفیہ بھارتی ایجنسیوں کے پھیلائے گئے دم ہمرنگ
زمین میں پھنس جانے والے سادہ لوح کشمیری عوام اور ان کی قیادت کا تو کوئی
رول نہیں۔دراصل عوام اوران کی تحریک کوسیاسی اورسفارتی مدد مہیا کرنے والوں
نے بھی نہ کبھی قیادت کوخلوص کی میزان میں احتساب کیلئے کھڑاکیا اورنہ ہی
قیادت نے کبھی تعمیری تنقیدکو برداشت کرنے کی زحمت گوارہ کی۔ایک تلخ حقیقت
یہ بھی ہے کہ گزشتہ ربع صدی کے دوران میں ہمہ گیرتباہی کے باوجودنہ لوگوں
نے اجتماعی طورپراورنہ ہی قیادت نے بدترین تشددو حالات سے متاثرہ ہزراوں
خاندانوں کی کفالت کاکوئی خیال رکھا۔ اتحادواشتراک عمل کیلئے باہم مذاکرات
کے تمام دروازے بندکرنادانشمندی نہیں بشرطیکہ قیادت میں دم ہو اوروہ
مذاکرات کی میزپراپنے مدمقابل فریق پربازی لے جاسکے۔ایسے کسی مخلصانہ عمل
پرشک کرنابھی مناسب نہیں۔اس سے نقصان تو بہر حال کشمیری عوام کوپہنچے گا۔
بہرحال حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، یہ کتاب اوراس کے انکشافات لمحہ فکریہ
توہیں۔ان انکشافات سے پہلے بھی عوامی حلقوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی
سرگرمیوں کے بارے میں چہ میگوئیاں ہورہی تھیں اوریہ سلسلہ مدت درازسے چل
رہاہے ۔ان چہ میگوئیوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستانی حکمران،میڈیا اور دیگر
ادارے اکثروبیشترمخلص قیادت کی حوصلہ افزائی کی بجائے اس قیادت کیلئے
دسترخوان سجاتے رہے جو دونوں طرف بھارتی اورپاکستانی ایجنسیوں
کولبھاکراپناالوسیدھاکرنے کاکام کرکے تحریک اورعوام کو زک پہنچاتے
رہے۔مستقبل کامؤرخ جب کشمیرکی تاریخ مرتب کرے گاتوان افرادکاذکرجلی حروف
میں تحریر کرے گاجوہرمشکل گھڑی میں عزیمت کانمونہ بنے رہے اورآنے والی
نسلوں کیلئے باعثِ افتخار رہیں گے یقیناًسیدعلی گیلانی کانام سرفہرست
ہوگاجن کی فراست اوربصیرت نے انہیں دلت جیسے سازشی افسر سے دور
رکھااورکشمیرکازکیلئے کسی کے سامنے اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔بقول
اقبال:
اپنے بھی خفامجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہرہلاہل کوکبھی کہہ نہ سکاقند
دلت نے جن انکشافات کادعویٰ کیاہے ان پرکشمیری قیادت کوبچشم سرجائزہ
لیناچاہئے۔اس بات کاقوی امکان ہے کہ کوئی بھی کشمیری لیڈر چاہے اس کا قد
چھوٹاہے یابڑا،اب بھارتی حکومت کے ساتھ راہ ورسم کاخطرہ ہرگزمول نہیں لے
گا۔کشمیری قیادت اب بخوبی جان گئی ہے کہ بھارت کی حکومت اگرپہلے کسی
کومختلف حربوں کے ذریعے سے اپنے نزدیک لے آتی ہے اورمعروف معنوںمیں اپنے
مقاصدکیلئے انگیج کرلیتی ہے تواسے ٹشوپیپرکی طرح استعمال کرکے رسوائی
کاعنوان بھی بناڈالتی ہے۔حدیث ِ قدسی ہے کہ ہر عمل میں ایک پہلوخیرکااورایک
شرکاہوتاہے۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ دلت کے ان شرانگیز انکشافات کے
بعدکشمیرکیلئے جدوجہدآزادی کرنے والے تمام رہنماء ایک مرتبہ پھر اخلاص کے
ساتھ مل بیٹھیں اورخدائے برتر سے نصرت طلب کرتے ہوئے اب تک کے تمام معاملات
کاازسرنوجائزہ لیتے ہوئے ایک مشترکہ حکمت عملی اورایجنڈے پراتفاق کرتے ہوئے
ایک سیسہ پلائی دیواربن کر کشمیری عوام کی رہنمائی کیلئے میدان میں اتریں۔
بہرحال اطمینان بخش حقیقت یہ ہے کہ کشمیری رہنماؤں نے معمولی نوعیت کے
اختلافات کے باوصف حال ہی میں ایک بارپھربھارت اوراس کے اداروں کوباور کرا
دیاہے کہ تحریک آزادی نہ صرف جاری رہے گی بلکہ اس میں رخنہ ڈالنے والوں
کوتاریخ کے کوڑے دان میں ڈال کر آگے بڑھ جائے گی یہاں تک کہ وہ اپنی منزل
پاکرہی رہے گی۔ |