تبدیلی کا آغاز
(Tahir Afaqi, Faisalabad)
کل کی بات ہے ۔ میں اور میرا
دوست کہی جا رہے تھے ۔ میں اپنے فلیٹ میں اپنا کچھ سامان بھول گیا دوست کو
میں نے پچاس کا نوٹ دیا اسے کہا کہ میرے آنے تک وہ ساتھ والی دکان سے ایزی
لوڈ کروا دے ۔ فلیٹ سے سامان لیا باہر آتے ہوئے میسج چیک کیا اس میں پچاس
کی بجائے انچاس کا بیلنس تھا۔ میں فلیٹ سے باہر نکل کر سیدھا دکان کی طرف
گیا اور دوست کو بھی اشارے سے آنے کا کہا۔دکاندار سے میں نے کہا بھائی پچاس
کا بیلنس کروایا ہے اور انچاس روپے آئے ہیں ۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا
اور حیرانگی سے کہا ۔تو۔ میں نے پھر اپنے الفاظ دوہرائے۔ اس کا ردعمل وہی
تھا۔ میں نے کہا بھائی آپ نے ایک روپیہ کم لوڈ کیا ہے ۔اس نے کہا ہم ایک
روپیہ کم ہی کرتے ہیں ۔ میں نے کہا بھائی تو یہاں لکھ کر لگائیں۔ پہلے تو
کچھ بول نہ سکا پھر کہا آپ ایک روپے کی خاطر میرے سے لڑیں گے ۔ میں نے کہا
جی۔ پھر اس نے پینترا بدلا ۔ بھائی ہر کوئی ایک روپیہ کم لوڈ کرتا ہے۔ میں
نے کہابھائی آپ کے ساتھ والا دکاندار تو ایسا نہیں کرتا اس نے اپنی بات پے
پھر زور دیا ۔ میں نے اسے کہا ۔ کیا خوب اصول ہے اگر کوئی دوسرا حرام روزی
کھاتا ہے تو کیا تم بھی حرام روزی اپنے بچوں کو کھلاؤ گے۔
ایسے معاملات سے واسطہ ہمیں روز پڑتا ہے۔ سیاستدانوں کو کرپٹ کہنے دوسروں
کو تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہمارے گلیوں اور بازاروں میں بیٹھے
ہوئے ایسے ٹھگوں اور بھتہ خوروں کے خلاف بھی آواز اٹھائی جائے۔عملی تبدیلی
کا آغاز ہمیں اپنی ذات سے کرنا ہو گا۔ کسی بھی برائی کو سب سے پہلے اپنی
ذات پھر گھر اور گلی محلوں سے ختم کیا جاتا ہے اس کے بعد اس کادائرہ کار
ملکی سطح تک پھیلایا جاتا ہے۔ |
|