مسلمانوں کو ایک نئے خطرے کا سامنا
داعش کو وجود میں آئے تقریبا دوسا ل سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ اپریل
2013 میں یہ تنظیم دنیا کے نقشے پر وجود پذیر ہوئی تھی ۔ داعش کا پورانام
’’الدول الاسلامیہ فی االعراق و الشام‘‘ ہے جسے انگلش میں ’’Islamic State
of Iraq and Syria‘‘(آئی ایس آئی ایس) کہتے ہیں اور اب یہ نام مختصر ہوکر’’
آئی ایس ‘‘ہوگیا ہے۔ تنظیم کے سربراہ ابو بکر البغدادی ہیں جو اپنے حامیوں
کے مابین امیر المومنین کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔اس تنظیم کا بنیادی مقصد
عراق و شام میں خلافت اسلامیہ کا قیام ہے ۔ اپنے وجود میں آنے کے فورا بعد
داعش نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی ۔ اپنی طاقت اور قوت کے
سامنے عراقی کی آرمی کو بے بس کرکے عراق کے اکثر حصہ پر قبضہ کرلیا ۔دوسری
طرف شام کی طرف بھی یہ تنظیم کافی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے ۔ عراق و شام
میں داعش اپنی حکومت قائم کرچکی ہے ۔ عراق کے بیشتر حصے پر داعش قابض ہے ۔
موجودہ حکومت کا علاقہ برائے نام رہ گیا ہے۔ داعش کے زیر کنٹرول علاقہ کی
کل آبادی آٹھ ملین بتائی جارہی ہے ۔ نظام مملکت کی تمام چیزیں داعش کے زیر
اقتدار علاقوں میں پائی جاتی ہے ۔ تاہم اب عالمی رہنما ؤں نے اسلامی ریاست
کو ایک علاحدہ ملک کے طور پر قبول نہیں کیا ہے اور اس پر ہر طرح کی
پابندیاں عائد ہے۔
عالمی رہنماؤں کا ماننا ہے داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس سے پوری دنیا کو
خطرہ لاحق ہے ۔اس کی آہٹ امریکہ اور یور پ تک سنائی دینے لگی ہے۔داعش کی
مسلسل پیش قدمی کو روکنے کے لئے امریکہ نے سب سے پہلے پہل کی اور چالیس
ممالک کے اتحاد پر مشتمل فوج تیار کرکے داعش کی سرکوبی شروع کردی۔ ان دنوں
تقریبا 60 ممالک بلاو اسطہ یا بالواسطہ طور پر اسلامک اسٹیٹ کے خلاف
برسرپیکار ہیں لیکن مرض بڑھتا گیاجوں جوں داوا کی۔
داعش سمٹنے کی بجائے دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔ اس کے زیر اقتدار علاقوں کی
تعدا د میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ چالیس ممالک کی فوجوں کی کاروائیاں داعش
کے سامنے بے اثر ثابت ہورہی ہے ۔ ہرروز داعش کی پیش قدمی کی ہی خبریں آرہی
ہیں۔ داعش کی ہزیمت اور شکست کی خبریں آج تک میڈیا کی زینت نہیں بن سکی ہے۔
حالاں کہ یہی امریکہ اور ناٹو کی افواج ہے جس نے ایک ہفتہ کے اندر اندر
لیبیا کی قذافی حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا ۔ ایک چھوٹا سا بہانہ بناکر
لیبیا پر قبضہ کرکے وہاں کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی لیکن داعش کے
خاتمہ کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہورہی
ہے ۔
داعش کے حوالے سے مسلسل ایسی خبریں آرہی ہیں جس پر یقین کرنا ایک عام آدمی
کے لئے بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔ روز اول سے عالمی میڈیا کے توسط سے داعش کی جو
خبریں آرہی ہے ان کا لب لبا ب یہ ہوتا ہے کہ داعش دنیا کی ایک خطرناک دہشت
گرد تنظیم ہے ۔ داعش سے وابستہ افراد خون کے پیاسے، انسان نما درندے
اوربھیڑ یے ہیں جو برسر عام بے گناہوں کا قتل کرتے ہیں ۔ عورتوں کی عصمت
وعفت چاق کرتے ہیں ۔اپنے احکامات نہ ماننے والوں پر شکنجہ کستے ہیں ۔ مغربی
میڈیا نے متعدد ایسی ویڈیو ز داعش کی حوالے سے جاری کی ہیں جسے دیکھ کر
دنیا نے یہ تسلیم بھی کرلیا کہ واقعی داعش ایک خونخوار تنظیم ہے ۔ داعش کے
خونخوار ہونے کی جو سب سے بڑی دلیل دی جاتی ہے وہ یہ کہ داعش بے گناہوں کا
قتل کرکے اس کی ویڈوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتی ہے تاکہ لوگوں میں اس کا
خوف وڈر رہے۔ اس سلسلے میں ماضی میں دو ویڈیو کی خبرہفتوں اخبار کی شہ
سرخیاں بنتی رہی ہیں ۔ایک دو جاپانی شہری کے قتل کی ویڈیو اور دوسرے ایک
امریکی صحافی کے قتل کی ویڈیو ۔ ان دونوں ویڈیو کے ذریعہ یہ دیکھا یاگیا
تھا کہ داعش نے ان کا سر قلم کردیا ہے ۔ لیکن ویڈیو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ
وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے کیوں ان ویڈیوز میں صرف جلا د اور جس شخص کو قتل
کیا جارہا ہے اسے دیکھا جارہا ہے اور بس ۔ نہ قتل کرتے ہوئے دیکھایا گیا ہے
اور نہ مقتول کی تصویر ہے ۔ جس سے صافہ پتہ چلتا ہے کہ اس ویڈیو کی کوئی
حقیقت نہیں ہے ۔ داعش کی ان حرکتوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ قتل کی
ویڈیوں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ داعش پوری دنیا پر اپنا خوف مسلط کرنا
چاہتی ہے لیکن سوال یہ پید ا ہوتا ہے اگر داعش کا مقصد پوری دنیا پر اپنا
خوف قائم کرنا ہے تو پھر عین قتل کی ویڈکیوں جاری نہیں کرتی ہے ۔ویڈیو کی
شکل اور ہیئت دیکھ یہ کہنا مشکل ہے کہ ویڈیو حقیقت پر مبنی ہے ۔ جس امریکی
صحافی کے قتل ویڈیو جاری کی گئی تھی اس کے بارے میں یاہو ڈاٹ کام نے یہ
رپورٹ پیش کی تھی اس شکل کا آدمی میں امریکہ میں موجود پایا گیا ہے ۔
داعش میں شامل لوگ کون ہیں ؟۔داعش کی حقیقت کیا ہے ؟۔ کب سے یہ تنظیم پس
پردہ کام کررہی تھی؟ ۔ اندورنی طور پر کون لوگ داعش کی مدد کررہے ہیں ؟۔ یہ
تمام ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات اب تک نہیں مل سکے ہیں ۔تاہم حقائق پر
نگاہ رکھنے والے یہ مانتے ہیں کہ یہ سب امریکہ کا کھیل ہے ۔ داعش کے بہانے
امریکہ پوری دنیا میں اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ وہ اسلام
کا دہشت گردانہ چہرہ پیش کرنے کی کوشش میں داعش جیسی تنظیم کو وجود میں
لایا ہے ۔داعش سے امریکہ کا یہ بھی مفاد بھی وابستہ ہے کہ عراق و شام کا
مزید ایک ٹکرا ہوگیا ہے جس سے مسلم ممالک کی طاقت مزید کمرزور ہوئی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ داعش کی جنگ سیاسی ہے ۔ اس میں
وہ لوگ شامل ہیں جو عراق کے سابق صدر صدام حسین کے زمانے میں افسران تھے ۔
سالوں کی تیاری کی بعد یہ تنظیم منظر عام پر آئی اور عراقی حکومت کے خاتمہ
میں ایک سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔داعش کا معاملہ جو کچھ ہو
لیکن اتنا ضرور ہے کہ داعش کے بہانے عالمی میڈیا پوے عالم اسلام کی شبیہ پر
بد نما داغ لگا رہا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کو ششوں میں
مصروف ہے ۔ ان خبروں کے سہارے پور ی دنیا داعش کو اسلام سے جوڑ کر یہ کہ
رہی ہے داعش دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے ۔ حالاں کہ جن لوگوں نے
داعش کو قریب دیکھا ہے ان کی نگاہ میں داعش ایک امن پسند جماعت ہے ۔ گذشتہ
سال داعش کی یرغمال میں چالیس ہندوستانی نرسیں تھیں ۔ عراق سے واپسی پر
داعش کے حوالے سے ان نرسوں جو کچھ کہاتھا و ہ داعش کی ایک نہیں تصویر پیش
کرتی ہے لیکن افسوس کہ میڈیا میں اسے جگہ نہیں مل سکی۔ داعش کی زیرحراست
رہنے والی نرسوں کا کہنا تھاکہ داعش ایک امن پسند تنظیم ہے ۔ انہوں نے مجھے
اپنی بہن جیسی عزت دی وہ لوگ دہشت گرد نہیں ہوسکتے ہیں۔لیکن عالمی میڈیا کے
حوالے سے آنے والی ہرخبر داعش کی قتل و غارت گیری ، سفاکیت ، ظلم اور تشدد
کی کہانی پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔
حالیہ دنوں میں عالمی میڈیا کے توسط سے ایک ایسی ہی خبر ہندوستان میں گرد ش
کررہی ہے ۔اس خبر کے کے مطابق داعش عراق و شام کی سرحد سے نکل براہ راست
ہندوستان پر حملہ کرکے اسے اپنی مملکت میں شامل کرنے کی خواہش مند ہے بلکہ
وہ ہندوستان پر حملہ کرکے ایک نئے عالمی جنگ کا آغاز کرنا چاہتی ہے ۔
امریکہ کے اخبار’’ یوایس اے توڈے‘‘ نے ایک رپوٹ شائع کی ہے ۔ رپوٹ کے مطابق
پاکستان میں طالبان سے وابستہ کسی پاکستانی شخص کے پاس سے 32 صفحات پر
مشتمل اردو زبا ن میں ایک دستاویزبر آمد ہوا ہے جس میں امریکہ اور ہندوستان
کے خلاف داعش کی جنگ کا پورا نقشہ بنا ہواہے اور یہ عبارت درج ہے کہ داعش
طالبان اور القاعدہ کے تعاون سے ہندوستان پر ایک بڑا حملہ کرنے کا منصوبہ
بنارہی ہے جس کے نتیجے میں امریکہ بھی اس حملہ میں ہندوستان کا دفاع کرنے
کے لئے شریک ہوگا اور اس طرح داعش کے ساتھ امریکہ بھی کھلے عام میدان میں
آجائے گا پھر ایک بڑی جنگ چھڑجائے گی اور داعش عراق و شام سمیت پوری دنیا
میں اپنی خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔یو ایس اے ٹوڈے کا یہ
انکشاف ہے جسے دنیا بھر کے اخبارات نے شائع کیا ہے ۔ تاہم مستند سمجھے جانے
والے میڈیا ہاؤس نے اس خبر کے حوالے سے خاموشی اختیا رکرکھی ہے ۔بلکہ انہوں
نے اس خبر پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔
یوایس اے توڈے نے داعش کے جس منصوبے کا ذکر کیا ہے ۔ اور ہندوستانی میڈیا
میں داعش کی پلاننگ کی یہ خبر جس طرح چل رہی ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے
اس خبر کے پس پردہ حکومت ہندکوئی اور منصوبہ تیار کررہی ہے ۔انڈین مجاہدین
اور سیمی کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاری کے بعد داعش کا یہ نیا
فلسفہ گڑھا گیا ہے تاکہ ایک مرتبہ پھر ہندوستان میں بے گناہ مسلمانوَں کی
گرفتاری کا سلسلہ شروع کردیا جائے ۔دہشت گردی کے نام پر اندھا دھند
مسلمانوں کو پکڑ کے جیل کی سلاخوں میں ڈالا جائے ۔
ہندوستان میں دہشت گردی کے الزام میں مسلمانوں کی بے جاگرفتاری کوئی نئی
بات نہیں ہے ۔ ہزاروں مسلمانوں کو انڈین مجاہدین کے الزام میں اب تک گرفتار
کیا جاچکا ہے ۔جب بھی جہاں کہیں بھی کوئی دہشت گردانہ واقعہ پیش آتا ہے اس
کا ذمہ مسلمانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے اور انڈین مجاہدین کا ممبر قراردے کر
اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار یہاں کی میڈیا
ادا کرتی ہے جو حملہ کے فورا بعد انڈین مجاہدین کو مورد الزام ٹھہرادیتی ہے
۔ حالاں کہ جن لوگوں کو اس الزام میں گرفتار کیا جاتاہے عدالتوں میں ثبوت
نہ ہونے کی وجہ ان کی رہائی ہوجاتی ہے لیکن پولس اس کے باوجود اپنے رویہ
میں کوئی تبدیلی نہیں لاتی ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں انڈین مجاہدین
نا م کوئی تنظیم نہیں ہے ۔ آج تک ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں اس کے بانی ،
اہم ذمہ دار اور ہیڈ آفس کے بارے میں کوئی پتہ نہیں لگا سکی ہے اور یہ ہوگا
کیوں کر جبکہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ انڈین مجاہدین ہندوستان کی خفیہ
ایجنسیوں کی خود ساختہ تنظیم ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو اس کا ممبر بناکر
دہشت گردبنانا اور ان کی زندگی کو تباہ برباد کرنا ہوتا ہے ۔
داعش کی حوالے سے جس طرح کی خبریں میڈیا کی آج کل زینت بنی ہوئی ہے اسی طرح
کی ایک خبر نومبر 2014 میں بھی ہندوستانی میڈیا میں چھائی ہوتی تھی فرق
اتنا ہے کہ پہلی خبر کا تعلق القاعدہ سے تھا اور حالیہ کا تعلق داعش سے ہے
۔نومبر 2014 میں یہ خبرچل رہی تھی کہ کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری
نے اپنے ایک آڈیوبیان کے ذریعہ ہندوستان پر حملہ کی دھمکی دی ہے ۔ اس آڈیو
کے مطابق بر صغیر ہند میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ بہت دراز
ہوچکا ہے ایسے میں ہندوستا ن پر حملہ کرکے ہندوستانی مسلمانوں کو کافروں کے
چنگل سے آزاد کرانے کے لئے جہاد فرض ہوچکا ہے اور القاعدہ کی نئی شاخ بر
صغیر میں اس فریضہ کو جلد ہی انجام دے گی ۔ لیکن تمام تر کوششوں کی باوجود
اس خبر کی حقیقت کا کوئی انداز ہ نہیں لگ سکا ۔ میڈیا نے ایک طوفان ضرور
کھڑا کیا ، بہت سے لوگوں کو القاعدہ کی نئی شاخ کا سربراہ بھی نامزد کردیا
گیا لیکن وقت نے سب کو جھوٹا ثابت کردیا اور یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی
۔داعش کے تعلق سے یو ایس اے ٹوڈے نے جو انکشاف کیا ہے اس پر بھی حقیقت سے
زیادہ افسانہ ہونے کا شبہ ہورہا ہے ۔ کئی وجوہات سے وہ مشکوک اور قابل
اعتراض بھی ہے ۔
اس دستاویز کے مطابق داعش طالبان اور القاعدہ کی مدد سے ہندوستان پر حملہ
کرے گی جبکہ داعش کے نظریہ سے طالبان اور القاعدہ متفق نہیں ہے اور نہ ہی
ان سب کے درمیان کسی طرح کا تعلق ہے ایسے میں یہ کہنا کہ داعش کا یہ
دستاویز ایک طالبانی کے پاس سے دستیا ب ہوا ہے بے معنی لگتا ہے ۔ اس رپوٹ
کو حقیقت پر مبنی اس لئے بھی نہیں کہاجاسکتا ہے داعش کی پہنچ پاکستا ن تک
نہیں ہوسکی ہے ایسے میں اس رپوٹ کا پاکستان میں پایا جانا اور مزید برآں یہ
کہ اس کا اردو میں ہونا کئی سوال پید کرتا ہے ۔ رپوٹ کے بہ قول داعش کا
منصوبہ ہندوستان پر حملہ کرنے کا ہے تو پھر سوال یہ اٹھٹا ہے کہ اتنی بڑی
رازداری کی بات داعش نے پاکستان کے کسی عام شہری کے حوالے کیسے کردی ۔ وہ
بھی کوئی زبانی اطلاع نہیں دی بلکہ پورا منصوبہ ہی سامنے رکھ دیا ۔افغان
طالبان ان دنوں خود مشکلوں کے سایے میں ہے ۔ ملاعمر کے انتقال کی خبر آنے
کے بعد طالبان میں اختلاف کی خبریں آرہی ہے۔نیز خود افغان کے حالات ایسے
ہیں جو طالبان کو افغانستان سے باہر قدم نکالنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں
۔ایسے میں داعش کے ساتھ شامل ہوکر ہندوستان پرحملہ کرنے کی پلاننگ بے معنی
ہے۔
اس رپورٹ کے خدو خال اور نشیب و فراز پر غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ
یہ سب ایک بڑی سازش کے تحت کیا جارہا ہے ۔ اس خبر کو فروغ دینے کا واحد
مقصد داعش کے بہانے دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی بے جاگر فتاری
کا کھیل کھیلنے کا منصوبہ ہے ۔ا س طرح کی کوشش پہلے القاعدہ کا نام استعمال
کرکے کی گئی تھی لیکن اس میں کامیابی نہیں مل سکی اورہندوستان مسلمانوں نے
القاعدہ سے منسوب پیغام پر کوئی توجہ نہیں دی تو اب داعش کا یہ نیا شوشہ
چھوڑا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کی گرفتاری کا ایک معقول جواز مل سکے ۔ اور
انڈین مجاہدین اور سیمی کی طرز پر اب داعش کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاری
کا سلسلہ شروع کردیا جائے۔
داعش کو دنیا ایک دہشت گرد تنظیم مانتی ہے ۔ داعش کے حوالے سے جو خبریں آتی
ہے اس کی بناپر ایک مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ کیا اسلامی خلافت
کے قیام کے دعویدار بھی ایسی اوچھی اورناپاک حرکتیں کرسکتے ہیں لیکن اس
سچائی سے بھی انکار نہیں ہے کہ داعش کے سہارے امریکہ مسلمانوں کی شبیہ
بگاڑنے اور عالم اسلام کی طاقت کو کمزور کرنے کی پالسی پر عمل پیر ا ہے ۔
یوایس اے ٹوڈے کی یہ رپورٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد
ہندوستانی مسلمانوں کے نزدیک شکنجہ کسنا اورداعش کے نام پر گرفتار کرکے
انہیں جیل کی سلاخوں میں ڈالنا ہے۔ |