رانا محمد اصغر سینئر جرنلسٹ واں
بھچراں
ضلع میانوالی میں ماضی کی طرح حال میں بھی متاثرین سیلاب مالی امداد سے
محروم۔۔۔آخرکیوں ؟
ماضی کی کی طرح سال 2015 میں بھی سیلابی پانی نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ
میں لیتے ہوئے ہر طرف تباہی ہی تباہی کے مناظر نقش کیے اور ساتھ ہی
موسلادھار بارشوں نے سونے پہ سہاگہ کا کام کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کی
مشکلات میں اضافہ کیا پورے ملک کی طرح ضلع میانوالی کی عوام بھی اس قدرتی
آفت سے محفوظ نہ رہ سکی اور ضلع بھر کے عوام کو پانی نے اپنی لپیٹ میں لیتے
ہوئے کھڑی فصلات کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر
کر کے رکھ دیا اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ ضلع میانوالی گذشتہ کئی سالوں
سے اس تکلیف اور اذیت سے دو چار ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے پیمانے
پر تباہی کا باعث بننے والے اس سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے اقدامات کیے
جائیں تاکہ اس پانی کو بوقت ضرورت کام بھی لایا جا سکے اور عوام بھی ہر سال
اس پریشانی سے چھٹکارہ حاصل کرے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی
اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو حکومت پنجاب نے عوام کو ہر سال آنے والی اس
قدرتی آفت سے بچانے کے لئے جو اقدامات کیے اور کر رہی ہے وہ قابل تحسین ہیں
جس طرح حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں
خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے اسی طرح ضلعی حکومت اور عوام کے منتخب
نمائندگان ایمانداری اور خلوص نیت سے حکومت کا ساتھ دیں تو کافی حد تک عوام
کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے اس مقصد کے لئے حکومت کی جانب سے ضلعی حکومت
اور عوامی نمائندوں کو ملنے والے کروڑوں روپوں کا حساب کیا جائے تو شرمندگی
کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا کیوں کہ اگر یہ روپے ایمانداری اور قومی امانت
سمجھتے ہوئے تعمیری کاموں میں خرچ کیے جاتے تو ہر سال تباہی سے عوام کو
بچایا جا سکتا تھا مگر بد قسمتی سے ہمارے منتخب نمائندے ہوں یا ضلعی آفسران
نے اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ کوئی بھی قابل ذکر اقدامات کرنے میں با لکل
ناکام رہے ہیں ،دوسری جانب ضلع کی وہ عوام جسے کسی سیاست دان کی پشت پناہی
حاصل نہ ہواور وہ چند بد کردار سیاسی نمائندوں سے نالاں ہیں ان لوگوں کی
زندگی تو جہنم بن کر رہ گئی ہے ایسے لوگوں کوانتظامیہ کی جانب سے بھی کوئی
ریلیف نہیں دیا جاتا اگر ایسے لوگوں کا ذکر نہ کیا جائے تو صحافتی بددیانتی
ہو گی جس کی مثال ضلع میانوالی سے واں بھچراں کے عوام ہے ویسے تو چندماہ
قبل واں بھچراں کے مسلم لیگی عہدیداران کی اپیل پرسابقہ ڈی سی اومیانوالی
شیخ غلام مصطفی نے بھی ضلعی جنرل سیکرٹری پاکستان مسلم لیگ ن حکیم محمد
ایوب قریشی کے ہمراہ علاقہ واں بھچراں کا وزٹ کیا تھا اور عوام کو ان کے
مسائل کے فوری حل کی یقین دہانی بھی کروائی تھی، جہاں ضلعی حکومت کے چند
آفسر ان اپنی جیبوں کو بھرنے اور اپنے سیاسی آقاؤں کے سامنے مجبور اور بے
بس دکھائی دیتے ہیں وہیں ٹی ایم اے میانوالی کے آفسران بھی سیاسی بتوں کو
سجدہ کرنے سے کسی طور پر پیچھے نہیں ہیں اور اپنی نا اہلی کو قبول کرنے کی
بجائے ڈھٹائی سے عوام پر زمینی خدا بنے ہوئے ہیں ،ذکر علاقہ واں بھچراں کا
ہو رہا تھا جس کی بیشتر آبادی کچی ہے اور مزدور طبقہ کے افراد یہاں کے
رہائشی ہیں گذشتہ بارشوں سے تقریباّ 80فیصد آبادی متاثر ہوئی ہے اکثر
مکانات زمین بوس ہو چکے ہیں اور علاقہ کے اطراف میں پانی کی موجودگی مزید
نقصانات کی جانب نشاندہی کر رہی ہے لیکن ضلعی انتظامیہ کا عملہ چند سیاست
دانوں کے ہاتھوں پتلی تماشہ بنی ہوئی ہے جہاں ان حضرات کی نظر شفقت ہو اس
طرف کا پانی نکال کر کلین کر دیا جاتا ہے ورنہ عوام خدا کے سہارے اپنی مدد
آپ کے تحت بہتری کی کوشش کر رہی ہے،اس بات کا مقصد صرف ذمہ داروں کو اپنی
ذمہ داری کا احساس دلانا تھا جو شاید ہی کسی کو ہو ورنہ تقریباّ عرصہ کئی
سالوں سے مختلف اخبارات کے ذریعے تحریری درخواستوں اوروفود کی صورت میں ضلع
میانوالی انتظامیہ کو مسائل سے آگاہ کیا گیا لیکن پتہ نہیں کیوں علاقہ واں
بھچراں کی عوام سے ایسا کون سا گناہ ہوا جس کی سزا اس انداز میں بھگت رہے
ہیں۔یہاں پر ایک اور خاص بات کا ذکر کرتا چلوں کہ ماضی میں جس طرح مالی
امداد سے حق دار محروم ہو ئے حال میں بھی ضلع میانوالی کے تمام علاقوں کے
متاثرین جس میں علاقہ واں بھچراں ،شادیہ اور گردونواح کے علاقے بھی شامل ہے
اسی قسم کی صور تحال سے دو چار ہیں حکومتی سطح اور سیاسی سماجی تنظیموں کی
جانب سے تقسیم کی جانے والی مالی امداد ہو یا راشن ٹینٹ تمبوں وغیرہ یہ سب
کچھ ہٹے کٹے من پسند لوگوں میں ہی تقسیم کیا جا رہا ہے جبکہ مستحق افراد آج
بھی کسی مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ |